فاٹا میں زعفران کی تجرباتی کاشت کامیاب

0
1982

پشاور: خیبر ایجنسی کے محکمہ زراعت نے ایک ایسے علاقے میں کامیابی کے ساتھ زعفران کاشت کی ہے جہاں حشیش کی کاشت عام ہے جس کا ایک مقصد مقامی علاقوں میں متبادل فصل کی کاشت کو فروغ دینا ہے، زعفران دنیا کے مہنگے ترین مصالحہ جات میں سے ایک ہے۔ پی سی 1میں چترال سے جڑیں لانے کے لیے 30لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں جس کا مقصدایسی ہی مزید جڑیں اور بیج پیدا کرنا ہے جنہیں بعدازاں منڈی بھیجا جاسکے جس سے وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کی مستقبل کی معیشت کو فروغ دینے میں مدد حاصل ہوگی۔

فاٹا کی خیبرایجنسی اپنے منفرد تاریخی پس منظر اور جغرافیائی محل و وقوع کے باعث مقبول ترین ہے۔ پاکستان کے شمال میں واقع مذکورہ ایجنسی کا رقبہ 2576مربع کلومیٹر ہے ۔ہر موسم میں اس علاقے میں درجۂ حرارت شدید ترین ہوجاتا ہے، موسمِ سرما میں شدید سردی اور موسمِ گرمامیں خشک گرمی پڑتی ہے۔ فاٹا ڈویلپمنٹ بیورو برائے شماریات کے مطابق خیبرایجنسی میں قریباً49ہزار ایکڑ اراضی کاشت کی جاتی ہے اور حشیش مقبول ترین فصل ہے۔

Saffron Flowers
Saffron Flowers : Photo by News Lens Pakistan

یہ منصوبہ ابتدا میں ایجنسی کے ایک افسر نے ریجنل ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندوں اور خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ کے تعاون سے شروع کیا جس کا مقصد منڈی میں حشیش کا متبادل متعارف کرواناہے۔ اگرچہ خیبرپختونخوا کے محکمۂ زراعت نے ابتدائی تحقیق کے دوران تعاون فراہم نہیں کیا لیکن ایجنسی کے افسر نے ستمبر 2016ء میں اپنے طورپر وادئ تیراہ میں آزمائشی تحقیق شروع کردی۔ انہوں نے ابتدا میں چترال سے منگوائی گئی جڑیں استعمال کیں اور وادئ میدان کے مختلف علاقوں میں پانچ کنال سے زائد کے پلاٹوں پر زعفران کاشت کی جس پر قریباً15لاکھ روپے کے اخراجات ہوئے۔ ابتدائی مرحلے میں کاشت کاری کے لیے موزوں 16مختلف قطعاتِ اراضی کو زعفران کی کاشت کے لیے استعمال کیا گیا اور کاشت کاروں نے ان جڑوں کی کاشت کے حوالے سے محکمۂ زراعت سے تربیت حاصل کی۔

زعفران دنیا کے مہنگے ترین مصالحہ جات میں سے ایک ہے۔ اس سدا بہار رہنے والی فصل کے پتے دھاری دار ہوتے ہیں۔ زعفران کا مصالحہ زعفران کے بیجوں سے حاصل ہوتا ہے جو سرخی مائل ہوتے ہیں۔ یہ ایک بیش قیمت مصالحہ ہے جو مختلف ملکوں میں بنائے جانے والے پکوانوں میں استعمال ہوتاہے۔ زعفران ان علاقوں میں بہتر طورپر کاشت ہوتا ہے جہاں موسمِ سرما میں شدید سردی اور موسمِ گرما میں خشک گرمی پڑتی ہے۔

خیبرایجنسی میں زعفران کی کامیابی سے کاشت کاری اور غیرمعمولی نتائج حاصل ہونے کے بعد اب اس کی پیداوار کے حوالے سے زیادہ توقعات وابستہ ہوگئی ہیں۔ خیبرایجنسی کے محکمہ زراعت سے منسلک ایک ایجنسی افسر شمس الرحمان خٹک نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ یہ ٹاسک ان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا، لیکن سب سے پہلا اور اہم چیلنج صحت مند جڑوں کی دستیابی اور ان کا حصول تھا۔ تاہم چترال سے جڑیں منگوا کر اس مشکل پر قابو پالیا گیاہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ان پابندیوں، پالیسیوں اور سکیورٹی خدشات کا حوالہ بھی دیا جن کے باعث کسی بھی منصوبے پر پیش رفت ناممکن ہوجاتی ہے۔

ملک بھر میں زعفران کی کاشت بہت زیادہ نہیں کی جارہی، جس کے باعث خیبرایجنسی کے مختلف مقامات پر زعفران کے پودوں کی کاشت سے مقامی منڈی کے لیے اس کے بیجوں اور جڑوں کی پیداوار میں اضافہ ممکن ہوگیاہے اور یوں ملک کے دیگر حصوں میں بھی زعفران کی کاشت کو فروغ دینے کا موقع مل گیا ہے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تولوگ قریبی مقامات سے تازہ اور خالص بیج حاصل کرپائیں گے کیوں کہ تازہ زعفران کاشت کے بعد ابتدائی چھ ماہ کے دوران استعمال کے لیے بہترین رہتی ہے، اگر تاخیر ہوجائے تو زعفران کے بیج اپنی قدرتی خوشبو اور معیار سے محروم ہوجاتے ہیں۔

Fields for Saffron
Fields for Saffron Cultivation are being prepared : Photo by News Lens Pakistan.

