ماہواری کے دوران صفائی کا خیال نہ رکھنے کے باعث پاکستان کی 79فی صد خواتین کا مختلف بیماریوں سے دوچار ہونے کا خطرہ

0
1637

پشار: ماہرینِ صحت کہتے ہیں کہ پاکستان میں 79فی صد سے زائد لڑکیاں ماہواری کے دوران صفائی کا خیال نہیں رکھتیں جس کے باعث وہ تولیدی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتی ہیں اور خاموشی سے تکلیف برداشت کرتی رہتی ہیں۔

ریئل میڈیسن فاؤنڈیشن ( آر ایم ایف) کی نیشنل ریسرچ منیجر افشاں بھٹی کہتی ہیں کہ ماہواری کے دوران صفائی کا خیال نہ رکھنے کے باعث پیشاب کی نالی کا انفیکشن ہوجاتا ہے ، جو بعدازاں بچہ دانی اور رحم کے انفیشکن کا باعث بن سکتا ہے اور خواتین بانجھ پن کا شکار ہوسکتی ہیں۔

انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ خواتین میں ماہواری کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں اس موضوع پر بات کرنا درست تصور نہیں کیا جاتا۔‘‘

افشاں بھٹی ہر برس 28مئی کو منائے جانے والے ’’ماہواری کے دوران صفائی کی اہمیت ‘‘ کے عالمی دن کی مناسبت سے ہونے والی تقریب کے سپیکرز میں سے ایک تھیں۔ مختلف سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں سے منسلک منتظمین نے ماہواری کے دوران صفائی کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے موضوع ’’ماہواری کے بارے میں آگاہی بہتری لاسکتی ہے‘‘ پر یونیورسٹی آف پشاور میں تقریب کا انعقاد کیا۔

ماہواری کو ’’حیض‘‘بھی کہاجاتا ہے جب ہر ماہ اندام نہانی کے ذریعے خون کا اخراج ہوتا ہے۔ خواتین میں پہلی بار ماہواری عموماً آٹھ سے 15برس کی عمر میں ہوتی ہے جو بلوغت کی اہم ترین علامتوں میں سے ایک ہے۔

افشاں بھٹی کہتی ہیں:’’اس موضوع پر ماں اور بیٹی آپس میں بات نہیں کرتیں جس کے باعث ان کاخاندان کے مرد ارکان کے ساتھ اس بارے میں بات کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ماہواری کوخواتین کی ایک معمول کی جسمانی حالت سے تعبیر کیا جانا چاہئے اور اس بارے میں خاندان کے مرد اور خواتین ارکان کو آپس میں بات کرنی چاہئے۔

تاہم، حقیقت یہ ہے کہ اس تقریب سے صرف خواتین نے ہی خطاب کیا اور صرف خواتین نے ہی اس میں شرکت کی جس سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ مردوں کے ساتھ ماہواری کے موضوع پر بات کرنا آسان نہیں ہے۔ ایسا حادثاتی طورپر نہیں ہوا بلکہ اس تقریب میں قصداً صرف خواتین کو ہی مدعو کیا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خواتین کے ساتھ ماہواری کے بارے میں کھل کر بات کرنا سماجی و ثقافتی اعتبار سے اب بھی ممنوع موضوع تصور کیا جاتا ہے۔

اس حقیقت سے بھی ان حالات کا اظہار ہوتا ہے کہ منتظمین نے میڈیا کے مرد نمائندگان کو تقریب کی کوریج کرنے کی اجازت نہیں دی۔ میڈیا کے مرد نمائندوں کو تقریب کے بارے میں پریس ریلیز دی گئی اور منتظمین نے تقریب کے بعد انٹرویو دیے۔ حتیٰ کہ تقریب میں موجود طالبات کے لیے بھی یہ اس نوعیت کی تقریب میں شریک ہونے کا ایسا پہلا موقع تھا۔

افشاں بھٹی کہتی ہیں:’’سکول کی اساتذہ اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کا خواتین کوماہواری کے دوران صفائی کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنے کے حوالے سے کردار نہایت اہم ہے۔ وہ اس بارے میں آگاہی پیدا کرکے ہسپتالوں کا رُخ کرنے والی خواتین مریضوں کی تعداد کم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔‘‘

