پشاور : احمد علی کا نوجوان بیٹا گھنٹوں رویا کرتا۔ ان کے ایک عزیز نے احمد علی سے کہا کہ ان کے بیٹے پر جن کا سایہ ہے اور یہ تجویز دی کہ وہ اپنے 22برس کے بیٹے میںسے جن نکلوانے کے لیے اسے ایک مقامی روحانی معالج کے پاس لے جائیں۔
احمد علی نے خاندان سے مشورہ کرنے کے بعد صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی میں ایک روحانی معالج سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے وہاں یہ دیکھا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد معالج کے پاس اپنے مسائل کے حل کے لیے آئی ہوئی تھی۔
احمد علی کہتے ہیں:’’ لوگوں کی ایک بڑی تعداد روحانی معالج سے کاروبار میں نقصان سے بچنے، ازدواجی تعلقات، بانجھ پن اور محبت میں کامیابی کے لیے رہنمائی حاصل کر رہی تھی۔‘‘
احمد علی کو روحانی معالج کے بارے میں بتانے والے ان کے رشتہ دار نے کہا کہ انہوں نے ٹیلی ویژن چینلوں پر ان روحانی معالجین کے اشتہارات دیکھے ہیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ متاثرہ شخص میں سے جن نکال دیتے ہیں۔ ملک بھر میں روحانی معالجین اور عطائیوں کی جانب سے لوگوں تک رسائی کے لیے میڈیا کے استعمال میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان کے اشتہارات مختلف کیبل چینلوں پر دیکھے جاسکتے ہیں جو پاکستان میں کیبل آپریٹرزنشر کر رہے ہیں۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) 2009ء کے قوانین کے تحت ان کیبل نیٹ ورکس کو ریگولیٹ کرتی ہے۔
تمام چینل عطائیوں، روحانی معالجین اور عاملوں کی تشہیر کے لیے وقف کردیے گئے ہیں، حتیٰ کہ مین سٹریم کے نیوز چینل بھی ان کی تشہیر کرتے ہیں۔ ٹروتھ ٹریکر کی جانب سے ایسے ہی ایک چینل کی نگرانی کی گئی جس سے یہ معلوم ہوا کہ ہرایک گھنٹے بعد پانچ منٹ کے ایئر ٹائم میں ان روحانی معالجین کے اشتہارات چلائے گئے۔ان چینلوں پر روحانی علاج کی قدیم روایات کے بارے میں دکھایا گیا، جو بڑے پیمانے پر جنوبی ایشیائی اور خاص طورپر دیہی علاقوں کے عوام میں مقبول ہیں۔
تحقیق بعنوان ’’روحانی علاج و جدید شعبۂ صحت‘‘ کہتی ہے:’’ مردوں کی نسبت خواتین مریضوں نے روحانی علاج کی مختلف تکنیکوں کا زیادہ استعمال کیا اور یہ تناسب بالترتیب47.31اور 52.53ہے۔‘‘ اس تحقیق میں953مریضوں پر یہ مشاہدہ کرنے کے لیے تحقیق کی گئی کہ سرجیکل بیماریوںکا شکار مریضوں نے کس قدر تواتر کے ساتھ روحانی علاج کروایا اور اس سے ان کی بیماری پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ یہ تحقیق 2014ء میں ’’پروفیشنل میڈیکل جرنل ‘‘ نامی جریدے میں شائع ہوئی۔ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ شہری آبادی کی نسبت دیہاتی پس منظر کے حامل لوگوں کی بڑی تعداد اس طریقۂ علاج پر انحصار کرتی ہے۔ یہ تحقیق مزید کہتی ہے:’’حیران کن طورپر تعلیم یافتہ یا ناخواندہ آبادی میں روحانی علاج کروانے والوں کے تناسب میںکوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔‘‘
