کراچی: حکومتِ پاکستان نے اگرچہ اقوامِ متحدہ کے رُکن ملکوں کے لیے دوسرے یونیورسل پیریڈ ریویو (یو پی آر)میں ہتکِ عزت کے قوانین کو جرائم کے دائرہ کار سے خارج کرنے کے لیے پیش کی گئی تجاویز کو قبول کیا تھا تاکہ یہ انسانی حقوق سے ہم آہنگ ہوجائیں۔ تاہم پاکستان میں اب بھی صحافیوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کے تحت کارروائی کی جارہی ہے اور ان کو حراست میں لیا جارہا ہے۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے حال ہی میں دو صحافیوں کو سات سات برس کی قید بامشقت سنائی ہے، یوں یہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ1997ء کے تحت ایسا پہلا معاملہ بن گیا ہے جس کے تحت صحافیوں کو سزا سنائی گئی ہو ۔ یہ دونوں صحافی صوبہ سندھ کے ضلع نوشہرہ فیروز سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ سزائیں نہ صرف پریشان کن ہیں بلکہ صحافیوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کے بڑھتے ہوئے استعمال کے رجحان کی نمائندگی بھی کرتی ہیں ۔ ُاس وقت بہت سے صحافی مزید پریشان ہوگئے جب ضلع بے نظیر آباد میں مہران ٹی وی سے منسلک ایک اور صحافی اظہار مری کو گرفتار کر لیا گیا (مذکورہ ضلع کا نام پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق سربراہ بے نظیر بھٹو کے نام پر رکھا گیا ہے)، یہ ضلع اس سے قبل نواب شاہ کہلاتا تھا۔
تاہم صحافیوں کی اپیل پر سندھ ہائیکورٹ کے سکھر بنچ نے انسدادِ دہشت گردی کی جانب سے ان صحافیوں کو دی جانے والی اس سزا کو کالعدم قرار دے دیا۔ نو مئی 2017ء کو ہفت روزہ ’’ساہتی جو آواز‘ سے منسلک دو صحافیوں اخلاق جوکھیو اور قربان گباہی کو شمالی سندھ کی سکھر سنٹرل جیل سے بری کردیا گیا۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے عہدیدار لالہ اسد، جو اس مقدمے کی پیروی کرتے رہے ہیں، نے نیوز لیز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان صحافیوں کودی جانے والی سزا کے بعد انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت علاقے کے صحافیوں کو حراست میں لینے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے جیسا کہ دفتر برائے ضلعی پولیس نوشہرہ فیروز کے ایک اکائونٹنٹ نے عدالت میں صحافیوں سما ٹی وی کے زاہد راجپر، ان کی اہلیہ روحی بانو، اے آر وائی نیوز کے یونس راجپر، جیو نیوز کے مصطفیٰ ٹاگر، مظہر خاصخیلی اور مرتضیٰ کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت عدالت میں درخواست جمع کروائی اور ان پر ہتکِ عزت کا الزام عائد کرنے کے علاوہ یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ ان سے بھتہ مانگ رہے تھے۔
ضلع نوشہرہ فیروزکے نواح میں دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر آباد قصبے مٹھیانی کے رہائشی سندھ ٹی وی کے امتیاز بھٹی، روزنامہ عبرت کے الٰہی بخش بھٹی، مسرور چانڈیو، ڈاکٹر برکت ملک اور رانا سرور بھی لوئر کورٹس میں اسی نوعیت کے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا اخبارات کے سٹال ہٹانے پر مقامی پولیس افسر کے ساتھ تنازع چل رہا ہے۔
زاہد راجپر نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ دراصل ایک کانسٹیبل یا کلرک کی غیرقانونی طورپر اکائونٹنٹ کے طورپر بھرتی اور اس کی کرپشن کو بے نقاب کررہے تھے جب اس نے ان صحافیوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت جھوٹا مقدمہ درج کروا دیا ۔ ان الزامات کے خلاف بہت سے صحافیوں نے شہید بے نظیر آباد ڈویژن کے ڈی آئی جی فرحت علی جونیجو کے دفتر کے باہر دھرنا دیا جنہوں نے ان صحافیوں کو یہ یقین دلایا کہ اس معاملے کی منصفانہ تفتیش کی جائے گی۔
پاکستان بار کونسل کے رُکن اور ان صحافیوں کے وکیل ایڈووکیٹ شبیر شر نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے صحافیوں کی گرفتاریوں پر سنجیدہ نوعیت کے تحفظات کا اظہار کیا اور یہ کہا کہ جب دونوں صحافیوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت جرم ثابت نہیں ہوا تو اس صورت میں ان کو ہتکِ عزت کے قانون کے تحت سزائیں دینے کا کوئی جواز نہیں تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ یہ جرم قابلِ ضمانت تھا لیکن ان صحافیوں کو اپنی ضمانت کروانے میں تین ماہ لگ گئے اوراس مقدمے کی سماعت اس عدالت میں ہوئی جہاں عموماً ایسے مقدمات پیش نہیں کیے جاتے لیکن درخواست گزار کے سیاسی و معاشی اثر و رسوخ کے باعث ایساممکن ہوا۔
انسدادِ دہشت گردی کے ایکٹ کی شق چھ (کے) کے تحت بھتہ خوری یا جائیداد پر قبضہ کرنا دہشت گردی تصور ہوتا ہے ، مذکورہ بالا شق کو صحافیوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ انسدادِ دہشت گردی کی شق سات سزائوں سے متعلق ہے۔
