ڈیرہ اسماعیل خان: ’’ چہ زہ آ ب زدہ کڑم ، مہ داس ماحول تہ بوزہ، بابا مو سکول تہ بوزہ ‘‘یہ بول ہیں پشتو لوک گلوکار شوکت وزیر کے گانے کے جس کے معنی ہے ’’بابا مجھے ایسے ماحول لے جائو جہاں میں اب سیکھ سیکھوں ، بابا مجھے سکول لے جائو۔”
شوکت وزیر کا تعلق جنوبی وزیرستان ایجنسی کے علاقے وانہ سے ہے ۔ شوکت نے 2006 میں گلوکاری اور شاعری کا آغاز کیا مگر علاقے میں پھیلی دہشت گردی اور طالبان کے راج نے اس کے فن کو پروان نہ چڑھنے دیا۔ اب اسی سال اس نے اپنے اس شوق کا باقائدہ آغاز کیا ہے۔ شوکت وزیرنے بتایا کہ “اب تک میں نے 34 پشتو آڈیو گانے ریکارڈ کروائے ہیں، جن میں سے اکثر بہت مقبول ہوئے ہیں۔”
شوکت وزیر گلوکاری کے ساتھ ساتھ پشتو شاعر ی بھی کرتے ہیں اور ان کی دو کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں ۔ “ہم امن اور محبت سکھاتے ہیں اور نفرت کرنے والوں کو بھی محبت کی طرف بلاتے ہیں، جن قبائلی بچوں کے والدین حیات ہیں، وہ بچوں کو پڑھائیں اور جن کے والدین جنگ میں مر گئے ہیں، ان بچوں کے سر پر ہاتھ رکھیں تاکہ وہ مستقبل میں نفرت کرنے والے نہ بن جائیں۔”
جنوبی وزیرستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں گزشتہ 15 سا ل کے عرصے سے ثقافتی سرگر میاں شدید پابندی کی زد میں رہیں۔ جس کی وجہ سے سب سے زیادہ گلوکار اور شاعر طبقہ متاثر ہوا۔ اس پیشے سے وابسطہ اکثر لوگوں نے اپنے پیشے اور فن کو خیر باد کہ دیا اور کچھ نے علاقے سے نقل مقانی کرکے پاکستان کے بندوبستی علاقوں میں رہائش اختیار کر لی۔
Arts Freedom ادارے کے مطابق اپریل 2015 میں صوابی کے علاقے میں فائرنگ سے ایک ڈھول بجانے والے کو قتل کر دیا گیا۔
مارچ اور جون 2014 میں ، پشتو مقامی گلوکار وزیر خان دہشت گردوں کے ہاتھوں تین بار اغواء ہوئے اور ہر بار اسی شرط پر رہا ہوئے کہ وہ گانا نہیں گائیں گے۔ جبکہ پشاور میں پشتو گلوکارہ گل ناز کو نامعلوم مسلح افراد نے ان کے گھر میں گھس کر قتل کر دیا تھا۔
جبکہ اسی ادارے کی اگست 2016 کے ایک رپورٹ کے مطابق پشاور کے نواحی گائوں شیخان جو خیبر ایجنسی سے متصل ہے، میں دہشت گردوں کے حملے کے خطرے کے باعث مقامی انتظامیہ کی جانب سے علاقے میں موسیقی اور ناچ گانے کی تقریبات پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
پاکستان پریس فائونڈیشن کے مطابق 2000 سے لیکر 2011 تک پاکستان کے قبائلی علاقوں اور صوبہ خیبر پختون خواہ میں موسیقی اور ثقافتی سرگرمیوں سے وابسطہ 14 افراد کو ہلاک،15 کو زخمی اور 121 کو اغوا کیا گیا اسی عرصے کے دوران مختلف علاقوں میں 580 سی ڈی شاپس اور میوزک سنٹرز کو دھماکہ خیز مواد سے تباہ کیا گیا اسی دوران مختلف علاقوں میں 13 موسیقاروں اور گلوکاروں کو دھمکیاں دے کر کام بند کروا دیا گیا۔
Free Muse ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق نومبر 2011 کے ایک ماہ کے دوران خیبر پختون خواہ کے علاقے صوابی اور شمالی وزیرستان میرانشاہ میں نامعلوم تخریب کاروں نے ایک درجن سے زائد سی ڈی شاپس کو دھماکہ خیز مواد سے تباہ کیا جبکہ جون 2012 میں پشتو کی معروف گلوکارہ غزالہ جاوید کو پشاور میں نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کرکے والد سمیت قتل کر دیا۔
