خیبر پختونخوا کے ہزاروں سکول بنیادی سہولیات سے محروم

0
1472

پشاور: : خیبرپختونخوا کے قریباً27ہزار سکولوں میں سے 10ہزارسکول فنڈز کی کمی کے باعث بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جس کے باعث صوبے کے ہزاروں طالب علم متاثر ہورہے ہیں۔

خیبرپختونخوا کی سرکاری سکولوں کے حوالے سے سالانہ شماریاتی رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں قائم سکولوں کی مجموعی تعداد 27261ہے جن میں سے 22044پرائمری (13579طالبات اور 8456طلباکے ہیں) اور 5217سیکنڈری سکول ہیں ( جن میں سے 3208طالبات اور 2009طلباکے ہیں)۔

سرکاری سکولوں میں زیرِتعلیم طالب علموں کی مجموعی تعداد4.2ملین ہے جن میں سے 3.02ملین پرائمری اور 1.17ملین طالب علم مڈل و سیکنڈری کی سطح پر تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق ان سکولوں میں کام کرنے والے اساتذہ کی مجموعی تعداد 125265ہے ( 81344مرد اور 43921خواتین اساتذہ ہیں جن میں سے876 70پرائمری، 15207مڈل، 28128ہائی اور 10996گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکولوں میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں)۔

ہر سکول چار بنیادی اجزا پر مشتمل ہوتا ہے جن میں عمارت، اساتذہ ، غیرتدریسی عملہ اور طالب علم شامل ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے:’’ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیگر چار بنیادی سہولیات بھی فراہم کرے جن میں صاف پانی، بیت الخلا، بجلی اور ہر سکول کی سکیورٹی کے لیے بیرونی دیواروں کی تعمیر شامل ہے۔‘‘

ماہانہ بنیادوں پر سکولوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے اعداد و شمار جمع کرنے کا ذمہ دار ادارہ خیبرپختونخوا انڈیپنڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ کہتا ہے کہ قریباً 30فی صد سکول بجلی، 17فی صد پانی، سات فی صد بیرونی دیواروں جب کہ آٹھ فی صد سکولوں میں اساتذہ اور طالب علموں کے لیے بیت الخلا تک کی سہولت موجود نہیں ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ پالیسی سائنس کی جائزہ رپورٹ برائے 2016-17ء میں کہا گیا ہے کہ مالی سال برائے 2014-15ء میں ایلیمنٹری و سیکنڈری سکولوں کے لیے 94ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ مالی سال 2015-16ء میں ان فنڈزمیں پانچ فی صد اضافہ کردیا گیا اور یہ 99ارب روپے ہوگئے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پانچ فی صد اضافے کے ساتھ 104ملین روپے ایلیمنٹری و سکینڈی تعلیم اورآٹھ ارب روپے سکولوں میں عدم دستیاب سہولتوں کی فراہمی پر خرچ کئے گئے۔

تاہم ماہرینِ تعلیم کہتے ہیں کہ سہولیات کی فراہمی کے لیے مختص کی گئی رقم بہت کم ہے اور آٹھ ارب روپے سے ان سہولیات کی فراہمی ممکن نہیں۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکن اور ماہرِ تعلیم عمران ٹاکر نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم پاکستان تحریکِ انصاف کی اہم ترین ترجیح ہے، تاہم بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے آٹھ ارب روپے مختص کرنا ناانصافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبہ بھر کے 30فی صد سکولوں میں پانی کی سہولت دستیاب نہیں ہے جب کہ 10فی صد بیت الخلائوں اور 10فی صد ہی بیرونی دیواروں کے بغیر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی سہولیات کی فراہمی سے نہ صرف طالب علموں بلکہ والدین کی بھی بچوں کوسرکاری سکولوں میں داخل کروانے کے حوالے سے حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

