کوئٹہ: ایک طویل رقبے پر محیط صوبے میں شہری آبادیوں کے دوردراز ہونے اور ثقافتی بندشوں کے علاوہ زچگی کی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث ایک لاکھ حاملہ خواتین میں سے ایک اندازے کے مطابق وفات پاجانے والی خواتین کی تعداد میں ہر برس 785نئی خواتین کا اضافہ ہورہا ہے۔
یہ تناسب میٹرنل نیونیٹل اینڈ چائلڈ ہیلتھ رپورٹ برائے 2012ء میں ریکارڈ کیا گیا تھا جو اسی برس ملک بھر میں دورانِ زچگی وفات پاجانے والی خواتین کے تناسب سے 2.5فی صد زیادہ ہے جس کے مطابق ہر برس ایک لاکھ حاملہ خواتین میں سے 297مائیں بچہ جنم دیتے ہوئے وفات پاجاتی ہیں۔
یونیسیف کے 2015ء میں جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں دورانِ زچگی اموات کا تناسب عالمی سطح پر زچگی کے دوران وفات پاجانے والی خواتین سے قریباً چار گنا زیادہ ہے جو ایک لاکھ خواتین میں 216ہے۔ یونیسیف کی جانب سے حاملہ خواتین اور بچوں کی صحت کے حوالے سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق صرف نائیجیریا، سیرالیون اور جنوبی سوڈان میں یہ تناسب بلوچستان سے زیادہ ہے۔ 2015ء میں پڑوسی ملک افغانستان میںیہ تناسب ایک لاکھ خواتین میں 396تھا جب کہ انڈیا میں یہ شرح ایک لاکھ میں 174 تھی۔
45برس کی صدیقہ نے اس وقت اپنی زندگی کے مشکل ترین تجربے کا سامنا کیا جب انہوں نے 11ویں بارجڑواں بچوں کو جنم دیا۔ ان کے جڑواں بچے زندہ نہیں بچ سکے ۔ وہ زچگی کے دوران کمزوری اور بخار کا شکار ہوگئی تھیں لیکن وہ علاج سے محروم رہیں۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں پورا برس کمزوری محسوس کرتی رہی اور بخار کا شکار رہی۔میں اس قدر کمزور ہوگئی تھی کہ بستر سے لگ کر رہ گئی۔ لیکن کسی نے میرا خیال نہیں رکھا۔ میری کمزوری کے باعث میرے غیرمتولد بچوں کی صحت بھی متاثر ہوئی۔‘‘
صدیقہ کی طرح بلوچستان بھر میں خواتین اس وقت اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزرتی ہیں جب وہ حاملہ ہوتی ہیں۔ حاملہ خواتین کو ڈاکٹروں کے پاس لے کر جانا روپے کا ضیاع تو تصور کیا ہی جاتا ہے بلکہ اسے بے شرمی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ رجعت پسند روایات کے مطابق پیدائش اور موت گھر پہ ہی ہونی چاہئے۔
اگر حاملہ خاتون کو ہسپتال لے جایا جائے تو پورے خاندان کو ہسپتال جانا پڑتا ہے کیوں کہ حاملہ خاتون کو ہسپتال لے جانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ موت کا شکار ہوسکتی ہے۔ میٹرنٹی وارڈ ز میں رشتہ داروں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے سول ہسپتال میں روایتی پشتون اور بلوچ ملبوسات میں ملبوس غریب مردو خواتین نوزائیدہ بچوں کو کمبل اوڑھائے نظر آتے ہیں۔ وہ میٹرنٹی وارڈ کے کاریڈور کو اپنا دوسرا گھر بنا لیتے ہیں ، اور لیبر وارڈز میں زیرِعلاج اپنی رشتہ دار خواتین کی تیمار داری کررہے ہوتے ہیں۔
