پشاور ( شیراز اکبر سے) محمد علی کو اپنے آبائو اجداد سے تجارت اور دستکاری کا فن ورثے میں ملا ہے۔ وہ اب 50برس کے ہونے والے ہیں اور پشاور کے اندرونِ شہر میں واقع اپنی دکان پر اوائل عمری سے پیتل اور تانبے کی مختلف مصنوعات بنا رہے ہیں۔
محمد علی کے صاحب زادے دکان پر ان کی معاونت کرتے ہیں جو اس تجارت کو وراثت میں حاصل کریں گے جس میں وہ مہارت رکھتے ہیں اور قدیم بازارِ مسگراں، تانبا فروخت کرنے والوں کی گلی، کے رہائشیوں اور دکان داروں کی طرح کئی نسلوں سے اس فن میں اپنی کاریگری ثابت کرچکے ہیں۔
ایک ایسا کاروبار جسے محمد علی اور اس بازار کے دیگر دکان داروں نے زندہ رکھا ہے،گزشتہ چند برسوں کے دوران زوال کا شکار ہوا ہے۔ ایک وقت تھا جب سیاح اور تاجر مسگراں میں کئی نسلوں سے رہائش پذیر اور کام کرنے والے دستکاروں سے پیتل اور تانبے کی شاندار مصنوعات خریدنے کے لیے یہاں کا رُخ کیا کرتے تھے لیکن اب یہ قدیم بازار سرپرستی نہ ہونے کے باعث دم توڑ رہاہے۔
محمد علی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’اس بڑے کاروبار کے دو دکانوں میں سکرنے کی وجہ گزشہ چند برسوں کے دوران فروخت میں آنے والی کمی ہے۔ کچھ عرصے سے شہر اور حتیٰ کہ ملک بھر میں امن و امان کے خراب حالات اور پیتل و تانبے کی قیمتوں میں اضافے کے باعث بھی اس کاروبار میں زوال آیا ہے۔‘‘

: Photo by News Lens Pakistan/
: Photo by News Lens Pakistan/

شاہراہِ ریشم کے کنارے پر آباد قدیم شہر پشاور کے جاہ و جلال کی جھلک اس کے شکستہ اور تباہ حال مسافر خانوں میں دیکھی جاسکتی ہے جہاں کبھی سیاح، تاجر اور جاسوس سبز چائے نوش کرتے اور اپنے سفر و سازشوں کی روداد بیان کرتے۔قدیم شہر کی گلیوں میں تاجر جب انتظار کررہے ہوتے تو وہ خود کو تجارتی سرگرمیوں اور قصے سنانے کے عمل میں مصروف کرلیتے جس کی مناسبت سے ہی پشاور کا قصہ خوانی بازار، داستان گوئوں کی گلی، مشہور ہے۔
ناول نگار اور شاعر رڈیارڈ کپلنگ، جنہوں نے اپنے ناولوں کِم، جنگل بک اور وہ شخص جو بادشاہ ہوگا، میں برطانوی راج کا ذکر کرکے اسے اَمر کردیا ہے، اپنی نظم “The Ballad of King’s Jest”میں پشاور کے بارے میں لکھتے ہیں:
جب موسمِ بہار کا وقت صحرائی گھاس کو اُڑاتا ہے
ہمارے قافلے خیبر پاس سے داخل ہوتے ہیں
اونٹ لاغرہورہے ہیں لیکن راستوں پر رونق ہے
بٹوے خالی ہورہے ہیں لیکن سامان بڑھ رہا ہے
جب شمال سے برف میں دھنس چکی تجارت اترائی میں
پشاور کے بازاروں میں رونق لگاتی ہے
افغان برصغیر میں داخل ہوتے تو پشاور میں مختصر قیام کرتے جہاں قصہ خوانی بازار ان کا پسندیدہ مقام تھا ، قصہ گوئوں کے بازار سے باہر جانے والی گلیاں بھی اپنے طرزِ تعمیر میں یکساں طور پر شاندار تھیں۔ ان گلیوں میں مختلف کاروبار ہوتے جو شاہراہِ ریشم پر ہونے والی تجارت کے عکاس تھے جن میں ریشم، مصالحہ جات، تانبا، چاندی، لوہا اور خشک میوہ جات شامل ہیں۔ یہ گلیاں اکثر و بیش تر اپنی خاص مہارتوں اوریہاں پر بننے والی دستکاریوں کی مناسبت سے مشہور ہوئیں۔
ان گلیوں میں بازارِ مسگراں بھی شامل ہے ‘ یہ گلی اس مقام سے شروع ہوتی ہے جہاں قصہ خوانی بازار ختم ہوتا ہے۔ یہ گلی انڈیا کی تقسیم سے پہلے آباد ہوئی، اچھے وقتوں میں اس بازار میں بیسیوں ایسی دکانیں تھیں جہاں پر پیتل و تانبے کی مصنوعات بنانے کے علاوہ فروخت کی جاتیں اور ان کی مرمت بھی کی جاتی۔
محمد علی ان اچھے دنوں کو یاد کرتے ہیں جب اس بازار میں کاروبار بہت بہتر تھا، وہ کہتے ہیں:’’ بہت عرصہ نہیں ہوا جب سیاح جوق در جوق اس بازار کا رُخ کرتے تھے اور  پیتل کی دستکاریوں اور آرائشی مصنوعات کی مناسب قیمت ادا کرتے۔‘‘
 گزشتہ دس برسوں سے محمد علی اور ان کے صاحب زادے ایک ایسا کاروبار جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جوشورش کے باعث رفتہ رفتہ ختم ہو رہا ہے اور یہی وہ وجہ ہے جس کے باعث ملکی و غیرملکی سیاح خوف زدہ ہوئے ہیں جو کبھی جتھوں کی صورت میں یہاں آیا کرتے تھے۔ یہ پورا بازار کبھی دھاتوں کو مختلف مصنوعات میں ڈھالنے والے ہنرمندوں سے آباد تھا جو ایک آرٹ کا درجہ رکھتا تھا، اب اس بازار کی دو دکانوں میں سے ایک محمد علی کی ہے جہاں پر پیتل و تانبے کی مصنوعات فروخت کی جاتی ہیں۔