انہوں نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ پینے کے صاف پانی کی طرح ماہواری کے دوران صفائی کا خاص خیال رکھنا خواتین کی بہتر زندگی گزارنے کے حوالے سے ایک بنیادی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا:’’ماہواری لڑکیوں میں بلوغت کی علامت ہے لیکن اس کی وجہ سے ان کے خاندان اور کمیونٹی کے ساتھ گھلنے ملنے اور تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘‘

تقریب کی شرکاء میں سے ایک رومین خان نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے پہلی باراس نوعیت کی کسی تقریب میں شرکت کی ہے جس میں ایک ایسے موضوع پر بات کی گئی جو شاذو نادر ہی زیرِبحث آتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ تقریب خواتین کے لیے ایک دوستانہ ماحول میں منعقد ہوئی جو نہایت مفید تھی۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک عالمِ دین محمد مشتاق کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں بارہا ماہواری کا ذکر آیا ہے، انہوں نے زور دے کر کہا کہ قرآن مجید مسلمانوں کی ہر شعبۂ زندگی میں رہنمائی کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ اسے ایک ایسا موضوع تصور نہیں کیا جانا چاہئے جس پر بات کرنا ممنوع ہو، کیوں کہ ہر مسلمان کو زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں بتایا گیا ہے۔‘‘

آر ایم ایف کی جانب سے کروائے جانے والے قومی سروے کے مطابق لڑکیوں کی اکثریت بلوغت پر پہنچنے کے بعد ہونے والی ماہواری کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں رکھتی۔ ان کو جب لاعلمی میں پہلی بار ماہواری ہوتی ہے تو وہ شرمندگی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ یہ شرمندگی بعدازاں ذاتی نوعیت کی خلش بن جاتی ہے کیوں کہ اس بارے میں کسی سے بات نہیں کی جاتی۔

افشاں بھٹی کہتی ہیں:’’کچھ لڑکیاں بہت زیادہ خوف زدہ ہوجاتی ہیں جو اسے ایک مہلک بیماری خیال کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ کچھ لڑکیاں اندام انہانی سے خون کے اخراج کے باعث اس مشکل سے چھٹکارا پانے کے لیے خودکشی کرنے کے بارے میں بھی سوچنے لگتی ہیں۔‘‘

آگاہی نہ ہونے کے باعث مرد و خواتین میں ماہواری کے حوالے سے غلط فہمیوں نے جنم لیا ہے جن میں نہانے سے اجتناب برتنا، بھاگ دوڑ اور وزن اٹھانے یا کچھ مخصوص غذائیں کھانے سے گریز بھی شامل ہے لیکن ان غلط فہمیوں کی کوئی طبی دلیل موجود نہیں ہے۔

آر ایم ایف نے ماہواری کے دوران صفائی کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے اوراس حوالے سے غلط فہمیوں کو ختم کرنے کے لیے رہنماء کتاب ’’ لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے کتابِ بلوغت‘‘ متعارف کروائی ہے۔

یہ کتاب ڈاکٹر مارنی سومر کی تخلیق ہیں جو نیویارک میں قائم کولمبیا یونیورسٹی کے شعبہ سوشیو میڈیکل سائنس سے ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طورپر منسلک ہیں، اس کتاب میں لڑکوں اور لڑکیوں کے جسم میں بلوغت کے باعث آنے والی بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کے بارے میں رہنمائی فراہم کی گئی ہے۔ یہ کتاب پہلے ہی گھانا، کمبوڈیا، تنزانیا اور ایتھوپیا میں متعارف کروائی جاچکی ہے۔

افشاں بھٹی کے مطابق کتاب کا مقامی ورژن جلد ’’پاکستان میں بلوغت کے حوالے سے رہنماء کتاب‘‘ کے عنوان سے متعارف کروا دیا جائے گا۔ یہ کتاب چاروں صوبوں اور بعدازاں وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کے تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں تقسیم کی جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا:’’چاروں صوبوں بشمول خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے اساتذہ اور طالب علموں کا کتاب کے حوالے سے ردِعمل حیران کن طورپہ نہایت مثبت ہے۔ ان کے خیال میں یہ کتاب لڑکیوں کے لیے مفید اور مقامی سماج سے مطابقت رکھتی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ آرایم ایف اگر پوری کتاب نہیں تو اس کے کچھ حصوں کو نصاب میں شامل کرنے کے لیے چاروں صوبوں کے ٹیکسٹ بک بورڈز کے ساتھ رابطے میں ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here