ہسپتال میں ہی موجود ایک تیماردار جمیل کاکڑ نے پرمزاح انداز میں کہا:’’ ہمارے لوگوں کے پاس بچے پیدا کرنے کے علاوہ کوئی اور تفریح نہیں ہے۔‘‘ وہ ہسپتال کے میٹرنٹی وارڈ میں اپنی سالی کا انتظار کر رہے تھے۔
ہسپتال میں روزانہ بہت سی حاملہ خواتین لائی جاتی ہیں۔ بہت سی خواتین رکشوں یا پھر ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں ہی بچوں کو جنم دے دیتی ہیں۔
جمیل کاکڑ نے کہا:’’ ہم نے حقیقی معنوں میں’’اُمت کی آبادی‘‘ بڑھانے کے نعرے پر عمل کیا ہے لیکن ہم نے اپنی خواتین اور بچیوں کے مستقبل کی سرے سے ہی کوئی پرواہ نہیں کی۔‘‘
بلوچستان کے وزیرِصحت رحمت صالح بلوچ یہ یقین رکھتے ہیں کہ 2012ء کے بعد سے دورانِ زچگی بچوں و ماؤں کی اموات کی شرح میں کمی آئی ہے لیکن اس حوالے سے کوئی تازہ ترین اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ امیونائزیشن کا تناسب 16فی صد سے بڑھ کر اب 64فی صد ہوگیا ہے۔
رحمت صالح بلوچ نے نیوز لینزپاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’گزشتہ ربع صدی سے گوادر، پنجگور، واشک اور صوبہ بھر میں کوئی ضلعی ہسپتال ایسا نہیں ہے جہاں سی سیکشن کیا جاسکتا ہو۔ لیکن ہم نے اب ہر ضلعی ہسپتال میں ماہر ڈاکٹر تعینات کردیے ہیں اور میٹرنٹی وارڈز قائم کردیے ہیں۔‘‘
لوگ اپنے آبائی علاقوں میں ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہی وہاں زچگی مراکز قائم ہے اوراگر ڈاکٹرز دوردراز کے شہروں جیسا کہ کوہلو اور سبی جائیں تو ان کی رہائش کے لیے بھی کوئی خاطرخواہ انتظامات موجود نہیں ہیں۔ان علاقوں میں لیڈی ہیلتھ ورکرز بھی خدمات انجام نہیں دے رہیں جو حاملہ خواتین کو طبی معاونت فراہم کرسکتی ہیں۔
سینئر گائناکالوجسٹ ڈاکٹر ساجدہ مری نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’صوبے میں حاملہ خواتین کے علاج کے لیے کوئی سہولت دستیاب نہیں۔ حکومت اشتہارات تو بہت دیتی ہے لیکن زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے عوام میں آگاہی پیدا کرنے، حاملہ خواتین کی غذائی ضروریات پورا کرنے، ایمبولینسوں اور زچگی مراکز کی فعالیت کے حوالے سے اب تک کوئی منصوبہ تشکیل نہیں دیا۔
ڈاکٹر ساجدہ مری نے کہا:’’ لوگ وسائل نہ ہونے کے باعث گائناکالوجسٹ سے مشورہ کرنے کے بجائے دائیوں اور ادھیڑ عمر عورتوں پر انحصار کرتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ عالمی تنظیموں نے قبل ازیں خواتین کوطبی خدمات اور بالخصوص زچگی کی سہولیات فراہم کرنے اور صحت سے متعلق اعداد و شمار جمع کرنے کے حوالے سے اہم کردار ادا کیاتھا۔ تاہم ان تنظیموں پر پابندی کے باعث وہ صوبہ بدر ہونے پر مجبور ہوچکی ہیں۔‘‘
