پشاور ( ثناء اعجاز) سفینہ بی بی کو اس کی شادی کی رات اس کی ایک عزیزہ نے ’کنواری‘ کے نام سے مشہور ایک ہربل دوا دی جو پردۂ بکارت کو واپس اس کی اصل حالت میں بحال کرکے کنوارے پن کو برقرار رکھتی ہے جس نے غالباًاس کی زندگی بچالی۔
ایک ایسے ملک میں، جہاں خواتین شادی سے قبل جنسی تعلقات استوار کرنے پر قتل ہوسکتی ہیں، ایک دلہن صرف ساڑھے چار ہزار روپے میں ’’کنواری‘‘خرید کر اپنا کنوارہ پن بحال کر سکتی ہے اور شوہر و سسرال کی نظروں میں عزت پاسکتی ہے۔
’’کنواری‘‘ تیار کرنے والی خاتون ناہید بی بی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ کوئی بھی ایسی لڑکی سے شادی نہیں کرنا چاہتاجو کنواری نہ ہو۔‘‘ انہوں نے مزیدکہا کہ ان کے نسخے سے ’’ان ضرورت مند لڑکیوں اور خواتین کی مدد ہوئی ہے جو کنوارہ پن کھو چکی ہیں۔‘‘
ناہید بی بی نے کہا:’’ کنوارے پن کی جانچ سہاگ رات کو کی جاتی ہیں۔ وہ لڑکیاں جو کنواری نہیں ہوتیں، ان کو طلاق ہوجاتی ہے یا وہ قتل کر دی جاتی ہیں۔ چناں چہ میں ان کی زندگیاں بچا رہی ہوں۔‘‘
سفینہ بی بی ( ثقافتی و سماجی بندشوںاور موضوع کی حساسیت کے پیشِ نظر شناخت پوشیدہ رکھنے کے لیے نام تبدیل کیا گیا ہے) کی عزیزہ اس حقیقت سے آگاہ تھیں کہ وہ کنواری نہیں ہے کیوں کہ اس نے کچھ برس قبل خفیہ طور پر شادی کرلی تھی اور اس کا خاندان اس کی دوبارہ شادی کرنا چاہتا تھا۔
اس کی عزیزہ نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سفینہ کا خاندان اس کی اس مشکل سے آگاہ نہیں تھا کیوں کہ اس نے مختصر عرصہ رہنے والی اپنی پہلی شادی کے بارے میں ان کو کچھ نہیں بتایا تھا۔
سفینہ کی عزیزہ نے کہا:’’ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب لڑکی کنوارے پن سے محروم ہوجاتی ہے تو اس کووالدین یا بھائی کوئی بھی قبول نہیں کرتا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ لڑکیاں غیرت کے نام پر قتل کردی جاتی ہیں چناں چہ اسی خوف اور تشویش کے باعث ہی میں نے سفینہ کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔‘‘
یہ ہربل دوا ایک ایسے پدری معاشرے میں خواتین کا کنوارہ پن بحال کرتی ہے جہاں اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔
رواں برس اپریل میں صوبۂ سندھ کے ضلع جیکب آباد میں ایک خاتون کو مبینہ طور پر اس کے شوہر نے سہاگ رات پر کنوارہ نہ ہونے کے باعث قتل کردیا تھا۔ پاکستان کے پدری معاشرے اور خاص طور پر قبائلی اور جاگیردارانہ سماج کے حامل اضلاع میں عورتوں کا غیرت کے نام پر قتل عام ہے جہاں ایسے واقعات پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے یا یہ سرے سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
حالیہ برسوں کے دوران پاکستان میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کی وارداتوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے، انسانی حقوق کمیشن پاکستان ( ایچ آر سی پی) کی جانب سے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں یکم فروری 2004ء سے یکم فروری 2006ء تک غیرت کے نام پر قتل کے 988واقعات ہوئے۔
ایچ آر سی پی کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق فروری 2014ء سے فروری 2016 ء تک غیرت کے نام پر قتل کے 1276واقعات ہوئے۔ پولیس نے تقریباً ایک تہائی واقعات کا مقدمہ ہی درج نہیں کیا۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک قانون دان ہارون شنواری نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’پاکستان میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے بہت سے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے کیوں کہ دیہاتوں میں قائم جرگے ان واقعات کی خبر میڈیا میں نہیں آنے دیتے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ پاکستان بھر میں کنواے پن کی جانچ اور اس کی تصدیق ایک روایت کا روپ دھار چکی ہے لیکن دیہاتوں کے بے لچک قبائلی ڈھانچے کے باعث ایسے واقعات عدالتوں یا میڈیا میں نہیں آتے اور نہ ہی قانونی پہلوئوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ا ن کی تفتیش کی جاتی ہے۔‘‘
