دوران ڈیوٹی زخمی ہونے والے صحافیوں کی آپ بیتی

0
495

رپورٹ: (عرفان اطہر منگی) کہیں دھماکا ہو، فائرنگ ہو ، ہنگامہ آرائی ، لاٹھی چارج ، شیلنگ ہو یا پھر کوئی بھی احتجاجی مظاہرہ جس میں حالات کشیدہ ہونے کا اندیشہ ہو یا پھرکہیں آگ لگے ، لوگ ڈر کر اس مقام سے محفوظ مقام کی جانب منتقل ہوتے ہوں ، قدرتی آفات ہوں اور رونما ہونےولا کوئی بھی حادثہ جس کا سن کر انسان کا جی چاہے اس مقام اس جگہ سے کہیں دور چلاجائو ۔ صرف واحد صحافی ایسا شعبہ ہے جو اس مقام تک پہنچتا ہے اس کور کرتا اپنی جان خطرے میں ڈال کر رونما ہونے والی تمام حالات واقعات کو عکس بند کرتاہے۔

اپنی ڈیوٹی کے دوران صحافی زخمی ہوتے ہیں یہاں تک کے جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ یہ وہ تلخ تجربات ہیں جن میں سیفٹی کا سب سے پہلے خیال رکھنا چاہیے۔

پاکستان میں صحافت پہلے سے ذیادہ بہتر تو ہے لیکن موجودہ حالات کے لحاظ سے خطرناک بھی ہے۔

ابرار احمد دنیانیوز کے صحافی جو دھماکے میں شدید زخمی ہوئےجو گزشتہ 14 سالوں سے وابستہ صحافت سے وابستہ ہیں۔

 ان کا کہنا تھا کہ “میں کوئٹہ کے علاقے خیزی چوک پر واقع ایک ٹرمینل میں دھماکے کی کوریج کے دوران میں زخمی ہوا ، جو 5 ستمبر 2019 کو ہوا تھا۔ دھماکے کے بعد ٹرمینل میں ایک دھماکہ ہوا جسکی کوریج کے لیے میں گیا تھا ، جس میں 4 افراد زخمی ہوئے تھے ، جب میں اپنی ٹیم کے ساتھ موقع پر پہنچا ، جونہی ہم ٹرمینل کے  گیٹ پر پہنچے تو وہاں دوسرا دھماکہ ہوا ، جسکے نتیجے میں ، میرا کیمرہ مین رحمت علی ، اور پولیس سمیت 12 افراد زخمی ہوئے۔جبکہ ایک ریسکیو اہلکار محمد نعیم دھماکے میں شہید ہوگیا۔ جودھماکے کے وقت میرے ساتھ ہی ٹرمینل میں داخل ہو رہے تھے”۔

 ان کامذید کہنا تھا کہ”میرے آفس کولیگز اور چینل کی جانب سے مجھے مکمل اسپورٹ کیا گیا۔چونکہ دھماکے سے میں اور میرا کیمرہ مین رحمت علی شدید زخمی ہوئے تھے ہمیں آئی جی پولیس کے خصوصی طیارے سے کراچی پہنچایا گیا جہاں ہمارا علاج شروع ہوا۔ جب میں پہلی مرتبہ کراچی کے آغا خان اسپتال  پہنچا جہاں پہلے میرے آپریشنز ہوئے اور میں 20 روز تک اسپتال  میں داخل رہا ، یہ تمام اخراجات حکومت بلوچستان نے برداشت کیے۔زندگی اور موت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے ، کیونکہ جتنا میں دھماکے کے قریب تھا ایسے میں زندہ بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں”۔

ابرار احمد نے بتایا “دھماکے یا اس طرح کی کوریجز میں خطرہ تو رہتا ہی ہے ، لیکن میرے خیال سے ہماری جاب پولیس اور ریسکیو سے زیادہ مختلف نہیں کیونکہ دھماکے کے بعد عوام وہاں سے دور بھاگ رہے ہوتے ہیں اور ہم دھماکے کی جانب جا رہے ہوتے ہیں، ،، کوریج تو کرنی ہی ہے لیکن احتیاطی تدابیر بھی ضرور ہونی چاہیں ، ہمارے نیوز چینلز کو چاہیے کہ اس طرح کی کوریج کے لیے ہمیں بلٹ پروف جیکٹس اور ہیلمٹ فراہم کریں ، اور اس طرح کی کوریج کرنے کے لیے ایک طریقہ کار بنایا جائے تاکہ اپنے طور پر احتیاط برتی جا سکے۔ تاہم زیادہ تر چینلز میں ان دونوں چیزوں کا فقدان ہے۔ سب سے پہلے تو میڈیا ورکرز اپنے طور پر احتیاط کریں کہ جتنا دور سے ہو سکے فوٹیج لے لیں،  پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے کرائم سین کو عبور نہ کریں،  اور مناسب فاصلے سے تمام چینلز کوریج کریں”۔

