جمرود: افغانستان کی سرحد سے متصل خیبر ایجنسی کے حکام کہتے ہیں کہ وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کی خیبر ایجنسی میں 30 ہزار برس قدیم آثار قدیمہ کی دریافت سے سیاحوں کو اس جانب متوجہ کرنے اور جنگ سے متاثرہ اس خطے کی معاشی حالت بہتر بنانے میں مدد حاصل ہو گی۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں سے جاری شورش کے باعث علاقے میں امن و امان کے خراب حالات کے پیشِ نظر ان آثارِ قدیمہ کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
نیوز لینز پاکستان کو حاصل ہونے والی دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ یہ آثارِ قدیمہ قبل از تاریخ، بدھ مت، اسلامی اور برطانوی عہد کے ہیں۔ یہ آثارِ قدیمہ اس وقت دریافت ہوئے جب قبائلی ایجنسیوں کو منتظم کرنے کی ذمہ دار سیاسی انتظامیہ نے صوبہ خیبرپختونخوا کے ڈائریکٹوریٹ آف آرکیالوجی کی تکنیکی معاونت سے خیبر ایجنسی میں پائلٹ سروے کیا۔
خیبرپختونخوا ڈائریکٹوریٹ آف آرکیالوجی و میوزیمز کے سربراہ ڈاکٹر عبدالصمد کہتے ہیں:’’یہ آثارِ قدیمہ خیبرایجنسی کے ایک گاؤں سے دریافت ہوئے ہیں جو قریباً 30 ہزار برس قدیم ہیں۔‘‘ انہوں نے سرویئرز کی اس ٹیم کی قیادت کی جس نے یہ آثارِ قدیمہ دریافت کیے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالصمد نے مزید کہا کہ قبائلی ایجنسی میں اب تک مجموعی طورپر 110 ایسے مقامات دریافت کیے جا چکے ہیں جن میں سے تین قریباً 30 ہزار برس قدیم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس دریافت سے قبل یہ خطہ تاریخی اہمیت کے حامل بہت سے دیگر مقامات کے باعث معروف تھا جن میں چٹانوں پر بنائی گئی تصویریں، پل، سرنگیں اور بدھ مت کے عہد کے سٹوپا شامل ہیں۔
تاہم خیبر ایجنسی کی سیاسی انتظامیہ ان مقامات کے تحفظ کے لیے سکیورٹی کے مناسب میکانزم کے نہ ہونے کے باعث پریشان ہے۔
خیبرایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ خالد محمود نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تاریخی اہمیت کے حامل نئے اور پرانے مقامات جیسا کہ سرنگیں، غار اور قدیم شہنشاہوں کی جانب سے قائم کی گئی جیلیں اس خطے کے معاشی مستقبل کے حوالے سے نہایت اہم ثابت ہو سکتی ہیں جو طویل عرصہ سے شورش کا شکار ہے لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ان کی مناسب طور پر حفاظت کی جائے۔
انہوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے اس تلخ حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ پوری ایجنسی میں آثارِ قدیمہ کا کوئی ماہر موجود نہیں ہے اور نہ ہی ان مقامات کی سکیورٹی کے لیے مناسب اقدامات کیے گئے ہیں۔ خالد محمود نے مزید کہا:’’گندھارا تہذیب سے تعلق رکھنے والے پانچ سٹوپاز اور ایک سو برس قدیم ریلوے کی پٹریوں اور سرنگوں کی حالتِ زار نہایت خراب ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی نگرانی کا کوئی مناسب میکانزم موجود نہیں ہے۔‘‘
خیبرپختونخوا حکومت اور وفاقی حکومت نے تاریخی آثار کے تحفظ کے لیے خیبرپختونخوا ایکٹ برائے آثار قدیمہ 2016ء اور وفاقی ایکٹ برائے آثارِ قدیمہ 1975ء تشکیل دے رکھا ہے لیکن پاکستان کے آئین کی شق 147 کے تحت فاٹا پاکستان کے قانون کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ اس خطے کو فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آر) کے تحت منتظم کیا جا رہا ہے۔ یوں آثارِ قدیمہ کے تحفظ کے حوالے سے صوبائی و وفاقی قوانین کا قبائلی علاقوں پر اطلاق نہیں ہوتا۔ ماہرین اسے وہ بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں جس کے باعث خطے میں واقع آثارِ قدیمہ کے مقامات کا مناسب طور پر تحفظ کرنا ممکن نہیں ہو پا رہا۔
ایک معروف ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر نداء اللہ صحرائی کہتے ہیں کہ پاکستان میں دو متوازی قوانین کے موجود ہونے کے باعث ایسی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے جس کے باعث مختلف خطوں جیسا کہ فاٹا پر پاکستان کے آئین کا اطلاق نہیں ہوتا۔