ٹی وی اشتہارات یہ کہتے ہوئے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتے ہیں کہ وہ اپنا کوئی سا بھی مسئلہ حل کروا سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک اشتہار کچھ یوں ہے:’’ کیا آپ کا محبوب آپ کو نہیں چاہتا، کیاآپ اپنے محبوب کو قابو میں کرنا چاہتے ہیں تو ہم سے رابطہ کریں۔‘‘ اس پیغام کے ساتھ روحانی معالج کا رابطہ نمبر بھی دیا گیا ہے۔
کیبل چینلوں پر عطائیوں اور روحانی معالجین کے اشتہار نشر کیے جارہے ہیں جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ پیمرا ٹیلی ویژن چینلوں، ایف ایم ریڈیو زاور کیبل نیٹ ورکس پر ایسے اشتہارات چلانے پر پابندی عائد کرچکا ہے۔
مارچ2016ء میں پیمرا نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں تمام کیبل آپریٹرز کو یہ کہا گیا کہ وہ روحانی معالجین کے اشتہار نشر کرنا بند کردیں۔اور خبردار کیا کہ اگر اشتہارات نشرکرنابند نہیں کئے جاتے تو قانونی کارروائی کی جائے گی۔
اس نوٹیفیکیشن کی ایک کاپی ٹروتھ ٹریکر کو بھی حاصل ہوگئی جس میں یہ کہاگیا ہے کہ’’ شہریوں کی شکایات سننے کے بعد پیمرا نے اس معاملے کو نمٹاتے ہوئے تمام سیٹلائٹ چینلوں، ایف ایم ریڈیوز اور کیبل آپریٹرز کو یہ ہدایت جاری کی ہے کہ وہ اپنے اپنے نیٹ ورکس پر عطائیوں، حکیموں، روحانی معالجین اور عاملوں کے اشتہارات نشر کرنا بند کردیں، دوسری صورت میں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘‘
الیکٹرانک میڈیا کے ضابطہ ٔ اخلاق 2015کے آرٹیکل 14کی شق سات میں کہا گیا ہے:’’ الیکٹرانک میڈیا کے کسی بھی لائسنس یافتہ ادارے ( سیٹلائٹ ٹی وی چینل اور کیبل آپریٹر) کو کالے جادو ، عطائیوں اور توہم پرستی کی تشہیر نہیں کرنی چاہئے۔‘‘
خیبرپختونخوا میں پیمرا کے ریجنل منیجر راحت علی کہتے ہیں:’’روحانی معالجین کے اشتہارات نشر کرنے پر اس وقت تک پابندی عائد ہے تاوقتیکہ کوئی چینل محکمۂ صحت سے نو آبجیکشن سرٹفیکیٹ حاصل نہیں کرلیتا جس میں یہ واضح کیا گیا ہو کہ تشہیر کی جارہی مصنوعات یا خدمات عوامی صحت کے لیے نقصان دہ نہیں ہیں۔‘‘
ان کو جب یہ بتایا گیا کہ کیبل چینلوں پراس نوعیت کے اشتہارات نشر کئے جارہے ہیں تو راحت علی نے کہا کہ صوبہ کے تقریباًدو سو کیبل آپریٹرز کی جانب سے نشر کیے جا رہے چھ سو سے زائد چینلوں کی نگرانی کرنا پیمرا کی مینجمنٹ کے لیے بہت ’’مشکل ‘‘ ہے، خاص طورپر جب ان چینلوں کے لیے سیٹلائٹ ٹرانسمیشن کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پیمرا کی مانیٹرنگ ٹیم روحانی معالجین کے کیبل چینلوں پر نشر کئے جارہے اشتہارات کے حوالے سے خبردار ہے لیکن وہ عوامی شکایات پر انحصار کرتی ہے۔راحت علی نے کہا:’’ پیمرا کو جب بھی ایسے اشتہارات کے حوالے سے عوامی شکایات موصول ہوتی ہیں تو ہم فوری طورپر کیبل آپریٹرز کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ایسے اشتہارات نشر کرنے پر 10ہزار روپے جرمانہ کیا جاتا ہے جو 10 لاکھ روپے تک ہوسکتا ہے جس کا انحصار جرم کی نوعیت پر ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا:’’ پیمرا کے قوانین کے تحت صرف ان حکیموں کے اشتہارات ہی ٹی وی اور ایف ایم ریڈیو چینلوں پر نشر ہوسکتے ہیں جنہوں نے محکمۂ صحت سے نو آبجیکشن سرٹفیکیٹ حاصل کررکھا ہو۔‘‘
