پشاور:سرکاری سکولوں کے حوالے سے جاری ہونے والی سالانہ شماریاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا کے ہزاروں سکول بنیادی سہولیات جیساکہ پانی، بجلی و بیت الخلائوں سے محروم ہیں۔
ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (ای ایم آئی ایس) کی حالیہ سالانہ رپورٹ برائے 2014-15ء کہتی ہے کہ صوبے کے 4,473سکولوں کی بیرونی دیوار نہیں ہے، 8,219سکولوں میں پانی تک دستیاب نہیں ہے، 10,213سکولوں میں بجلی نہیں ہے اور 3,900سکول بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں۔
اس رپورٹ میں خیبرپختونخوا کے تمام 25اضلاع کے پرائمری، مڈل، ہائی اور ہائر سیکنڈری سکولوں کا جائزہ لیا گیا ہے جب کہ مدارس و مساجد میں قائم سکول اس فہرست میں شامل نہیں ہیں۔
تعلیمی حکام کہتے ہیں کہ بہت سے دیگر سکول اساتذہ ، کمروں، فرنیچر، کمپیوٹروں اور سائنس لیبارٹریوں کی کمی کا سامنا کررہے ہیںاور اس حوالے سے کوئی سرکاری اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں۔
محکمۂ تعلیم کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، کہا:’’ خیبرپختونخوا میں برسرِاقتدارجماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت خیبرپختونخوا کے تعلیمی شعبہ میں انقلابی تبدیلیاں لانے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن سرکاری سکولوں کی حالتِ زار ایک یکسرمختلف کہانی بیان کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا:’’ خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں بشمول صوبائی دارالحکومت پشاور کے سکول بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جس کے باعث وہ حصولِ تعلیم کے لیے موزوں نہیں ہیں۔‘‘
پشاور کے علاقے لاراما میں قائم گورنمنٹ ہائی سکول(فار بوائز) بھی ایک ایسا ہی سکول ہے۔ یہ پشاور کے نواح میں چارسدہ روڈ پر واقع ہے، سکول میں فرنیچر نہ ہونے کے برابر ہے اور تدریسی عملہ بھی ناکافی ہے۔
سکول کے پرائمری سیکشن سے منسلک ایک استاد محمد طاہر خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ سکول کے پرائمری سیکشن میں زیرِتعلیم 650بچوں کے لیے سرے سے کوئی فرنیچر ہی نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ا س وجہ سے طالب علموں کو زمین پر بیٹھنا پڑتا ہے۔‘‘
محمد طاہر خان نے مزید کہا کہ پرائمری سیکشن کو اساتذہ اور کمروں کی کمی کا سامنا بھی ہے۔ 650طالب علموں کے لیے صرف11کمرے ہیں، جس کے باعث ہر کمرہ کچھا کچ بھرا ہوتا ہے۔ کچھ کلاسوں میں تو ایک وقت میں سو سے زائد طالب علم تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں جب کہ حکومتی معیار کے تحت ایک استاد 40طالب علموں کو ہی پڑھا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ تدریس کے فرائض انجام دینا اس وقت انتہائی مشکل ہوجاتاہے جب آپ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد کو پڑھا رہے ہوں اور ان کی نگرانی کررہے ہوں۔ پرائمری سیکشن میں زیرِتعلیم سینکڑوں طالب علموں کو پڑھانے کے لیے صرف نو اساتذہ ہی دستیاب ہیں۔‘‘
طاہر خان کہتے ہیں کہ اساتذہ کی کمی کے باعث سکول میں تعلیمی امور انجام دینے میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ کلاسوں کے پرہجوم ہونے کے باعث اساتذہ کے لیے یہ انتہائی مشکل ہوتا ہے کہ وہ ہر طالب علم پر انفرادی طورپر توجہ دیں اور درست طورپر پڑھا پائیں۔‘‘
سکول کی والدین و اساتذہ کونسل کی رُکن زرشاد احمد فرنیچر ، کمروں کی کمی و دیگر مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ حکومت نے سکولوں کی والدین و اساتذہ کونسلوں کو محدود فنڈز فراہم کئے ہیں۔
دیگر اضلاع میں قائم سکولوں کی حالتِ زار بھی کچھ بہتر نہیں ہے۔ ضلع مردان کے پسماندہ علاقے گڑھی اسماعیل زئی میں قائم گورنمنٹ پرائمری سکول نمبر 3فرنیچر، اساتذہ و کمروں کی کمی کا سامنا کررہا ہے۔