سفینہ نے دوسری شادی سے قبل اپنی عزیزہ کی لائی ہوئی دوا استعمال کی۔ وہ کہتی ہیں:’’ میں نے یہ دوا پانی کے ساتھ کھائی اور میرا خاوند یہ نہیں جان سکا کہ میں کنواری نہیں تھی۔‘‘
علی’’پردۂ بکارت کی بحالی کی ادویات‘‘ آن لائن فروخت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ان کی مصنوعات کے زود اثر ہونے کی ’’ضمانت‘‘ ہے۔
انہوں نے کہا:’’ میں ملک بھر سے آرڈر وصول کرتا ہوں۔ میرے پاس پردۂ بکارت کی بحالی سے پستانوں کو صحت مند اور پرکشش بنانے تک کی ادویات دستیاب ہیں جو پاکستان بھر میں فراہم کی جاتی ہیں۔‘‘
فیصل آباد میں صرف علی کی ہی ایسی واحد دکان نہیں ہے جو پردۂ بکارت واپس اپنی اصل حالت میں بحال کرنے والی ادویات پاکستان بھر میں فراہم کرتی ہے۔
مختلف ویب سائٹس ایسی ادویات اندرون و بیرون ملک فراہم کررہی ہیں۔ ’’Hymen Shop‘‘ ایک ایسی ہی دکان ہے جو تمام تر ہدایات کے ساتھ ادویات ارسال کرتی ہے۔
پشاور میں پردۂ بکارت بحال کرنے والی ادویات فروخت کرنے والی خاتون ناہید بی بی کہتی ہیں کہ ان کی ادویات نے ’’ ایسی لڑکیوں اور خواتین کی مدد کی ہے جن کا پردۂ بکارت ٹوٹ چکا تھا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ کوئی بھی ایسی لڑکی سے شادی نہیں کرنا چاہتا جو کنواری نہ ہو۔ شادی کی رات کنورے پن کی جانچ کی جاتی ہے۔ وہ لڑکیاں جو کنواری نہیں ہوتیں، ان کو طلاق دے دی جاتی ہے یاوہ قتل کردی جاتی ہیں، چناں چہ میں ان کی زندگیاں بچا رہی ہوں۔‘‘
تین نوجوان خواتین کی ساس 63برس کی فاتح لال نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی بہوئوں کے سہاگ رات گزارنے کے بعد ’’پردۂ بکارت‘‘ کی جانچ کے ذریعے ان کے کنوارے پن کی تصدیق کی۔
انہوں نے کہا:’’ ایسا کرنا عام ہے۔ ہم نے ایک سفید رومال پلنگ پر رکھ دیا اور صبح کے وقت خاندان کی ایک ادھیڑ عمر خاتون اور ساس نے پردۂ بکارت ٹوٹ جانے کے باعث ان پر لگنے والے خون کے دھبوں کو دیکھا۔ کنوارے پن کی تصدیق ہوجانے پر اس خاتون نے ساس کومبارک باد دی۔‘‘
پردۂ بکارت مباشرت کے علاوہ روئی کے لاپرواہی کے ساتھ استعمال، انگلیوں یا کسی بھی دوسری شے کو وجائنا میں داخل کرنے، سخت ورزشوں جیسا کہ سائیکلنگ اور مختلف کھیلوں مثال کے طورپر ہائی و لانگ جمپنگ اور جمناسٹک سے بھی ٹوٹ سکتا ہے۔
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے شعبۂ گائناکالوجی کے سی یونٹ کی سربراہ ڈاکٹر نعیمہ عثمان کے مطابق کچھ خواتین کے پردۂ بکارت کے ٹشوز پیدائشی طور پر کمزور ہوتے ہیں اور بہ ظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ پردۂ بکارت ٹوٹ چکا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ پردۂ بکارت کی بحالی کی ہربل اور دیگر ادویات انفیکشن اور وزن بڑھنے کی وجہ بن سکتی ہیں۔
ڈاکٹر نعیمہ عثمان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ایسی غیرشادی شدہ لڑکیاں جو مصنوعی کنوارہ پن چاہتی ہیں، مدد کے لیے ان سے رابطہ کرتی ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ ایک گائناکالوجسٹ ہونے کے باعث میں پردۂ بکارت کی بحالی کی سرجری کا مشورہ دیتی ہوں جو ڈاکٹر اور پلاسٹک سرجن وغیرہ کرتے ہیں۔‘‘
Send me contact number