ان کا مذید کہنا تھا “اگر میں اپنے واقعہ کو دیکھوں تو کیونکہ پہلا دھماکہ ٹرمینل کے اندر ہوا تھا اس لیے ہمیں اندر تو جانا تھا فوٹیجز کے لیے ، اور دوسرا دھماکہ گیٹ پر ہی ہو گیا ، نہ ہی ہمیں پولیس نے اندر جانےسے روکا ، اور نہ ہی کسی چینل نے دور رہنے کا ضابطہ اخلاق پر عمل کیا۔ ہم اپنے طور پر 20 سے 25 منٹ کی تاخیر سے پہنچے ، اور ہم سے پہلے بھی کچھ چینلز فوٹیج بنا چکے تھے ، تو جیسے دیگر چینلز اندر گئے ہم بھی ویسے ہی اندر جانے والے تھے،  اگر ہمیں پولیس اندر جانے سے روکتی تو ہم ضرور رک جاتے” ۔

سیفٹی سے متعلق ابرار احمد نے تجاویز دیتے ہوئے کہا “صحافیوں کو چاہیے کہ جیسے کوئٹہ یا اس طرح کے دیگر علاقوں کے حالات ہیں،  اپنے طور پر ایک ضابطہ اخلاق بنایا جائے کہ تمام چینلز مناسب فاصلے سے کوریج کرینگے اور اپنے ہیڈ آفس کو پابند کیا جائے کہ دھماکے کی کوریج کے لیے بلٹ پروف جیکٹس اور ہیلمٹ فراہم کیے جائیں،  بریکنگ کی دوڑ میں اس طرح کے واقعات رونما ہوتے آئے ہیں،  اس چیز کا بھی خیال رکھا جائے کہ بریکنگ کی وجہ سے کوئی کیمرہ مین زیادہ قریب نہ جائے۔ بہت مشکل وقت تھا میرے لیے ، میری فیملی کے لیے ، لیکن اس واقعہ سے میری فیملی اور چینل کی جانب سے پورا خیال رکھا گیا ۔ دھماکے کے بعد جب مجھے پتا لگا کہ میری ایک ٹانگ فریکچر ہو چکی ہے اور گہرے زخم ہیں اور مجھے مکمل فٹ ہونے میں مہینوں لگیں گے ، یہ ایکسیپٹ کرنا کافی مشکل تھا لیکن میں نے یہ سوچ رکھی کہ مجھے ٹھیک ہونا ہے اور اپنے پاوں پر کھڑے ہوکر زندگی گزارنے ہے ، الحمداللہ میں ٹھیک ہوا اور اپنے پاوں پر چلتے ہوئے اپنا آفس جوائن کیا۔ میرے علاج کے لیے بلوچستان یونین آف جرنلسٹ نے بھی ابتدائی طور پر کچھ تعاون کیا ، لیکن میں خصوصی طور پر شکر گزار ہوں ہمارے بیورو چیف عرفان سعید صاحب کا ، جنہوں نے میرے زخمی ہونے کی اطلاع ملنے سے لیکر میرے کوئٹہ اور کراچی میں علاج ، ہیڈ آفس اور حکومت بلوچستان کی علاج کرانے کے اخراجات اور میں 15 ماہ تک میں آفس نہیں جا سکا ، میری سیلری سمیت تمام سہولیات مجھے گھر پر ملتی رہیں،  جس پر میں بیورو چیف اور دنیا نیوز کا بے حد مشکور ہوں ۔ احتیاط تو ہم پہلے بھی کرتے تھے کیونکہ مجھ سے پہلے بھی کوئٹہ کے کئی صحافی شہید یا زخمی ہوئے۔ جس دھماکے سے میں زخمی ہوا اسکے بعد جب میں اس طرح کی کوریج کے لیے جاتا ہوں ، 2019 کا دھماکہ ذہن میں رہتا تو ہے لیکن زندگی اور موت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے ، اپنے طور پر دور رہ کر کوریج کرنے یا دیگر احتیاطی تدابیر میں اپنے طور پر کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن زیادہ تر ہمارے صحافی ایسے نہیں کرتے ، میں انہیں بھی ایسا کرنے کا بتاتا ہوں”۔

