صحافی انصاف کے متلاشی

0
881

رپورٹ: (عرفان اطہر منگی) پاکستان کا شمار اظہار رائے پر قدغن کے حوالے سے ان ممالک میں کیا جاتاہے جو صحافیوں کے حوالے سے خطرناک اور غیر محفوظ تصور کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں صحافی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی مارے جاتےہیں اور ایسے مقتول صحافیوں کے ورثا کو انصاف ملنا مشکل بن جاتا ہے۔

فریڈم نیٹ ورک کی ‘سالانہ امپیونٹی رپورٹ’ 2022 کے مطابق پاکستان میں 2012 سے 2022 کے درمیان ہونے والے صحافیوں کے قتل کے 96 فیصد واقعات میں ملزمان کو کوئی سزا نہیں ملی۔

  صحافت کو پرخار  رہ گزر کہا جائے  تو یہ بےجا نہ ہوگا اس میں آئے روزدھمکیاں ، تشدد اور جان کو خطرہ لاحق رہتے ہیں۔ نواب ، میر، وڈیرہ ، چوہدری اپنے خلاف بات سننا پسند نہیں کرتا، چور، ڈاکو، لینڈ گریبر ہو یا پھر کوئی بھی بااثر شخصیت اگر آپ اس کےخلاف خبر چلائیں گے تو اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔

سندھ میں ڈاکوراج کا خاتمہ آج بھی ممکن نہیں ہوسکاہے کسی بھی تاجر ، مالدار انسان کو اغوا کرکے اس کے عیوض لاکھوں کروڑوں روپے وصول کئے جانا آج بھی کوئی نئی بات نہیں ۔سندھ میں قبائلی دشمنیاں ، تنازعات کی بہترین رپورٹنگ کرنے والے  جان محمد مہر کی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرادیا گیا۔

صحافی جان محمد مہر کے قتل کا واقعہ تیرہ اگست کی رات تقریبا نو بجے اس وقت پیش آیا جب وہ کے ٹی این نیوز سکھر بیورو سے اپنے گھر واپس جا رہے تھے۔

 سکھر کے علاقے کوئنس روڈ پر نامعلوم مسلح افراد نے ان کے اوپر فائرنگ کر دی۔  بتایا گیا ہے کہ اندھا دھند گولیاں  برسائی گئیں یہ گولیاں ان کی گردن، سر اور پیٹ میں لگیں، جبکہ گاڑی کے دونوں اطراف کے شیشے چکنا چور ہو گئے۔ انہیں شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا ہے، مگر ڈاکٹروں کے مطابق زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ جان کی بازی ہار گئے۔

سندھ پولیس نے سکھر شہر میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے جان کی بازی ہارنے والے صحافی جان محمد مہر کے قتل کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ جس میں تاحال ایک ماہ گزر جانے کے باوجود کوئی بڑی پیش رفت نہ ہوسکی، واقعے کا مقدمہ قتل کے تین دن بعد مقتول کے بھائی کی مدعیت میں درج کیا گیا، جس میں 11 ملزمان کو نامزد کیاگیا اور اب تک صرف دو ملزمان کے علاوہ باقی ملزمان کو گرفتار نہیں کیا جا سکا۔

 وزیر داخلہ سندھ نےکہا کہ انکوائری کو میرٹ پر مکمل کیا جائے گا اور تفتیش کی پیش رفت سے میڈیا کو باقاعدگی سے آگاہ رکھا جائیگا۔

شہید صحافی کے پسماندگان کی مالی معاونت کے سلسلے میں ایک کروڑ روپے کا چیک بھی حکومت سندھ کی جانب سے ورثاء کو دیا جائےگا لیکن سوال پھر وہی رہ جاتا ہے کیا یہ مراعات پیسے اس صحافی کا کیا نیم البدل ہوسکتےہیں ۔یا پھر جتنے بھی صحافی مارے جاتے ہیں کیا ان کے قاتل صرف چند دن احتجاج کے بعد پھر طویل خاموشی میں تبدیل ہوکر رہ جاتےہیں۔

