پشاور: پشاور میں آباد ہندو کمیونٹی کا کہنا ہے کہ ان کے تین تاریخی مندر گزشتہ کئی دہائیوں سے بند پڑے ہیں اور حکام کی لاپرواہی کے باعث ان کی جانب سے ان مندروں کو کھلوانے کے لیے کی جانے والی تمام تر کوششیں لاحاصل ثابت ہوئی ہیں۔
پشاور کی ہندو کمیونٹی کے ایک رُکن وشال کہتے ہیں:’’یہ مندر صرف عبادت گاہیں ہی نہیں ہیں بلکہ ہندو کمیونٹی کا تاریخی ورثہ بھی ہیں جو ان کے ماضی اور آباؤاجداد کی علامتیں ہیں۔‘‘ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ تمام مندر ان کے آباؤ اجداد نے صدیاں قبل تعمیر کیے تھے۔
ان تین مندروں میں سے ایک کنٹونمنٹ کے علاقے گورا بازار میں قائم ہے، دوسرا مندر چھوٹی لال کرتی اور تیسرا اندرون شہر کی چکا گلی میں قائم ہے۔
وفاقی ادارہ محکمۂ اوقاف پاکستان میں قائم ہندوؤں اور سکھوں کے مذہبی مقامات کو منتظم کرنے کا ذمہ دار ہے جس کے پاس اس وقت ان تینوں مندروں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ ادارہ تقسیم کے وقت ہندوستان ہجرت کر جانے والے ہندوؤں اور سکھوں کے تعلیمی، فلاحی یا مذہبی اداروں کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہے ۔
محکمۂ اوقاف کے ڈپٹی سیکرٹری فراز عباس نے مندروں کی بندش پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا:’’ہم ان حساس موضوعات کے بارے میں میڈیا سے بات نہیں کر سکتے کیوں کہ ممکن ہے کہ میڈیا کو فراہم کی جانے والی معلومات ’’غلط‘‘ طور پر پیش کی جائیں اور ہمارے لیے مشکلات پیدا ہو جائیں۔‘‘
محکمۂ اوقاف پشاور سے منسلک کرایہ جمع کرنے کے ذمہ دار محمد عابد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان تین مندروں میں سے ایک حکومتی ادارے کو لیز پر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ( مختلف محکموں کو لیز پر دی گئی عمارتیں) محکمۂ اوقاف کے لیے آمدن کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پشاور کے علاقے لال کرتی میں قائم مندر اب تک اس لیے نہیں کھل سکا کیوں کہ اس کی ملکیت پر ہندوؤں اور سکھوں میں تنازع چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تیسرا مندر محکمۂ اوقاف کے اعلیٰ حکام کی نااہلی کے باعث بند پڑا ہے۔
محکمۂ اوقاف کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، کہا کہ محکمہ اس وقت درست طور پر کام نہیں کر رہا۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے افسر اس وقت دو یا اس سے زیادہ عہدوں پر کام کر رہے ہیں، جیسا کہ ان کو ایک ذمہ داری پشاور اور دوسری اسلام آباد میں دی گئی ہے جس کے باعث وہ ان دو شہروں کے درمیان چکر لگانے پر مجبور ہو گئے ہیں اور یوں بہت سے سرکاری معاملات پر پیشرفت ممکن نہیں ہو پاتی۔
پشاور میں آباد راجپوت اور دیگر ہندوؤں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی خودمحتار تنظیم ہندو راجپوت ویلفیئر ورکنگ کمیٹی (ایچ آر ڈبلیو ڈبلیو سی) نے 20 ستمبر 2016ء کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کو ایک خط لکھا جس میں ان مندروں کو کھولنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ایچ آر ڈبلیو ڈبلیو سی کے جنرل سیکرٹری وشال کہتے ہیں:’’چھ ماہ گزر چکے ہیں لیکن حکام کی جانب سے اب تک اس معاملے پر کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ مقامی ہندو روایات کے مطابق ہر کمیونٹی کا لازمی طورپر کم از کم ایک مندر ضرور ہونا چاہئے۔ پشاور میں تین ہندو کمیونٹیز آباد ہیں جن میں درگا پیر رتن ناتھ، سر بالمیک سبھا اور راجپوت شامل ہیں۔ وشال کہتے ہیں کہ شہر میں اولذکر دونوں ہندو کمیونٹیوں کے مندر قائم ہیں لیکن راجپوت ہندوؤں کا کوئی مندر نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے وزیراعلیٰ کے دفتر میں اقلیتی امور کے کوارڈینیٹر روی کمار کو خط لکھنے سے قبل سابق وزیر برائے اقلیتی امور سورن سنگھ کو بھی چار اپریل 2016ء کو اس حوالے سے ایک خط لکھا تھا۔
انہوں نے مزید کہا:’’انہوں (روی کمار) نے ہمیں اس حوالے سے تعاون کی یقین دہانی کروائی اور ہم گزشتہ ربع صدی کے دوران پہلی بار بہت زیادہ پرامید تھے کیوں کہ ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے ان مندروں کو کھلوانے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔‘‘
وشال نے مزید کہا کہ سردار سورن سنگھ کے قتل کے دو ہفتوں کے بعد اس معاملے پر پیشرفت التوا کا شکار ہو گئی۔ سورن سنگھ کو 22 اپریل 2016ء کو مبینہ طور پر ان کے سیاسی حریف بلدیو کمار نے قتل کر دیا تھا۔ سورن سنگھ کی موت کے بعد صوبائی حکومت نے اب تک اقلیتی امور کا کوئی صوبائی وزیر تعینات نہیں کیا۔
پشاور میں آباد مختلف مذہبی اقلیتوں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ سورن سنگھ نے ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ وہ کہتے ہیں کہ آنجہانی سورن سنگھ کی طرح کے فعال اقلیتی نمائندوں کے نہ ہونے کے باعث اقلیتی کمیونٹیز نظرانداز ہو رہی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ سردار سورن سنگھ کی کوششوں کے باعث ہی پشاور کے اندرون شہر میں قائم گوردواہ بیبا سنگھ کھولا گیا جو طویل عرصہ سے بند پڑا تھا۔
نیوز لینز پاکستان کا محکمۂ اوقاف کے سربراہ صدیق الفاروق اور وزیراعلیٰ کے کوارڈینیٹر روی کمار سے اس بارے میں ان کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ نہیں ہوسکا۔