پشاور : پشاور کیپیٹل سٹی پولیس آفس سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ صرف جولائی کے آخری ہفتے میں پشاور پولیس نے ہزاروں افغان مہاجرین کو ڈی پورٹ کیا ہے۔

محکمہ ٔ پولیس کے 26جولائی کے ریکارڈ سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ پورے ایک ماہ میں ڈی پورٹ کیے گئے افغان مہاجرین کی تعداد پانچ سو تھی جو یکم اگست تک بڑھ کر دو ہزار ہوگئی۔

حالیہ مہینوں کے دوران افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں آنے والی کشیدگی کے باعث حکومت نے افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کہتا ہے کہ مہاجرین کے علاقے دہشت گردوں کی جنت ہیں جس کے باعث وہ ان کی جلد ازجلد افغانستان واپسی پر زور دیتا ہے۔

جنوری سے اب تک پولیس نے 9,000افغانوں کو حراست میں لیا ہے۔ حالیہ ہفتوں کے دوران افغان مہاجرین کے ڈی پورٹ کیے جانے کے واقعات میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔

دسمبر 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے افغان مہاجرین کو ہراساں کرنے اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتنے کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں پناہ لیے ہوئے عسکریت پسندوں کی جانب سے کیے گئے اس حملے میں 147طالب علم شہید ہوگئے تھے۔

رواں برس جنوری میں صوبہ خیبرپختونخوا میں برسرِاقتدار پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کی جانب سے افغان مہاجرین کی گرفتاریوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا، غیر قانونی مہاجرین کو حراست میں لیا گیا اور قانونی دستاویزات نہ رکھنے والے مہاجرین کو ڈی پورٹ کردیا گیا۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس عباس مجید مروت نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہاـ’’ہمیں ان مہاجرین کو ڈی پورٹ کرنے کے واضح احکامات جاری کیے گئے ہیں جن کے پاس پروف یا رجسٹریشن کارڈ نہیں ہے۔‘‘

گزشتہ ماہ پشاور سے گرفتار کیے گئے افغان مہاجرین میں عزیراللہ بھی شامل ہیں، وہ پشاور میں برنس کی تعلیم دینے والے ایک نمایاں تعلیمی ادارے انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز میں ایم بی اے کے طالب علم ہیں۔ انہیں 25جولائی کو یونیورسٹی سے گھر جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔ عزیراللہ کو نو دیگر مہاجرین کے ہمراہ یونیورسٹی ٹائون پولیس سٹیشن کی حوالات میں رکھا گیا ہے۔

انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں نے پولیس کو اپنا یونیورسٹی کارڈ دکھایا اور ان سے کہا کہ میری تمام دستاویزات گھر پہ ہیں لیکن انہوں نے میری کوئی بات نہیں سنی اور مجھے حوالات میں بند کردیا۔‘‘

یونیورسٹی آف پشاور کے طالب علم اور افغان سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر خالد امیری کہتے ہیں کہ پشاور میں آباد افغان مہاجرین کے لیے یہ ایک مشکل وقت ہے۔

انہوں نے مزید کہا:’’پولیس کی جانب سے ہراساں کرنے(مہاجرین کو) کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جوروزانہ ہی ایسے طالب علموں کو گرفتار کررہی ہے جو اپنے تعلیمی ادارے جارہے ہوتے ہیں۔‘‘
خالد امیری نے کہا:’’میں نے پولیس کومعمر لوگوں کو ہتھکڑی باندھ کر پولیس وین میں لے جاتے ہوئے دیکھا ہے۔پولیس اب پروف آف رجسٹریشن کارڈ رکھنے والے اور نہ رکھنے والے مہاجرین میں کوئی فرق روا نہیں رکھ رہی۔‘‘

انہوں نے استفسار کیا:’’پاکستانی حکومت نے ہمیں دسمبر 2016ء تک پاکستان میں قیام کی اجازت دی ہے تو پھر کیوں افغان مہاجرین کو آزادانہ طور پر جینے کی آزادی نہیں دے رہی جب انہوں نے کوئی قانون نہیں توڑا اور نہ ہی کسی قسم کی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث ہیں؟‘‘

خالد امیری نے کہا:’’ میرا خیال ہے کہ پاکستان کو 30برس پر محیط مہاجرین کی میزبانی اور تعاون کو یوں توہین آمیز انداز میں خداحافظ نہیں کہنا چاہئے۔‘‘

مارچ 2002ء سے اب تک اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنز برائے مہاجرین(یو این ایچ سی آر) نے تقریباً39لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی پاکستان سے افغانستان واپسی ممکن بنائی ہے لیکن اب بھی تقریباً16لاکھ مہاجرین پاکستان میں رہ رہے ہیں جو دنیا میں مہاجرین کی دوسری بڑی آبادی ہے۔

آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد پاکستان کی افغان مہاجرین کے حوالے سے پالیسی سخت ہوئی جو رواں برس جون میں پاکستان و افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی کے باعث مزید بے لچک ہوئی ہے۔

پشاور کی کارخانو مارکیٹ میں قالین کا کاروبار کرنے والے ایک افغان مہاجر گل بدین کہتے ہیں کہ انہوںنے اپنے کاروبار میں لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ حکومت اب چاہتی ہے کہ ہم اپنا کاروبار چھوڑ کرافغانستان واپس چلے جائیں۔ہم گزشتہ 20برسوں سے پشاور میں رہ رہے ہیں لیکن اب ہمارے لیے زندگی مشکل بنا دی گئی ہے۔‘‘

یو این ایچ سی آر کی ترجمان دونیا اسلم خان کہتی ہیں کہ پاکستان نے مہاجرین کے قیام میں دسمبر 2016ء تک توسیع کردی ہے۔

ان سے جب افغان مہاجرین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہاکہ یو این ایچ سی آر نے پاکستانی حکومت سے کہا ہے کہ قانون نافذکرنے والے ادارے قانونی افغان مہاجرین کے ساتھ تعاون کریں۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس عباس مجید مروت کہتے ہیںکہ خیبرپختونخوا کے محکمۂ داخلہ و قبائلی امور کی جانب سے متعارف کروائے جانے والے نئے قوانین کے تحت پاکستان کا سفر کرنے والے افغان شہریوں پر ویزہ حاصل کرنے کی شرط عاید کی گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا:’’وہ افغان شہری جو پاکستان میںکاروبار یا تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہیں حکام سے نو آبجیکشن سرٹفیکیٹ حاصل کرنا ہوگا۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here