عمران ٹاکر نے کہا:’’ میں شہری اضلاع میں طالبات کے ایسے سکول دیکھ چکا ہوں جہاں بیت الخلا اورپینے کے صاف پانی کی سہولیات تک دستیاب نہیں ہیں جس کے باعث ہمارے صوبے میں خواتین کی تعلیم کی حوصلہ شکنی ہورہی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ صوبہ بھر میں 25لاکھ بچے سکول نہیں جارہے جو حکومت کے لیے ایک پریشان کن صورتِ حال ہے۔
عمران ٹاکر نے کہا کہ اورمار یونین کونسل میں اساتذہ کے نہ ہونے کے باعث تین سکول بند ہوچکے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے مقامی ارکان نے رہائشیوں کی جانب سے بارہا شکایات موصول ہونے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی۔

انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ حکومت سکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے ٹھوس اقدامات کرے اور صوبے میں سرکاری سکولوں کی سابقہ حیثیت بحال کرے۔

پشاور کے ایک رہائشی سلیمان خان نے کہا کہ ان کے دو بچے سرکاری سکول میں زیرِتعلیم ہیں، جب وہ گھرواپس لوٹتے ہیں تو وہ سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ ’’انہوں نے مزید کہا:’’ تعلیم حکومت اور محکمۂ تعلیم کی ترجیح نہیں ہے جس کے باعث لوگ اپنے بچوں کو نجی سکولوں میں داخل کروانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔‘‘

پاکستان مسلم لیگ نواز سے منسلک خیبرپختونخوا اسمبلی کی رُکن آمنہ سردار نے تعلیمی شعبہ میں نمایاں تبدیلی نہ لانے پر پی ٹی آئی حکومت پرکڑی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت صرف وعدے اور دعوے کرتی ہے ، خاص طورپر جب گزشتہ چار برسوں کے دوران اس شعبہ میں کوئی بہتری نہیں آئی۔

حزبِ اختلاف کی رُکن صوبائی اسمبلی نے کہا کہ بہت سے اضلاع میں لڑکیوں کے لیے ہائی سکول تک قائم نہیں ہیں جب کہ دیہی اضلاع میں قائم لڑکیوں کے سکولوں کی اکثریت میں بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔

آمنہ سردار نے کہا کہ شانگلہ، کوہستان، فرنٹیئر ریجن بنوں اور لکی مروت کے اضلاع میںقائم طالبات کے سکولوں میں فراہم کی جارہی تعلیمی سہولیات کا معیار بہتر ہونا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہا:’’ صوبے میں خواتین کی کم شرحٔ خواندگی کی وجہ یہ ہے کہ سکولوں میں بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔‘‘

تاہم، خیبرپختونخوا کے وزیربرائے ایلیمنٹری و سیکنڈری ایجوکیشن محمد عاطف خان نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری سکولوں میں سہولیات کی فراہمی کے لیے 21ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

انہوں نے گزشتہ دورِ حکومت کے ساتھ اپنی حکومت کی کارکردگی کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ اے این پی کے دورِ حکومت میں 2008ء سے 2013کے دوران صرف 1369سکولوں کی بیرونی دیواریں تعمیر کی گئیں جب کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے 13638سرکاری سکولوں کی بیرونی دیواریں تعمیر کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اے این پی کے دورِ حکومت میں 1987سکولوں میں پینے کے صاف پانی کی سہولت فراہم کی گئی۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے صوبے کے 12198سکولوں میں یہ سہولت فراہم کی ہے۔

محمد عاطف خان نے کہا کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران 16016سکولوں میں بیت الخلا قائم کیے گئے ہیں جب کہ اے این پی کے دورِ حکومت میں صوبہ بھر کے سکولوں میں 2065بیت الخلا قائم کیے گئے تھے۔

مذکورہ وزیر نے کہا کہ سرکاری سکولوں میں 12031اضافی کمرے تعمیر کیے گئے ہیں جب کہ 9856سکولوں کو بجلی فراہم کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیہی علاقوں کے ان سکولوں میں 5351شمسی پینل تقسیم کیے جاچکے ہیں جہاں بجلی کی سہولت موجود نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت شعبۂ تعلیم کے مسائل حل کرنے کے لیے کام کررہی ہے اور صوبے کے سکولوں میں جلدتمام بنیادی سہولیات فراہم کر دی جائیں گی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here