خبروں کے مطابق2015ء میں سندھ کے ضلع بدین کے تین صحافیوں مرتضیٰ میمن، مہرالدین مری اور حاجان خان لاشاری کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔
قبل ازیں 20نومبر 2013کو خیبرپختونخوا کے ضلع کوہاٹ میں پولیس نے رائل ٹی وی کے ایک رپورٹر فرحان احمد بنگش کے خلاف’’تشدد کو فروغ‘‘ دینے پر انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت کارروائی کی۔ وہ 14روز بعد رہا ہوگئے جب پشاور ہائیکورٹ نے ان کی ضمانت قبول کرلی۔
نیشنل پریس کلب اسلام آبادکے مطابق گلگت بلتستان پولیس نے گلگت بلتستان کے وزیرِاطلاعات کی درخواست پر 20مارچ 2017ء کو صحافی شبیر سہام کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا، ان کے خلاف مذکورہ وزیر سے بھتہ لینے اورمبینہ طورپر ’’غلط خبر‘‘ شائع کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی سندھ ٹاسک فورس کے کوارڈینیٹر ڈاکٹر آشوتھاما نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ صحافیوں سمیت کسی بھی شہری کے خلاف خصوصی عدالتوں میں مقدمات کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے کیوں کہ ان عدالتوں میں ایک ملزم کے لیے اپنا دفاع کرنا ممکن نہیں ہو پاتا۔
انہوں نے نیوزلینز کی جانب سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ صحافیوں کے خلاف بلیک میلنگ کرنے کے الزامات اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات کے اندراج کی نہ صرف پولیس حکام بلکہ میڈیا کی نمائندہ تنظیمیں بھی گہرائی سے تفتیش کریں۔
لالہ اسد نے پی ایف یو جے کے کچھ صحافیوں کے بلیک میلنگ یا معاشی کرپشن کے معاملات میں ملوث ہونے پر تفتیش کرنے کے حوالے سے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ایف یو جے ایسے الزامات کی تفتیش کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ اس مقصد کے لیے صحافیوں کی متعلقہ یونین یا پریس کلب کی خدمات حاصل کی جائیں گی اوراگر کسی صحافی کے خلاف جرم ثابت ہوجاتا ہے تو اس کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی۔
میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق سات سے زائد صحافی، جن میں صوبہ پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے حافظ حسنین اور صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ کے صحافی شامل ہیں جنہیں نہ صرف حراست میں لیا جارہا ہے بلکہ ان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات بھی درج کیے جارہے ہیں۔ بلوچستان کے شہر دلبدین کے صحافی علی رضا رند کا نام فورتھ شیڈول میں شامل کیا گیا ہے ( یہ مبینہ طورپر مشتبہ دہشت گردوں کی فہرست ہے)۔ شیڈول میں شامل ہوجانے کے بعد متعلقہ شخص کوروزانہ کی بنیاد پر مقامی پولیس سٹیشن میں رپورٹ درج کرواناپڑتی ہے اور علی رضا رند پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان کے کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی کے ساتھ روابط ہیں۔
پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل عامر سہیل نے انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کے تحت صحافیوں کے خلاف مقدمات قائم کیے جانے پر تفتیش کا اظہار کیا اور کہا کہ پی یو جے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت ان گرفتاریوں کے خلاف نہ صرف احتجاجی مظاہرے کرے گی بلکہ اس معاملے پر حکومتِ پنجاب اور پولیس کے حکام سے بھی بات کی جائے گا تاکہ اس طرزِ عمل پر قابو پایا جاسکے اور صحافیوں کو کچھ ریلیف فراہم کیا جائے۔
میرپور خاص میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے کالم نگار ایوب کھوسو اور اخبار روزنامہ ’’الکھ ‘‘ کے پبلشر و مالک ظہور انصاری کو 17برس کی قید بامشقت اور 17ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم سنایا جن کے خلاف 1999ء میں توہینِ مذہب اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہوا تھا۔
18اکتوبر 2002ء کو سندھ ہائیکورٹ ، حیدرآباد کے ڈویژن بنچ نے یہ فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور مقدمہ پر ازسرِنو سماعت کے لیے اسے واپس ٹرائل کورٹ بھیج دیا۔
ایڈووکیٹ شبیر شر نے نیوز لینز کی جانب سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں یہ تجویز دی کہ متاثرہ فریق ہرجانے کی ادائیگی کے لیے ایک ایسے بلڈر کے خلاف مقدمہ درج کروا سکتا ہے جو وکیل بھی ہو اوریوں ایک صحافی سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرسکتا ہے۔ انہوں نے اس اَمر پر افسوس کا اظہار کیا کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے لوئرجیوڈیشری اور خصوصی عدالتوں میں زیادہ کام نہیں ہوا۔