پشاور: نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان ذکاء اللہ کے لیے مقدس ماہِ رمضان میں اشیائے خور و نوش کے مہنگے ہونے کے باعث گزر بسر مشکل ہوگئی ہے۔ رواں برس ذکاء اللہ اور ان کی طرح محدود وسائل کی حامل آبادی کو دوہرے خوف کا سامنا ہے کیوں کہ ایک جانب اگر اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری جانب رمضان المبارک میں مہنگائی کے عفریت پر قابو پانے کے لیے کوئی سستا بازار نہیں لگایا گیا۔

ذکاء اللہ کہتے ہیں کہ رمضان المبارک میں دکان دار گاہکوں کی کھال اتارتے ہیں جس کے باعث حکام کی جانب سے قیمتوں کے بڑھنے کے باعث عوام کے لیے پیدا ہونے والی مشکلات کو کم کرنے کے لیے سستا رمضان بازار لگائے جاتے ہیںجن میں روزمرہ کی اشیاء کم قیمت پر دستیاب ہوتی ہیںجو اب قصۂ پارینہ بن چکے ہیں لیکن رواں برس عوام کے لیے یہ بھی نہیں لگائے گئے۔

انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ پاکستان میں رمضان المبارک کے دوران اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ اب ایک روایت بن چکی ہے۔ رواں برس قیمتوں میں بدترین طور پر اضافہ ہواہے اور میںاپنے خاندان کی افطار کے لیے اشیائے خورنوش مناسب قیمت پر خریدنے کے لیے کوئی سستا بازار تلاش نہیں کرسکا۔‘‘

ہر برس تاجر طلب میںا ضافے کے باعث ماہِ رمضان میں پھلوں، سبزیوں، گوشت اور گروسری مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیتے ہیں۔صوبائی اور ضلعی حکومتیں سستا بازار لگاتی ہے جوپشاور میں گزشتہ دو برسوں سے نہیں لگا۔ 13جون کو جاری کی جانے والی ایک پریس ریلیز میں برسرِاقتدار جماعت پاکستان مسلم لیگ نے خیبرپختونخوا میں برسرِاقتدار پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت پر رمضان المبارک کے دوران سستے بازار نہ لگانے پر تنقید کی۔

پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا کہ لوگوں کو اشیائے خور ونوش مہنگے داموں خریدنے پر مجبور کردیا گیا ہے کیوں کہ منافع خوروں کے خلاف کارروائی نہیں کی جارہی۔ ذکاء اللہ کی طرح کم آمدن والے لوگوں کے لیے قیمتوں میں اضافے کا مطلب کھانے پینے کی اشیا اور دیگر ضروریاتِ زندگی سے محروم ہونا ہے کیوں کہ شہر کی انتظامیہ پھلوں، سبزیوں اور اشیائے خورو نوش کی سرکاری قیمتوں پر فروخت ممکن بنانے میں ناکام رہی ہے۔

رمضان اسلامی کیلنڈر کا نواں مہینہ ہے جب دنیا بھر کے مسلمان روزہ رکھتے ہیں۔ رمضان المبارک کے دوران اشیائے خورونوش، پھلوں، سبزیوں، گوشت اور گروسری کی مصنوعات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوتاہے۔

ذکاء اللہ نے کہا:’’ حکام نے قیمتوں میں اضافے پر قابو پانے کے لیے بہت کم اقدامات کیے ہیں اور اس حوالے سے شاز و نادرہی بازاروں کے دورے کیے جن کا مقصد قیمتوں کی مانیٹرنگ قرار دیا گیا۔ یہ دورے صرف دکھاوے کے لیے کیے گئے۔ ان کے مطمعٔ نظرمیڈیا پر آکر اچھا نظر آنا تھا جب کہ لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے انہوں نے بہت کم اقدامات کیے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ حکام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے قیمتوں پر قابو پالیا ہے اور سرکاری نرخنامے پر عملدرآمد ممکن بنایا ہے لیکن ضلع بھر میں لوگ میڈیا پر حکام کی منافع خوروں کے خلاف کارروائی میں ناکامی کے حوالے سے شکایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