اکتوبر 2009ء میں قریبی مینابازار میں ہونے والے کار بم دھماکے میں 137افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ جون 2010ء میں قصہ خوانی بازار میں ہونے والے بم دھماکے میں 23انسانی جانوں کا ضیاع ہوا جب کہ اسی بازار میں ستمبر 2013ء کو ہونے والے ایک اور بم دھماکے میں کم و بیش 40افراد ہلاک ہوگئے جن میں ایک ہی خاندان کے 18ارکان بھی شامل تھے۔
مسگراں بازار اب ماضی کی ایک پرچھائیں بن کر رہ گیا ہے، پیتل اور کانسی کے دستکاروں کے حالات مایوس کن ہیں۔ کاریگر شیر خان ، جوگزشتہ 25برس سے پشاور کی پجاگی روڈ کی افغان میٹل مارکیٹ میں کام کررہے ہیں، کہتے ہیںکہ ایک وقت تھا جب مارکیٹ میں ایک وقت پر 40سے زائد دستکار کام کیا کرتے تھے جو اپنی مصنوعات کی بہت زیادہ طلب کے باعث دن رات مصروف رہا کرتے۔
انہوں نے کہا:’’ اس وقت صرف چار کاریگر ہی کام کر رہے ہیں جب کہ باقی ہنرمند زیادہ منافع بخش پیشوں کا انتخاب کرچکے ہیں۔‘‘
شیر خان نے کہا کہ پشاور میں پیتل و تانے کی دو طرح کی مصنوعات بنتی ہیں جن میں آرائشی مصنوعات اور گھر یلو استعمال کے برتن شامل ہیں۔ گاہک زیادہ تر کشیدہ کاری سے آراستہ تانبے کے پیالے، مجسمے، کھانے پکانے والی ہانڈیاں، پراتیں اور ہمیشہ ہی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی جانے والی روسی سمووار میں دلچسپی لیتے ہیں جو قہوے کی دکانوں پر سبز چائے بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے اور یہ قدیم شہر میں عام ہے۔
انہوں نے فخر سے اپنی دکان میں موجود مصنوعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’ پشاور کے کاریگروں کی بنائی ہوئی پیتل و تانبے کی مصنوعات کا کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ شیر خان نے مزید کہا:’’ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مصنوعات پشاورکی پہچان بن چکی ہیں۔‘‘
محمد علی کی دکان پر آنے والی ایک گاہک رخسانہ خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ محمد علی کی مستقل گاہک ہیں لیکن تانبے اور پیتل کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باعث وہ گھریلو استعمال کے لیے سٹیل، سلور اور پلاسٹک کی مصنوعات خریدنے کی جانب متوجہ ہوئی ہیں۔ مارکیٹ کے رجحان کے ساتھ چلنے کے لیے محمد علی اور ان کے صاحب زادے سستی مصنوعات فروخت کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
محمد علی کے صاحب زادے سعد خان کہتے ہیں:’’ ان دنوں گاہک سلور اور سٹیل کے برتن طلب کرتے ہیں۔ اب یہ ہماری آمدن کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور کوئی بھی تانبے اور پیتل کے برتن نہیں خریدتا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پیتل اور تانبے کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں اور یہ سلور اور سٹیل سے چار گنا زیادہ ہیں جس کے باعث ان کی طلب میں کمی آئی ہے۔
سعد خان نے کہا:’’ میں اپنے بچوں کو یہ پیشہ ( پیتل اور تانبے کی مصنوعات بنانے) اختیار نہیں کرنے دوں گا کیوں کہ اس کا مستقبل روشن نہیں ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ کبھی یہ ایک ایسا کاروبار اور فن تھا جس پر خاندان فخر کیا کرتا تھا لیکن اب مارکیٹ کے رجحان اور شورش کے باعث اسے چھوڑنا ہی بہتر ہے۔
انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا:’’ہمیں 1958ء میں لاہور میں منعقدہ مغربی پاکستان کی دستکاریوں کی نمائش میں تانبے کی بہترین مصنوعات بنانے پر تعریفی سند دی گئی تھی۔ ‘‘
سعد خان نے کہاکہ حکومت کو چاہیے کہ وہ باصلاحیت دستکاروں کو ان کی مصنوعات کی قومی و بین الاقوامی سطح پر نمائش میں مدد کے لیے ان کی سرپرستی کرے اور پلیٹ فارم فراہم کرے تاکہ ان کے زوال پذیر فن کو محفوظ کیا جاسکے۔
سعد خان کا مزید کہنا تھا:’’ ملک میں امن قائم کرنے اور پیتل و تانبے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کے علاوہ دستکاروں کے ہنر کی نمائش کرنے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرکے حکومت ہمارے کاروبار کو دوبارہ زندہ کرسکتی ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here