سکول سے منسلک ایک استاد حشمت خان کہتے ہیں کہ سکول میں زیرِتعلیم 130طالب علموں کی تدریس کے لیے صرف دو اساتذہ ہی دستیاب ہیں ، طالب علم فرنیچر نہ ہونے کے باعث چٹائیوں پر بیٹھتے ہیں جو وہ اپنے گھروں سے لے کر آتے ہیں۔
حشمت خان کہتے ہیں:’’ سکول میں صرف دو ہی کمرے ہیں جس کے باعث ہم طالب علموں کو شدید سردی یا گرمی میں کھلے آسمان تلے پڑھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں،یوں اساتذہ کے لیے تدریس کے فرائض انجام دینا اورطالب علموں کے لیے پڑھنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔‘‘
2010ء میں آئین کی 18ویں ترمیم کے منظور ہونے کے بعد پاکستان میں شعبۂ تعلیم صوبوں کے دائرہ اختیار میں آگیا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی سالانہ تعلیمی رپورٹ کے مطابق :’’صوبے کا تعلیمی بجٹ مستقل طورپر کم ہورہا ہے، یہ 2013-14ء میں 29.3فی صد، 2014-15ء میں 26.3فی صد اور2015-16ء میں کم ہوکر 24.5فی صد رہ گیا۔‘‘
تاہم ڈائریکٹوریٹ آف ایلیمنٹری و سیکنڈری ایجوکیشن صوبے کے تعلیمی شعبہ کی حالتِ زار کے حوالے سے مطمئن ہے۔ڈائریکٹوریٹ کے ایک سینئر افسر ادریس اعظم کہتے ہیں کہ وہ صوبے میں تعلیمی شعبہ کے حوالے سے درپیش مسائل حل کرنے کے لیے ’’جنگی ‘‘ بنیادوں پر اقدامات کررہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ صوبہ بھر کے سکولوں میں اضافی کمروں، بیرونی دیواروں، بیت الخلائوں کی تعمیر اور پانی کی فراہمی کے لیے 21ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ مالی سال 2015-16ء کے دوران سہولیات کی فراہمی پر 15ارب روپے خرچ کئے گئے جب کہ چھ ارب روپے موجودہ مالی سال کے دوران خرچ کئے جارہے ہیں۔
اعظم ادریس نے مزید کہا کہ والدین و اساتذہ کونسل کو ایک کمرے کی تعمیر کے لیے اوسطاً سات لاکھ روپے فراہم کیے جارہے ہیں اور صوبہ بھر کے مختلف سکولوں میں پہلے ہی چار ہزار کمرے تعمیر ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کمروں کی کمی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں صوبے کے پرائمری سکولوں میں دو کمرے ہوا کرتے اور وہاں دو ہی اساتذہ خدمات انجام دیتے تھے لیکن اب حکومت نے ہر سکول میں کمروں و اساتذہ کی تعداد (کم از کم) چھ کردی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نومبر کے اوائل میں کوہاٹ میں ایسے اولین سکول کا افتتاح کیا گیا۔
اعظم ادریس نے کہا کہ حکومت سکولوں میں اساتذہ کی کمی کے بارے میں آگاہ ہے اور مختصر عرصہ میں اساتذہ کی ایک بڑی تعداد بھرتی کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’حکومت 10ہزار سے زائد اساتذہ بھرتی کرچکی ہے۔ 2018ء کے اختتام تک صوبے کا کوئی سکول بھی اساتذہ کی کمی کا سامنا نہیں کررہا ہوگا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ برٹش کونسل کے تعاون سے 83ہزار سے زائد اساتذہ کی تربیت کی جائے گی جس کا آغاز گزشتہ برس دسمبر سے ہوچکا ہے۔
طرزِ حکمرانی کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’’سنٹر فار گورننس اینڈ پبلک اکائونٹیبلٹی‘‘ کے پروگرام منیجر ملک مسعود کہتے ہیں کہ سکولوں کو بہتر بنانے کے لیے کیے جارہے کام کی رفتار سست ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ دیگر حکومتوں کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو (تعلیمی شعبہ میں) نسبتاً بہتری آئی ہے لیکن یہ پی ٹی آئی کے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کے دعوئوں کے مطابق نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کچھ شعبوں میں بہتری آئی ہو لیکن 2017ء کے اختتام تک اہداف کا حصول ناممکن ہے، خاص طورپر جب فرنیچر کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس کے لیے کثیر فنڈز کی ضرورت ہے۔‘‘