کراچی: 2002ء کے بعد سے پاکستان میں متعدد صحافی مارے جاچکے ہیں جن میں سے صرف پانچ اموات کے ہی مقدمات چلے ہیں۔ میڈیا کے سینئر حکام کے مطابق خوف اور معافی کی ثقافت کے باعث مقدمات کی ایک بڑی اکثریت میں سزائیں نہیں ہوئیں۔

2014ء میں پاکستان میں 14صحافی قتل ہوئے، انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے پاکستان کو صحافت کرنے کے لیے خطرناک ترین ملک قرار دیا ہے۔

میڈیا ڈویلپمنٹ کے شعبہ میں کام کرنے والی ایک خودمختار تنظیم پاکستان پریس فائونڈیشن کہتی ہے کہ پاکستان میں 2002سے اب تک 72صحافی اور میڈیا کے کارکن مارے جاچکے ہیں۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے مطابق یہ تعداد دگنا ہے، جو یہ یقین رکھتی ہے کہ اس عرصہ کے دوران135سے زائد صحافی ہلاک ہوئے ہیں۔

وہ پانچ مقدمات جن پر کارروائی ہوئی، ان میں سے ایک جیو نیوز کے رپورٹر ولی خان بابر کا بھی تھا جنہیں 2011ء میں سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں نے کراچی میں قتل کردیا تھا۔

ولی خان بابر کے بڑے بھائی مرتضیٰ خان بابر نے ٹروتھ ٹریکر سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم اپنے بھائی کے قاتلوں کو ہر قیمت پر انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پرعزم تھے۔‘‘

ولی خان بابر جب قتل ہوئے تو کسی نے بھی ایم کیو ایم کے کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج کروانے کی جرأت نہیں کی جو اس جرم میں مشکوک تھے۔

مرتضی خان بابر نے کہا:’’کراچی کی آبادی کی ایک بڑی تعداد اللہ اور ایم کیو ایم کے اہم ترین رہنما الطاف سے خوفزدہ تھی۔ کراچی میں رینجرز کی کارروائی کے بعد سے منظرنامہ تبدیل ہوچکا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا:’’ہم نے اپنی زندگیوں کی قیمت پر مقدمے کی پیروی کرنے کا فیصلہ کیا جیسا کہ ہم پشتون ہیں اور ہم عزت کے لیے لڑنے اور اپنے ساتھ غلط کرنے والوں سے بدلہ لینے کی ایک مضبوط روایت رکھتے ہیں۔‘‘

سندھ پولیس نے اس وقت کے صوبائی وزیرداخلہ ڈاکٹر زوالفقار مرزا کی قیادت میں ولی خان بابر کے قاتلوں کو گرفتار کیا۔ ان پر مارچ 2014ء میں جرم ثابت ہوا۔

دو مجرموں کو موت اور چار کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ان کی سزائوں کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل زیرِالتوا ہے۔

ایم کیو ایم کی قیاد ت نے ابتدا میں مجرموں کے ساتھ تعلق سے انکار کیا تھا، لیکن بعدازاں انہوں نے اسے’’سیاسی انتقام‘‘ قرار دیا۔

حیدرآباد یونین آف جرنلسٹس کے صدر اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے رہنما خالد کھوکھر کہتے ہیں کہ پولیس اور حکومت قتل ہونے والے صحافیوں کے مقدمات میں تعاون نہیں کررہی۔

انہوں نے ٹروتھ ٹریکر سے بات کرتے ہوئے کہا:’’وارثوں کو انصاف فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ لیکن حکومت کی جانب سے ہلاک ہونے والے صحافیوں کے بہت سے مقدمات پر درست طورپر کارروائی نہیں کی جارہی۔‘‘

خالد کھوکھر کا مزید کہنا تھا:’’قتل ہونے والے پانچ صحافیوں کے مقدمات ہی پاکستان میں انصاف کے حصول کے مشکل مرحلے سے کامیابی کے ساتھ گزرے ہیں۔‘‘

ان مقدمات میں، 2002ء میں قتل ہونے والے وال سٹریٹ جرنل کے نمائندے ڈینئل پرل، کراچی کے ولی خان بابر، نثار احمد سولنگی جنہیں 2007ء میں قتل کیا گیا اور ان کے قاتلوں کو 2012ء میں سزا سنائی گئی، ایوب خان خٹک اکتوبر 2013ء میں قتل ہوئے اوران کے قاتلوں کو2016ء میں سزا سنائی گئی اور عبدالرزاق جوہرا کو نومبر2008ء میں قتل کیا گیا، شامل ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2013ء میں قرارداد منظور کی جس میںدو نومبر کو ’’صحافیوں کے خلاف جرائم میں معافی ختم کرنے کا عالمی دن‘‘ قرار دیا گیا۔ قرارداد میں صحافیوں کے قتل کے مقدمات میں معافی دینے کی روایت کے تدارک کے لیے اقدامات کرنے پر زور دیا گیا۔

سینئر صحافیوں اور ماہرین کے مطابق پاکستان میں معافی کی موجودہ صورتِ حال کی وجہ قبائلی عمائدین کی قیادت میں کام کرنے والا انصاف کا غیر رسمی جرگے کا نظام ہے۔

قتل ہونے والے چار صحافیوں کے مقدمات جرگوں کے ذریعے حل کئے گئے، جن میں2002ء میں شاہد سومرو، 2003ء میں امیر بخش بروہی، 2004ء میں ساجد تنولی اور 2010 ء میں مجیب الرحمان کے مقدمات شامل ہیں۔ صحافیوں کے وارثوں پر غیر منصفانہ فیصلے پر پہنچنے کے لیئے دبائوڈالا گیا۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس و ثقافت (یونیسیف) کے مطابق گزشتہ دہائی کے دوران دنیا بھر میں سات سو سے زائد صحافی قتل ہوئے۔

انٹرنیشنل فریڈم آف ایکسپریشن ایکسچینج نے عالمی مہم بعنوان ’’کوئی معافی نہیں‘‘ شروع کررکھی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے دو نومبر2014ء کو معاملے کی نزاکت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا تھا:’’ کہیں پر بھی کسی صحافی کو درست خبر  دینے کے لیے بھی اپنی جان کو دائو پر نہیں لگانا چاہئے۔ آئیے ہم مل کر صحافیوں کے تحفظ ا ور انصاف کی فراہمی کے لیے جدوجہد کریں۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here