جان محمد مہر  کے عزیز شہریار مہر اور کے ٹی این کے رپورٹر انس گھانگھرو کے مطابق جان محمد مہر کے قتل میں تین سہولت کاروں کو گرفتار کیا جاچکاہے۔ جبکہ جے۔ آئی۔ ٹی تو بنائی گئی تاحال جے۔آئی۔ٹی نے کوئی پیش رفت نہیں کی ہے اب تک ۔ کچے میں جاری ڈاکوآپریشن میں  قاتلوں کے سہولت کار جہاں انہوں نے رہائش اختیار کی تھی فرار ہونے کے بعد انکو گرفتار کیاجاچکاہے۔  مقامی پولیس سے جب اس حوالے سے بات کی تو انکا کہنا تھاکہ کچے ڈاکو  کے آپریشن میں چار ملزمان کو گرفتار کیا جاچکاہے جنہوں نے جان محمو مہر کے سہولت کاروں کو پناہ دے رکھی تھی۔ مزید ان سے تفتیش جاری ہے تاحال ایف۔آئی۔آر میں نامزد قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا جاسکاہے۔

اسی طرح اگست میں ہی دوسرے صحافی اصغر لُنڈ کو آٹھ اگست کی رات کو ان کے اپنے گھر واقع ( احمد پور ) کے باہر پستول سے فائر  کرکے قتل کیا گیا تھا۔

سات اگست کو ضلع خیرپور کے علاقے احمد پور میں سندھی اخبار روزنامہ ’صبح‘ کے رپورٹر 42 سالہ غلام اصغر کھنڈ کو نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر مقوت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔غلام اصغر کے قریبی عزیز ظہیر سے اس حوالے سے جب بات ہوئی توانکا کہنا تھا کہ “ہم نے خود ایف۔آئی۔آر کٹوائی تھی جس میں ان ملزمان کو نامزد  کیا تھا ۔ قتل میں ملوث ایک ملزم فرار ہوگیا تھا جبکہ ایک گرفتار ہےاب کورٹ میں کیس چلے گا فلحال  تو کوئی انصاف نہیں ملا ہے”۔

سال 2022 کی ایک بند قسمت صبح جب صحافی اطہرمتین  اپنے بچوں کو سکول چھوڑنےکےلیے گھر سے نکلا لیکن پھر زندہ لوٹ کر  نہ آیا ۔

ایس۔پی پولیس گلبرگ طاہر نورانی کے مطابق اطہر متین اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے کر گھر جارہے تھے ۔اس دورانموٹر سائیکل سوار  دو افراد نے انہیں روکنے کی کوشش ۔اطہر متین نہ روکے انہوں نے مزاحمت کی اور ڈاکوئوں کو کار سے ٹکر ماری۔ جس کے نتیجے میں دوڈاکوئوں نے ان کے اوپر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہوگئے۔ ایس۔ایس۔پی معروف عثمان  کے مطابق  اطہر متین کا واقعہ نارتھ ناظم آباد میں پیش آیا تھا ایک ڈاکو اندرون سندھ میں پولیس مقابلے میں مارا گیا اور ایک ابھی بھی جیل کے اندر ہے جبکہ اس حوالے سے انکی اہلیہ سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ                            ڈیڑھ سال ہوگیاہے اب تک کیس کی ہیئرنگ نہیں ہوئی ہے۔

اطہر متین سنہ 2005 سے صحافت سے وابستہ تھے انہوں نے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کررکھا تھا اطہر متین نے سماءسے قبل آج ٹی وی اور اے آر وائی نیوز کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔ اس وقت وہ سما میں سینیئر پروڈیوسر تھے-

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے قاتل پہلے تو  پکڑے نہیں جاتے یا مفرور رہتے ہیں .ان کے مطابق پولیس تفتیش میں عمل سست روی کا شکار رہتاہے یا اس طرح نہیں ہوپاتا جیسے ہوناچاہیےجس سے کیس مزید  کمزور ہوجاتا ہے اور ملزم عدالت سے بری ہو جاتے ہیں .جتنے بھی صحافی قتل ہوے ہیں ان کو اب تک انصاف نہیں ملا .

