لاہور (دردانہ نجم سے) پاکستانی میڈیا پر گلشنِ اقبال پارک بم دھماکے کے مشتبہ خودکش حملہ آور کی شناخت کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک جنوں سا طاری ہوگیا تھا،27مارچ کو ہونے والے اس بم دھماکے میں 29بچے اور 44مرد و خواتین ہلاک ہوگئے تھے۔
ایک کے بعد دوسرے نیوز چینل نے اس خبر کوکوئی مستند حوالہ دیے بغیر مسلسل نشر کیا۔ بالآخر حکومت کو افواہوں کی بنیاد چلنے والی اس خبر کو روکنے کے لیے مداخلت کرنا پڑی۔
28مارچ کو ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے خصوصی مشیر زعیم حسین قادری نے اس خبر کی تردیدکرتے ہوئے کہاکہ یوسف بم دھماکے میں ملوث نہیں تھا بلکہ وہ دہشت گردی کی اس کارروائی میں ہلاک ہوا۔
یوسف قرآن پاک پڑھایا کرتا تھا۔ اس کے خاندانی ذرائع کے مطابق وہ گزشتہ چند برسوں سے لاہور میں رہائش پذیر تھا۔
میڈیا نے خود کو صرف غلط رپورٹنگ تک ہی محدود نہیں رکھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جنوبی پنجاب میں یوسف کے آبائی شہر ضلع مظفر گڑھ میں تمام بڑے نیوز چینلوں نے اپنے رپورٹرز اور کیمرہ کریو پر مشتمل ٹیمیں بھیجیں جس سے میڈیا کی جانب سے کی جانے والی غلط رپورٹنگ کے تاثر کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔
نیوز لینز پاکستان نے، یہ جاننے کے لیے کہ نیوز چینلوں نے باقاعدہ تصدیق کیے بغیر کیوں کر خبر نشر کی، ملک کے تین بڑے نیوز چینلوں سما، جیو اوردنیا کے نیوز کنٹرولرز، بیوروچیفس اور صدر سے با ت کی۔
جیو نیٹ ورک کے اہم ترین عہدے دار نے نیوز لینز پاکستان سے فون پر بات کرتے ہوئے بیان دیا لیکن بعدازاں اس سے پیچھے ہٹ گئے اور کہا کہ جیو نیٹ ورک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اس حوالے سے ای میل پرنیا بیان دیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
صحافتی اقدارکے پیشِ نظر نیوز لینز پاکستان ان کا نام ظاہر نہیں کررہا کیوں کہ انہوں نے ٹیکسٹ میسیج ارسال کیا تھا کہ وہ اپنا بیان واپس لیتے ہیں۔ لیکن ان صحافتی اقدارکے باعث ہی نیوز لینز پاکستان ان کا بیان شایع کررہا ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ ایک پیشہ ور صحافی، جو اہم ترین عہدے پر فائز ہیں، اپنے ہی چینل پر ہونے والی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے حوالے سے کیا محسوس کرتے ہیں اور کس قدر بے بس ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ میں تسلیم کرتا ہوں کہ جیو نے اس معاملے کی گہرائی کے ساتھ رپورٹنگ نہیں کی اور ایک سے زائد ذرائع استعمال کرنے میں ناکام رہا کہ آیا یوسف ایک مشتبہ خودکش بمبار تھایا نہیں؟ یہ ایک ناگوار افواہ تھی جو جیو کی جانب سے اڑائی گئی اور منفی طرزِ عمل کی عکاسی کرتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ عوام تک رسائی حاصل کرنے کی حکمتِ عملی درست نہیں ہے جس کے مطمعٔ نظر ریٹنگ بڑھانارہا ہے۔
انہوں نے کہا:’’ میڈیا کے اداروں کی جانب سے جب غیر تربیت یافتہ اور غیر پیشہ ور افراد کو فیلڈ میں بھیجا جاتا ہے تو تصدیق کا عمل متاثر ہوتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی علمی فیصلہ سازی کی کمی بھی واضح ہوچکی ہے۔‘‘
سما ٹی وی کے کنٹرولر نیوز احمد ولید نے اپنی گفتگو میں کہا:’’ ہم نے سب سے پہلے یوسف کا شناختی کارڈ حاصل کیا لیکن اس کے مبینہ خود کش حملہ آور ہونے کے حوالے سے خبر نہیں چلائی۔ قانون نافذ کرنے والے کسی بھی ادارے نے اس کی تصدیق نہیں کی تھی۔ یہ بدقسمتی تھی کہ سما ٹی وی نے پیشہ ورانہ مجبوری ظاہر کرنے کے باوجود اس خبر کو نشر کیا۔‘‘