پشاور کی ضلعی حکومت کے ترجمان فیروز شاہ کے مطابق یہ ضلعی حکومت کی بجائے ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ قیمتوں پر نظررکھے اوررمضان المبار ک کے دوران سستے بازار لگائے۔

ضلعی انتظامیہ کے ترجمان ساجد خان نے ٹیلی فون پر نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ سستے رمضان بازاروں کا مقصد کم قیمت پراشیائے خورو نوش فراہم کرنا ہے لیکن رواں برس ضلعی انتظامیہ نے ہر بازار میں دکان داروں پر نظر رکھ کر ایسا ممکن بنایا ہے۔‘‘

ان دعوئوں کے باوجود قیمتوں پر بہت کم قابو پایا جاسکا ہے کیوں کہ پھل اور سبزیاں فروخت کرنے والے تاجر قیمتوں میں اضافے کی اپنی ہی وجوہات بیان کرتے ہیں۔

پشاور کے شاہی باغ کے نزدیک قائم سبزی منڈی میں پھلوں کے دکان دار مہراب شنواری کہتے ہیں کہ مہنگائی کے حوالے سے لوگوں کا ردِعمل درست ہے لیکن دکان دار اس حوالے سے کچھ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہول سیلرز کی جانب سے اشیائے خور و نوش کی ذخیرہ اندوزی اور رمضان المبارک کے دوران سبزی منڈی میں مہنگے داموں نیلامی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجوہات ہیں۔

مہراب شنواری نے کہا:’’ اگر دکان دار پھل اور سبزیاں مہنگے داموں خریدتے ہیں تو وہ ان کو کس طرح مناسب قیمت پر فروخت کرسکتے ہیں؟‘‘

انہوں نے کہا کہ اکثر و بیش تر خراب پھلوں اور سبزیوں کے کریٹ اور بورے خرید لیتے ہیں اور اس نقصان کے ازالے کے لیے قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔

فوڈ کنٹرولر تسبیح اللہ نے کہا کہ وہ سرکاری نرخوں پر فروخت پر عملدرآمد کے لیے مختلف بازاروں میں مستقل بنیادوں پر ’’چھاپے‘‘ مار رہے ہیں اور انہوں نے خلاف ورزی کرنے والے متعدد افراد کو حراست میں لیا ہے اور جرمانے عاید کیے ہیں۔

انہوں نے کہا:’’ اب تک 86افراد کو ذخیرہ اندوزی ، سرکاری نرخنامے سے زیادہ یا غیر معیاری اشیائے خور و نوش فروخت کرنے پر گرفتار کیا جاچکا ہے اور جرمانے عاید کیے گئے ہیں۔‘‘

ضلعی انتظامیہ کے ترجمان ساجد خان نے کہا کہ پشاور ضلع کے مجسٹریٹس (اسسٹنٹ کمشنرز) مختلف بازاروں میں سحری کے وقت بغیر پروٹوکول اور سادہ لباس میں چھاپے مار رہے ہیں تاکہ گاہک نظر آئیں۔

انہوں نے مزید کہا:’’ ان چھاپوں کا مقصد قیمتوں پر قابو پانے کے لیے کی جانے والی اس کارروائی کو مؤثر بنانا ہے۔ ضلع میں پہلی بار سادہ لباس میں سحری کے وقت چھاپے مارے جارہے ہیں۔‘‘

ساجد خان نے کہا:’’ سرکاری نرخناموں کی خلاف ورزی پر اب تک سینکڑوں ذخیرہ اندوزوں اور غیر معیاری اشیائے خور و نوش فروحت کرنے والے دکان داروں کو گرفتار کیا جاچکا ہے یا پھر ان پر جرمانے عاید کیے گئے ہیں۔‘‘

تاہم نوتھیا بازار میں ایک گاہک سعد علی نے نیو زلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان چھاپوں کے مؤثر نہ ہونے کی وجہ محکمۂ خوراک، ضلعی حکومت اور پولیس کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے۔

انہوں نے کہا:’’ انتظامیہ کو نہ صرف مستقل بنیادوں پر چھاپے مارنے چاہئیں بلکہ یہ بھی نظر رکھی جائے کہ دکان دار سرکاری نرخنامے کے مطابق ہی اشیا فروخت کررہے ہیں یا نہیں۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here