وزیرِصحت رحمت صالح بلوچ یہ یقین رکھتے ہیں کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران پرتشدد عسکریت پسندی کے دوران کوئٹہ اور اس کے نواحی علاقوں میں بہت سے مہلک بم حملے ہوئے جس کے باعث کئی ماہر گائناکالوجسٹ صوبہ چھوڑ گئے اور وہ سعودی عرب، اومان اور متحدۂ عرب امارات منتقل ہوگئے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ ہمارے پاس صوبہ بھر میں قریباً 47ماہر ڈاکٹر ہی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ گائناکالوجی کے شعبہ میں تین سو آسامیاں خالی پڑی ہیں۔‘‘
بہت سی خواتین اس وقت دم توڑ جاتی ہیں جب ان کے گھروں پہ غیر تربیت یافتہ دائیاں ان کی ڈلیوری کررہی ہوتی ہیں۔ ماؤں کو صرف اسی وقت ہسپتال لے کر جایا جاتا ہے جب ان کے زندہ رہنے کا امکان کم ہوجاتا ہے اور وہ ہسپتال کے بستر پر دم توڑ جاتی ہیں۔
پاک افغان سرحد سے متصل قصبے چمن سے تعلق رکھنے والی ایک لیڈی ہیلتھ ورکر غزالہ بشیر کہتی ہیں کہ بہت سے ضلعی ہسپتالوں میں گائناکالوجسٹ خدمات انجام نہیں دے رہیں۔ ایسے ہسپتال جہاں گائناکالوجسٹ خدمات انجام دے رہی ہیں، انہیں شاذ و نادر ہی ڈلیوری کے لیے دوردراز کے علاقوں میں بھیجا جاتا ہے کیوں کہ ہسپتالوں کے میٹرنٹی وارڈز کے چلتے رہنے کے لیے ان کا وہاں موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ دورانِ زچگی اموات کی بنیادی وجوہات میں خون کا زیادہ بہہ جانا، صحت کی سہولیات کا فقدان، ہسپتالوں میں زچگی کے معاملات کے ساتھ پیش آنے کے حوالے سے آگاہی نہ ہونا اور خوراک کی کمی وغیرہ شامل ہیں۔‘‘
غزالہ بشیر کہتی ہیں:’’ چمن کی آبادی 10لاکھ سے زائد ہے لیکن اس کے باوجود شہر بھر میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعداد صرف 13ہے۔ وہ ہر ڈلیوری نہیں کرسکتیں جس کے باعث بہت سی خواتین دائیوں سے علاج کرواتے ہوئے جانبر نہیں ہوپاتیں۔‘‘
وزیرِصحت رحمت صالح بلوچ کہتے ہیں کہ وزارتِ صحت نے کمیونٹی کے تعاون سے 12سو دائیوں کی تربیت اور ان میں سے 900کو آلات کی فراہمی کے لیے فنڈز مختص کیے ہیں۔ چار سو دائیوں کو حاملہ ماؤں کی ’’خوراک‘‘ کا خیال رکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
70برس کی حیاتھو بی بی چمن میں قیام پذیر روایتی معالجین میں سے ایک ہیں۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ لوگوں کی اکثریت ڈاکٹروں کے بجائے میرے پاس آتی ہے کیوں کہ کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ اس کی بیوی گھر سے باہر بچہ پیدا کرے۔‘‘
صدیقہ نے بچوں کی پیدائش کے دوران ہونے والی تکلیف کو خدا کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا ہے۔
وہ کہتی ہیں:’’ میں جب بھی اپنے خاوند سے کہتی ہوں کہ مجھے دیکھ بھال کی ضرورت ہے تو وہ جواب دیتے ہیں:’’خدا ہر ایک کا خیال رکھتا ہے ، وہ تمہاری صحت اور بچوں کا خیال بھی رکھے گا۔‘‘ جس کے باعث میں نے ان سے اس بارے میں بات کرنا ہی چھوڑ دیا ہے اوراذیت برداشت کرنے کے لیے خود کو ذہنی طورپر تیار کرلیا ہے۔‘‘
وہ کہتی ہیں:’’خدا تبارک تعالیٰ ہی بہتر طورپر یہ جانتا ہے کہ میں اگلا بچہ پیدا کرتے ہوئے بچ پاؤں گی یا نہیں۔‘‘