نیوز لینز پاکستان نے احمد ولید سے استفار کیا کہ یہ کیوں کر ممکن ہوا؟
انہوں نے جواب دیا کہ 28مارچ کی صبح رات کی شفٹ کے ایک رپورٹر نے اس خبر کو ہر ٹی وی چینل پر نشر ہوتے ہوئے دیکھا تو اپنے طور پر اس خبر کو نشر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
احمد ولید نے کہا:’’  نیوز چینلوں میں ادارتی کنٹرول نہیں ہے۔ رپورٹر معاصر ٹی وی چینلوں سے مقابلے کے باعث غیر ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ ٹی وی چینلوں پر خبروں کی تصدیق کے لیے کوئی میکانزم موجود نہیںہے۔‘‘
دنیا ٹی وی لاہور کے نیوز ہیڈ خرم کلیم نے اپنے ٹی وی چینل کی جانب سے یوسف کے بم دھماکے میں ملوث ہونے کی خبر پر بات کرتے ہوئے غلط رپورٹنگ کی ذمہ داری پنجاب پولیس پر عاید کی۔
انہوں نے کہا:’’ انسپکٹر جنرل پولیس مشتاق سکھیرا نے میڈیاکو آگاہ کیا کہ پولیس نے یوسف کے خاندان کو گرفتار کیا ہے۔ ہم نے صرف اس معاملے کی تفتیش کے حوالے سے ہی خبریں نشر کیں۔‘‘
دنیا ٹی وی کے بیورو چیف ارسلان رفیق بھٹی نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے پاکستان کے اہم ترین خفیہ ادارے پرالزام عاید کیا کہ اس نے چینلوں کو یوسف کے مبینہ خودکش حملہ آور ہونے کے بارے میں آگاہ کیاتھا۔
ان کے مطابق مذکورہ خفیہ ادارہ جائے وقوعہ پر موجود شواہد کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا تھا۔
ارسلان رفیق بھٹی نے کہا:’’ یوسف کے دھڑ پر گہرے زخم آئے تھے جب کہ اس کی داڑھی بھی تھی جس کے باعث اس کے مبینہ خود کش حملہ آور ہونے کے حوالے سے شبہات بڑھ گئے تھے۔‘‘
تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ ٹی وی چینل اس خبر کی تصدیق کرنے کے حوالے سے کوئی بھی کوشش کرنے میں ناکام ہوگئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مالکان کی جانب سے دوسرے چینلوں کی نقالی کرنے کے لیے دبائو کے باعث ایسی غلطیاں ہوتی ہیں۔
نیوز لینز پاکستان نے، یہ جاننے کے لیے کہ آیا پولیس میڈیا کو غیر مصدقہ معلومات فراہم کرنے کی ذمہ دار تھی یا نہیں؟، ڈی آئی جی آپریشنز لاہور حیدر اشرف سے رابطہ کیا جنہوں نے پرزور انداز میں تردید کی۔
انہوں نے کہا:’’ کسی پولیس افسر نے اس حوالے سے کسی رپورٹر سے کوئی بات نہیں کی۔ میں نہیں جانتا کہ یوسف کا شناختی کارڈ کہاں سے ملا تھا۔ میں میڈیا کی جانب سے یہ فیصلہ کرنے پہ حیران تھا۔یہ کس طرح ممکن ہے کہ خودکش حملہ آور کے جسم کے اوپر والا حصہ سلامت رہے؟‘‘ان کا مزید کہنا تھا کہ خود کش حملہ آور اپنے گروہوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنی شناخت پوشیدہ رکھتے ہیںاور شناختی کارڈ جیب میں نہیں رکھتے۔
حیدر اشرف نے میڈیا کے اداروں سے ضابطۂ اخلاق پر عمل کرنے کی درخواست کی جو اس نے خودترتیب دیا تھا جس کے مطابق میڈیا افواہوں کی بنیاد پر رپورٹنگ نہیں کرسکتا۔
حیدر اشرف نے مزید کہا کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو مداخلت کرنے کے حوالے سے ضابطے ترتیب دینے کی ضرورت ہے کہ جب تک پولیس کی جانب سے دہشت گردی سے متعلقہ واقعات کے حوالے سے سرکاری سطح پر بیان جاری نہیں کیا جاتا، اس وقت تک خبر نشر نہیں کی جانی چاہئے۔
انہوں نے کہا:’’ رپورٹر اور کیمرہ مین جب جائے وقوعہ پر پہنچتے ہیں تو نادانستگی میں فارنزک شواہد کو ضایع کردیتے ہیں جو تفتیش کے لیے انتہائی اہم ہوتے ہیں۔‘‘
 یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ پاکستانی میڈیا نے غلط رپورٹنگ کی ہے۔