شوکت وزیر کے مطابق اپنے ایک گانے کی ریکارڈنگ کے لیے کئی لوگوں کی منتیں کرنا پڑتی ہیں کیونکہ ہمارے پاس کوئی سٹوڈیو نہیں ہے۔ وزیر نے بتایا کہ”سرکاری اداروں کی لاپرواہی اور امن و امان کے خراب حالات دیکھ کر کئی بار یہ فیصلہ کیا کہ اس پیشے کو چھوڑ دوں مگر لوگوں کی محبت اور اسرار روک دیتی ہے ۔” شعراء اور گلوکاروں کے فلاح و بہبود کے لیے کسی ادارے کا ہمیں علم نہیں۔ “ایک گانے کی ریکارڈنگ کروانے کے لیے مجھے پشاور جاکر مہینے تک انتظار اور دھکے کھانے پڑتے ہیں البتہ ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت شعراء کی دو تنظمیں بنائی ہے جو قبائلیوں کی تفریح کے چھوٹے چھوٹے پروگرامز منعقد کرواتی ہے،”
جنوبی وزیرستان سپورٹس اینڈ کلچر آفسیر تاج محمد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سپورٹس کی طرح ثقافتی سرگرمیوں کے لیے بھی حکومت کی طرف سے ان کے پاس کوئی باقائدہ فنڈز نہیں ہیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس سال ان کے لیے ایک دو پروگرام منعقد کروائے جائیں۔ واقعی ان کے مسائل بے شمار ہیں جن کی طرف توجہ وقت کی اہم ضرورت ہے ہمارا ادارہ جنوبی وزیرستان کے گلوکاروں اور شعراہ سے ان کے مسائل کے حوالے سے مسلسل ان کے ساتھ رابطے میں ہے۔”
قبائلی نوجوان عرفان اللہ محسود کا خیال ہے کہ گزشتہ پرتشدد حالات کے باعث قبائلی نوجوان شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ وہ تفریح اور ثقافتی پروگرامز کے مواقع تلاش کرتے رہتے ہیں۔ “ہماری ثقافت تشدد نہیں ہے بلکہ معاشرے اور حکومت کے استحصال نے ہمیں بدنام کیا۔ میوزک پروگرامز اور مشاعرے میرے پسندیدہ ہیں کچھ عرصہ سے ایسی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوئی ہیں جوکہ بہت اچھا قدم ہے۔ شادی اور عید جیسے تہواروں پر ہمارا ثقافتی رقص(اتنڑ) لازمی جزو ہے۔”
قبائلی ادیب سیلاب محسود نے نیوز لینز پاکستان کو بتایا کہ یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے کہ جنگ اور بم دھماکوں سے متاثرہ قبائلی معاشرے کے ثقا فت پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ۔ “ملک کے باقی علاقوں کے گلوکاروں اور ادیبوں کو جو مراعات حاصل ہیں یہاں پر ان کا کوئی نام و نشان نہیں۔ اکادمی ادبیات آف پاکستان کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ گورنر خیبر پختون خواہ کے اختیارات میں کافی فنڈ موجود ہیں ان کو غریب اور مسائل میں گھرے قبائلی گلوکاروں اور شعراء کے مسائل ضرور دیکھنے چاہئے تاکہ علاقے میں امن کا پیغام دینے والوں کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔
ایک اور قبائلی نوجوان سہیل محسود کا خیال ہے کہ وزیرستان میں نئے گلوکاروں کا کام بہت اچھا ہے حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی ان کی مدد اور حوصلہ افرائی کرنی چاہیے ۔ “نوجوان گلوکاروں کے لیے اکیڈمی کا قیام ضروری ہے اکثر لوگ اب گانے کو معیوب نہیں سمجھتے سہولیات دیکر اس رکاوٹ کو ختم کیا جا سکتا ہے۔”
گلوکار شوکت وزیر کے مطابق ایک نظم یا غزل نے دنیا میں انقلاب برپا کیے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ وہ اپنے علاقے کے محروم طبقے میں خاص کر تعلیم کے حوالے سے شعور پیدا کریں۔ “تعلیم کا حصول امن کے بغیر ممکن نہیں،اور امن اپنی ثقافت کو زندہ اور پائندہ رکھنے میں ہے۔”