خیبرپختونخوا کے محکمۂ آرکیالوجی و میوزیمز کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر نداء اللہ صحرائی نے کہا:’’ملک بھر میں یکساں قوانین اور گورننس کا نظام ہونا چاہئے اور قبائلی علاقوں میں تاریخی مقامات کے تحفظ کے لیے آثارِ قدیمہ کے قوانین کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائے۔‘‘
ان سے جب تاریخی مقامات کی سکیورٹی و تحفظ کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ سکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کے ذریعے مقامی لوگوں میں تاریخی ورثے کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ ڈاکٹر نداء اللہ صحرائی نے مزید کہا:’’بچوں کی نصابی کتابوں میں ایسے ابواب شامل کیے جائیں جن میں ہمارے تاریخی مقامات کی اہمیت اجاگر کی گئی ہو۔‘‘
انہوں نے یہ استدلال بھی پیش کیا کہ خطے میں امن قائم ہو جائے تو ثقافتی سیاحت کو فروغ حاصل ہو گا اور سیاحوں کی ایک بڑی تعداد ان علاقوں کا رُخ کرے گی۔
انہوں نے سیاحوں کی توجہ ان تاریخی مقامات کی جانب مبذول کروانے کے لیے مناسب سہولیات کی فراہمی کی تجویز بھی دی جن میں ان مقامات پر رہائش و کھانے پینے کی مناسب سہولیات، سکیورٹی اور ٹرانسپورٹ کے معقول انتظامات کا کیا جانا لازمی ہے۔
خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ خالد محمود نے کہا کہ انتظامیہ آثار قدیمہ کے تحفظ کے قوانین کا دائرہ کار خطے تک بڑھانے کے لیے حکومت کے ساتھ بات چیت کرتی رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ان تاریخی مقامات کے تحفظ میں مدد حاصل ہو گی۔‘‘
یونائٹڈ نیشنز ایجوکیشنل سائنٹفک و کلچرل آرگنائزیشن ( یونیسکو) نے پاکستان کے چھ تاریخی مقامات کو عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے جن میں موہنجو داڑو میں واقع وادئ سندھ کے قدیم آثار، ٹیکسلا اورخیبرپختونخوا کے علاقوں تخت بھائی اور سیری بہلول میں واقع بدھ مت کے قدیم آثار، ٹھٹھہ کے قدیم مقبرات، لاہور کا شاہی قلعہ و شالامار باغ اور جہلم کے قریب واقع قلعہ روہتاس شامل ہیں۔ 18مقامات ایسے ہیں جنہیں یونیسکو کی جانب سے فی الحال عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کیا جانا ہے۔
قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد کے ٹیکسلا انسٹی ٹیوٹ آف ایشین سیویلائزیشن سے منسلک ڈاکٹر رفیع اللہ خان اپنے ایک تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں کہ کسی بھی خطے میں موجود تاریخی مقامات وہاں رہنے والے مقامی لوگوں کی معاشی حالت بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ وہ ’کنزرویشن سائنس ان کلچرل ہیریٹیج‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالے بعنوان ’’گندھارا کے ثقافتی ورثے کی بحالی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ تاریخی مقامات مقامی، قومی اور عالمی سطح پر آمدن کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔
ڈاکٹر رفیع اللہ خان مزید لکھتے ہیں:’’دنیا کے دیگر حصوں سے آنے والے سیاحوں کے باعث معاشی مواقع کے پیدا ہونے کے علاوہ ایسے مقامات پاکستان کا مثبت تاثر اجاگر کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔‘‘ وہ لکھتے ہیں:’’یہ مقامات (پاکستان کی) ثقافت کو مغربی ملکوں سے آنے والے سیاحوں کے ذریعے دنیا بھر میں نمایاں کرنے کے لیے بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔‘‘
انہوں نے یہ تجویز دی کہ عالمی امدادی اداروں کو چاہئے کہ وہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں تاریخی مقامات کو محفوظ بنانے کے لیے مدد فراہم کریں۔
ڈاکٹر رفیع اللہ خان مقامی آبادی کی جانب سے ان کھنڈرات میں خزانوں کے مدفن ہونے کی سوچ کو درست تصور نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں:’’انہی وجوہ کے باعث آثارِ قدیمہ کے اردگرد خفیہ سرگرمیاں شروع ہو جاتی ہیں جن سے ان مقامات کی اہمیت متاثر ہوتی ہے۔‘‘
انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ آثارِ قدیمہ میں خزانے پوشیدہ ہونے کے تاثر کو آگاہی پیدا کر کے اور ایسے مقامات کو محفوظ بنا کر آسانی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