جنوری 2016ء میں روحانی معالجین کے کاروبار پابندی عائد کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی رٹ میں عدالت نے یہ مشاہدہ کیا کہ ملک میں روحانی معالجین کی سرگرمیوں پر قابو پانے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ عدالت نے مقدمہ کی سماعت کے دوران حکومت سے کہا کہ وہ ملک بھر میں روحانی معالجین کو قانون کے دائرے میں لائے، عدالت نے مزید کہا کہ ان کی سرگرمیاں عوامی مفاد میں نہیں ہیں۔
تاہم روحانی معالجین زور دیتے ہیں کہ وہ قرآن مجید کی آیات سے مریضوں کا علاج کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ ضلع چارسدہ کے ایک ایسے ہی روحانی معالج نے، نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر، ٹروتھ ٹریکر سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم تعویز پر قرآنی آیات لکھ دیتے ہیں اور خدائے بزرگ و برتر ان آیات کے باعث لوگوں کی مشکلات حل کردیتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد روحانی علاج سے صحت یاب ہوچکی ہے۔
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ بہت سے روحانی معالجین جعلی ہیں، جو غیرقانونی طریقوں جیسا کہ کالے جادو کے استعمال سے پریشانی کا شکار لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں اور ان سے بڑی رقوم ہتھیا لیتے ہیں۔
’’جرنل آف پائیونیئرنگ میڈیکل سائنسز‘‘ میں شائع ہونے والے ایک علمی مضمون کے مطابق ’’عقیدے کا لوگوں کی نفسیاتی صحت کے حوالے سے کردار نہایت اہم ہے لیکن شرط یہ ہے کہ علاج کا طریقۂ کار مریضوں کے لیے موزوں اور مناسب ہو، اور وہ اسے طبی علاج کے طورپر استعمال کریں۔‘‘
پاکستان ہارٹ جرنل میں شائع ہونے والے ایک اور تحقیقی مضمون بعنوان ’’مسلمان مریضوں کی روحانی طریقۂ علاج کے حوالے سے آگاہی اور معالجین سے علاج کروانے والوں کا مذہبی جھکائو‘‘ یہ کہتی ہے کہ اسلام آباد کے سرکاری ہسپتالوں میں زیرِعلاج 76فی صد سے زائد مریضوں نے بیماریوں کے علاج کے لیے تعویز پہن رکھے تھے۔
پشاور کے خیبر ٹیچنگ ہسپتال سے منسلک ماہرِ نفسیات ڈاکٹر اعزاز جمال روزانہ قریباً ایک سو مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں۔ ان میں سے 10فی صد سے زائد طبی مرکز کا رُخ کرنے سے قبل روحانی معالجین سے مشورہ کرچکے ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں:’’جب مریض بیماری کی شدت بڑھنے کے باعث روحانی معالجین سے مایوس ہوجاتا ہے اور ایک بڑی رقم خرچ کرچکا ہوتا ہے تو اس وقت وہ جدید نفسیاتی علاج کرواتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر اعزاز جمال سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ لوگ کیوں کر روحانی معالجین کی مدد حاصل کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ مطمئن ہوجاتے ہیں کیوں کہ روحانی معالجین مریضوں کی کونسلنگ کرتے ہیں جو ذہنی بیماریوں کے جدید طریقۂ علاج کا اہم ترین جزو ہے۔ انہوں نے کہا کہ مناسب طبی علاج کے بغیر طویل عرصہ کے لیے کونسلنگ مددگار ثابت نہیں ہوسکتی۔ ڈاکٹر اعزاز جمال کا کہنا تھا کہ روحانی معالجین سے علاج کروانے والے مریضوں کی بڑی تعداد صوبے کے جنوبی اضلاع اور مالاکنڈ، چارسدہ اور مردان سے تعلق رکھتی ہے۔