یہ منصوبہ فی الحال آزمائشی مرحلے میں ہے، جس کے باعث یہ کوشش کی جارہی ہے کہ جڑوں کے حجم اور ان کی مقدار میں اضافہ کیا جائے۔ جڑوں کا صحت مند حجم، جن کا وزن 25گرام سے زیادہ ہو، ان پر چار سے زیادہ پھول کھل سکتے ہیں جس کا انحصار موسم اور زمین کی زرخیزی پر ہے۔ زعفران کی کامیاب کاشت کی آزمائش کے بعد خیبرایجنسی کے محکمۂ زراعت کو سکیورٹی کے اداروں کی جانب سے یہ اجازت حاصل ہوچکی ہے کہ وہ جڑوں کی کاشت کے لیے مصنوعی کھاد لاسکتے ہیں۔ زعفران کی کاشت عموماً ستمبرمیں کی جاتی ہے اوراس پر اکتوبر کے وسط سے نومبر کے وسط کے دوران پھول لہلہانے لگتے ہیں۔ شمس الرحمان خٹک کہتے ہیں: ’’ یہ یکمشت کی جانے والی سرمایہ کاری ہے کیوں کہ ان جڑوں کو دوبارہ کاشت کاری کے لیے مزید پانچ سے 10برس تک استعمال کیا جاسکتا ہے کیوں کہ پرانی جڑوں پر تازہ جڑوں کی نسبت زیادہ پھول لہلہاتے ہیں۔‘‘

مقامی کسان زعفران کی کاشت کے بارے میں زیادہ واقفیت نہیں رکھتے جس کے باعث ان کو تربیت کے مزید مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ جڑوں کو اُگانے کے حوالے سے مکمل طورپر آگاہی حاصل کرپائیں۔ خیبرپختونخوا کے زرعی افسر فائق اقبال کہتے ہیں:’’ مقامی کسانوں کو قائل کرنا اور ان کی تربیت کرنا ہمارے لیے ایک اہم چیلنج ہے کیوں کہ ان کے خیال میں زعفران کے پودے بڑے درختوں کی طرح اُگیں گے۔‘‘ مقامی منڈی میں 10گرام زعفران اوسطاً چھ سے 10ہزار روپے میں فروخت ہوسکتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسان فی کلوزعفران سے دو سے تین لاکھ روپے کما سکتے ہیں۔

جدید طریقوں کا استعمال کیا جائے تو خشک زعفران کی پیداوار فی ہیکٹر دو سے چھ کلوگرام تک بڑھانا ممکن ہوسکتا ہے۔ لیکن بیجوں اور جڑوں کی خریداری پر اٹھنے والے اخراجات بہت زیادہ ہیں اور ابتدائی طورپر ایک ایکٹر کے لیے زعفران کے 80سے 90ہزار بیج درکار ہیں، جو مقامی کسانوں کے لیے ایک بہت بڑی سرمایہ کاری ہے۔

ایک مقامی کسان نے کہا کہ زعفران کی کاشت ہمارے لیے ایک بہترین موقع ہے کہ ہم اس فصل کو پہلی بار محکمۂ زراعت کے تعاون اور رہنمائی سے کاشت کریں۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس سے مستقبل میں کسانوں کے لیے مزید کاروباری مواقع پیداہوں گے۔
شمس الرحمان خٹک کہتے ہیں کہ مزید اور معیاری بیجوں کی پیداوار کے لیے ان ملکوں سے تربیت اور تعاون حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو پہلے ہی زعفران کاشت کررہے ہیں ، انہوں نے مزید کہا کہ وہ سرمایہ کاروں کو خوش آمدید کہتے ہیں کہ وہ آئیں اور اس فصل کی کاشت کاری کے لیے سرمایہ کاری کریں۔

زعفران کی پیداوار سے نہ صرف مقامی منڈی کی ضروریات پورا ہوں گی بلکہ اس سے فاٹا کی معیشت کو بھی فروغ حاصل ہوسکتا ہے۔ یہ ایسا پہلا موقع نہیں ہے کہ فاٹا قومی معیشت میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ گزشتہ برس ملک کی مجموعی پیداوار میں گندم کی پیداوار 36فی صد سے بڑھ کر 44فی صد ہوگئی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ گزشتہ برس عالمی یومِ خوراک پر عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں ملک بھر سے کسانوں کی نمائندہ تمام تنظیموں نے شرکت کی، فاٹا کے کسان چار نمایاں شعبوں میں نامزد ہوئے جب کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب کا فہرست میں نام تک نہیں تھا۔

فاٹا کے حوالے سے پالیسیوں میں فی الوقت کچھ پابندیاں عائد ہیں جن پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس حوالے سے اقدامات کر لیے جاتے ہیں تو فاٹا کے عوام کے لیے مقامی و قومی منڈیوں کے لیے مزید معیاری مصنوعات پیدا کرنے کے مواقع پیدا ہوجائیں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here