2009ء میں ایک بڑے ٹی وی چینل کے رپورٹر نے ایلیٹ پولیس ٹریننگ سکول لاہور پر ہونے والے حملے کے حوالے سے آڈیو بیپر دیتے ہوئے یہ رپورٹ دی کہ 40سے زائد دہشت گرد، جن میں خواتین بھی شامل ہیں، نے سکول پر حملہ کیا ہے جب کہ ان کی تعداد بہ مشکل چار تھی۔
احمد ولید کہتے ہیں کہ اسی طرح قصور سکینڈل کے حوالے سے بھی غلط رپورٹنگ کی گئی۔انہوں نے کہا:’’ ہر چینل یہ خبر نشر کررہا تھا کہ 280لڑکوں کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے بچوں کی تعداد بہ مشکل 20تھی۔‘‘
نیوز لینز پاکستان نے غلط رپورٹنگ کی وجوہات جاننے کے لیے یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کے شعبۂ ابلاغِ عامہ کے ڈین ڈاکٹر مغیث الدین شیخ سے رابطہ کیا۔
انہوں نے کہا:’’ دو مسائل ہیں اور ان دونوں کا تعلق غیر پیشہ ورانہ طرزِ عمل سے ہے۔ نیوز رومز اور بیوروز میں غیر پیشہ ور اور غیرتربیت یافتہ افراد روزمرہ کے معاملات دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح میڈیا کے اداروں کے مالکان، جو تمام معاملات دیکھتے ہیں، غیر پیشہ ور تو ہیں ہی بلکہ وہ بزنس مین بھی ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا:’’ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد ایجنسیوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے لیے کام کرتی ہے۔ وہ اپنے حکامِ بالا کو خوش کرنے کے لیے غلط رپورٹنگ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ ان دنوں پاکستان میں پیشہ ورانہ مہارت کے حامل قوم پرست صحافیوں کی کمی ہے۔‘‘
سینئر صحافی، ماہرِ تعلیم اور آن لائن پبلی کیشن ’’ہم سب‘‘ کے ایڈیٹر وجاحت مسعود غلط رپورٹنگ کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’ میڈیا سے دہشت گردوں کے حمایتی صحافی منسلک ہیں۔ حکومت جب 2014ء میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کررہی تھی تو کالم نگاروں کی ایک مناسب تعداد دہشت گردوں کو ان شرائط کے حوالے سے مشورہ دے رہی تھی جو ان کو حکومت کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے مدِنظر رکھنی چاہئیں۔ ان عناصر نے حقیقی مسئلے سے توجہ ہٹائی اور نان ایشوز کو نشر کرنا شروع کردیا۔‘‘
بہرحال یہ یوسف کا خاندان تھا جسے نہ صرف پولیس کی تفتیش برداشت کرنا پڑی بلکہ میڈیا کے اداروں کی جانب سے کی جانے والی غلط رپورٹنگ کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔
نیوز لینز پاکستان نے جب یوسف کے بھائی ریاض سے یہ جاننے کے لیے رابطہ کیا کہ کیا وہ تشدد کرنے پر پولیس کے خلاف کارروائی کریں گے جیسا کہ ڈان نے دو اپریل کو اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا۔ ریاض نے اس رپورٹ کو رَد کرتے ہوئے کہا کہ ہم غریب لوگ ہیں اور ایسا کوئی بیان نہیں دیا۔
انہوں نے کہا:’’ ممکن ہے کہ خاندان کے کسی فرد نے غصے میںایسابیان دیا ہو لیکن میڈیا کو کچھ دیر انتظار کرنا چاہئے تھا۔ میڈیا اور پولیس کی وجہ سے ہماری ساکھ پہلے ہی متاثر ہوئی ہے اور ان دونوں نے مصدقہ معلومات حاصل کیے بغیر ہی ہمارے گھر پہ دھاوا بولا۔‘‘
ایک اور ایسی ہی بے تکی خبر میں کہا گیا تھا کہ خاندان نے لاش حاصل کرنے کے لیے دو ہزار روپے رشوت دی تھی۔
خرم کلیم کے مطابق، جیسا کہ انہوں نے نیوز لینز پاکستان کو بتایا تھا، یہ یوسف کی لاش تھی۔
نیوز لینز پاکستان نے جب یوسف کے بھائی سے اس حوالے سے استفسار کیا تو انہوں نے ایک بار پھر ایسی خبروں کی تردید کی اور کہا کہ میو ہسپتال کے مردہ خانے کی انتظامیہ مددگار تھی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here