کے یو جے دستور کے صدر خلیل ناصر کہتے ہیں کہ  اگر کوئی صحافی قتل ہو جائے  یا اس طرح کا واقعہ پیش آئے تو جو  صحافیوں کی اور اس کے اہل خانہ کی  ممکنہ مدد ہوتی ہے وہ پریس کلب کے سینئر ممبران کرتےہیں  باقی انصاف تو عدالت سے ہی مل سکتاہے ہم تو صرف مدد کرسکتےہیں۔

آئی۔ایف۔جے کی رپورٹ

آئی ایف جے کی رپورٹ کے مطابق اگست 2022 سے لیکر 2023 تک پاکستان میں کل نو صحافی قتل کئےجاچکےہیں۔ سال 2022 میں دوران ملازمت  پانچ صحافیوں حسنین شاہ، ضیاء الرحمن فاروقی، افتخار احمد، محمد یونس، صدف نعیم زندگی کی بازی ہار گئیں۔ اس کے بعد  ارشد شریف، اجے لعلوانی،  اصغر کھنڈ اور جان محمد مہر جیسے نامور صحافی بھی ٹارگٹ کلنگ میں قتل کیے گئے۔

پاکستان میں 96 فیصد صحافیوں کے قتل کے کیسسز میں کوئی سزا نہیں  ملی۔

پاکستان میں صحافیوں کے قتل پر فریڈم نیٹ ورک کی 27 اکتوبر 2022 کو جاری رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ 2012 سے 2022 کے درمیان ملک میں 53 پاکستانی صحافیوں کو قتل کیا گیا لیکن قتل کے ان 53 واقعات میں سے صرف دو  کیسسز میں مجرموں کو سزا سنائی گئی۔ بقیہ 96 فیصد مقدمات میں مقتول صحافیوں اور ان کے سوگوار خاندانوں کو انصاف نہیں ملا۔

ملزمان کو سزائیں نہ ملنے کے حوالے سے ایس پی الطاف حسین کہتے ہیں کہ پولیس کو تفتیش کے لیے مکمل 14 دن دیئے جاتے ہیں جس کے اندر وہ سب بناکر عدالت میں پیش کرتی ہےجبکہ عدالتوں کے پاس لامتناہی وقت ہوتاہے۔ دس دس سال سے کیسسز چلتے ہیں ۔پھر اس میں سب سے بڑا جو مسئلہ پیش آتاہے گواہ عدالت میں جب پیش ہوتے ہیں تو وہ ایک ہی جگہ پر موجود ہوتے ہیں یعنی وہی ملزم بھی کھڑا ہوتا ہے اور گواہ بھی نہ کہیں بیٹھنے کی نہ ٹھرنے کی جگہ ہوتی ہے ایک گواہ عدالت میں جب پیش ہوتاہے تو ملزمان کی جانب سے وہی پر ان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں اورگالیاں دی جاتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ “صبح سے ایک بندہ گواہی کےلیے آتاہے دن جب گزرنے کو ہوتاہے تو کیس کو مزید تاریخ دی جاتی ہے گواہ کا بیان قلمبند نہیں ہوتاہے اس طرح ہوتاہے اس میں بہت وقت گزر جاتاہے چار پیشیوں کے بعد گواہ کورٹ آنا بھی پسند نہیں کرتاہے ہمارے سسٹم میں بہت ساری خرابیاں ہیں جنہیں درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر بروقت  گواہ کا بیان لیا جائے اور کیس آگے بڑھے تو آسانی ہوسکتی ہے”۔

سپریم کورٹ کی وکیل ارم محمود کے مطابق کیس شواہد ، تفتیشی عمل اور گواہ پر انحصار کرتاہے۔ ہمارا پولیس کا تفتیشی نظام ذیاہ موثر نہیں ہے جس کی وجہ سے مجرم بچ جاتےہیں اصل میں کورٹ میں کیس وہی لڑا جاتاہے جو ایف آئی آر کا متن ہوتاہے اس میں اگر ٹھیک دفعات لگائی جائے ، تفتیش میں اور گواہ مضبوط ہو تو کیس کے نتائج اچھے آتےہیں لیکن قتل و غارت یا ایسے واقعات میں تو عزیز رشتہ دار بھی پچھے ہٹ جاتےہیں کہ کہیں انکو جانی نقصان نہ پہنچا جائےتو وہ پچھے ہٹ جاتے ہیں باقی عدالت میں اگر ثبوت پیش کئےجائے تو لازمی انصاف ملے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here