فریڈم نیٹ ورک کی سالانہ پاکستان پریس فریڈم رپورٹ کے مطابق، مئی 2022 سے مارچ 2023 کے درمیان پاکستان میں صحافیوں، میڈیا پروفیشنلز اور میڈیا اداروں کے خلاف دھمکیوں اور حملوں کے کم از کم 140 واقعات رپورٹ ہوئے۔

سابق جنرل سیکرٹری پریس کلب  کراچی رضوان بھٹی کہتےہیں کہ “اس طرح کا کوئی ڈیٹا مرتب تو پریس کلب کی جانب سے نہیں کیا جاتاہے البتہ کوئی کسی واقعے صحافی زخمی ہوجائے یا ادارے سے نکال دیا جاتا ہے تو پریس کلب جتنی ممکنہ مدد کرسکتاہے اپنے ساتھیوں کے تعاون سے ان سے ذیادہ انکی مدد کرتاہے”۔

  صحافی سید رحمت علی گزشتہ کئی سالوں سے دنیا ٹی وی سے  وابستہ رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ”میں بھی کوئٹہ کے خیزی چوک دھماکے کی کوریج کےرپورٹر  ابرار احمد کے ساتھ زخمی ہوا  تھا ،  یہ دھماکا  5 ستمبر 2019 کو ہوا تھا۔ میں یہ سمجھتاہوں کہ جیسے ہی بلاسٹ ہوتا ہے اس مقام پر جلدی نہیں پہنچنا چاہیے۔  خطرہ رہتاہے کہیں دوسرا بلاسٹ یا دھماکا نہ ہوجائے۔ ہر ادارے کو یا صحافی تنظیم کو جہاں کہیں بھی وہ کام کررہے ہیں۔ بلٹ پروف جیکٹ اور ہیلمٹ  لازمی دینی چاہیے ۔ اگر دھماکہ ہوتاہےتو وہ محفوظ رہ سکیں ۔ سیفٹی کے حوالے سے ان چیزوں پر ذیادہ فوکس کرنا چاہیے”۔

ان کا مذید کہنا ہے کہ “ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھنا پھر ایک بڑی مصیبت میں پھنس جانا جیسے دھماکے میں زخمی ہوئے اور خطرناک حد تک زخم آئے۔بہت ذیادہ مشکلات ہوتی ہے آپ کی سیلری اتنی نہیں ہوتی ہے ایک اچھے اسپتال میں اپنا معائنہ کراسکیں ۔ ہم خوش قسمت تھے ہمیں بلوچستان حکومت اور نجی ٹی وی دنیا ٹی وی نے ہمارا علاج کرایا ۔ لیکن تکلیف پھر بھی ہے گھر میں ایک جگہ پڑے ہو  تکلیف میں رہتے ہو درد، ذہنی مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ جب دھماکا ہوا تووہاں پر موجود ایک بندے کو ایمبولینس میں لیکر گئے مجھے پرائیوٹ گاڑی میں لیکراسپتال پہنچایاگیا۔راستے میں ٹریفک پھنسے رہے کس تکلیف میں تھا وہ بتا نہیں سکتا پھر بی ایم سی اسپتال پہنچایاگیا ۔ جہاں پر غیر ذمہ دار عملہ رات کی شفٹ  میں تھا۔ جو سیکھنے والےبندے ہوتے ہیں رات میں وہی بندے رکھے ہوئے تھے تکلیف میں تھے تڑپتے رہے کوئی پوچھنے والا نہیں  تھا ۔زخمی  ہونے کے بعد جب مکمل صحتیاب ہوگیا تو میرے اہل خانہ نے مجھے میڈیا میں کام کرنے سے منع کردیاہے اور میں نے ریزائن کردیا ہے۔ اب صحافت سے دور ہوں”۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here