کوئٹہ ( حزب اللہ خان) بلوچستان میں برسرِاقتدار جماعتوں نے کہا ہے کہ پاکستان کے سرحدی صوبے میں آباد افغان مہاجرین کے باعث صوبے میں مردم شماری میں تاخیر ہورہی ہے۔

پاکستان نے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی کے باعث افغان مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کے علاقے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ بلوچستان سے مہاجرین کی واپسی مقامی سیاسی جماعتوں کے درمیان طاقت کے توازن کا تعین کرسکتی ہے۔

پاکستان میں ہر 10برس کے بعد مردم شماری ہوتی ہے۔ پاکستان میں آخری قومی مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی، قیامِ پاکستان کے بعد چھٹی مردم شماری مارچ 2016ء میں 17برس بعد کی جانی تھی لیکن قومی مفادات کونسل کی جانب سے اسے غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا، قومی مفادات کونسل ایک آئینی ادارہ ہے جو وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازعات حل کرنے کا ذمہ دارہے۔

مشترکہ مفادات کونسل کہتی ہے کہ سکیورٹی کے حالات اور افغان مہاجرین کی موجودگی کے باعث مختلف قومیتوں کی آبادی کا تناسب متاثر ہوگا۔ یہ دونوں وجوہات بلوچستان میں شورش سے مطابقت رکھتی ہیں جہاں افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔

پاکستان میں آباد 85فی صد افغان مہاجرین پشتون ہیں جب کہ دیگر 15فی صد ازبک، تاجک اور دیگر لسانی گروہوں پر مشتمل ہیں۔ افغان مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد صوبہ خیبرپختونخوا جب کہ بلوچستان، پنجاب، سندھ، اسلام آباداور آزاد کشمیر کو بھی افغان مہاجرین نے اپنا مسکن بنا رکھا ہے۔

بلوچستان میں بلوچ اور پشتون دو بڑے لسانی گروہ ہیں جن کے بعد صوبہ میں پنجابیوں، ہزارہ اور سندھیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ پشتون سیاسی جماعتیں افغان مہاجرین کے قیام کی حمایت کرتی ہیں کیوں کہ ان کی نہ صرف آپس میں رشتہ داریاں ہیں بلکہ زبان بھی ایک ہی ہے اور وہ جلد از جلد مردم شماری کی خواہاں ہیں۔وہ قومی مفادات کونسل پر گزشتہ چار ماہ سے مردم شماری نہ کروانے پر تنقید کرتی ہیں۔

دوسری جانب بلوچ سیاسی جماعتیں یہ خیال کرتی ہیں کہ افغان مہاجرین کی وجہ سے آبادی کا تناسب پختونوں کے حق میں ہوگیا ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ مردم شماری سے قبل افغان مہاجرین واپس لوٹ جائیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر ملک ولی کاکڑ ، جو صوبے میں افغان مہاجرین کے قیام کی سخت مخالفت کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی مردم شماری کے حق میں ہے۔

انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ وفاقی حکومت سے ’’عوام کے حقوق‘‘ حاصل کرنے کا واحد طریقہ ہے لیکن پاکستان میں اب بھی ’’35لاکھ افغان مہاجرین‘‘ آباد ہیں اور ان میںسے نصف بلوچستان میں رہتے ہیںجس کے باعث صوبے کے محدود وسائل پر دبائو بڑھ گیا ہے۔

انہوں نے کہا:’’ مہاجرین ہماری معیشت پر بوجھ ہیں۔‘‘

ملک ولی کاکڑ نے کہا’’ مقامی آبادی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہمارے وسائل انتہائی محدود ہیں۔ حکومت کو مردم شماری کے انعقاد سے قبل صوبے میں افغان مہاجرین کے موضوع پر ریفرنڈم کروانا چاہیے۔ اگر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ افغان مہاجرین کو مردم شماری میں گنا جائے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی جماعت بی این پی تمام غیر ملکیوں کے خلاف ہے، ان کا کہنا تھا:’’ ہم ان کی موجودگی میں کوئی مردم شماری قبول نہیں کریں گے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس لسانی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘

ملک ولی کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان میں آباد مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نہ صرف مہاجر کیمپوں میں رہائش پذیر نہیں ہے بلکہ انہوں نے شہریت کی جعلی دستاویزات بنا رکھی ہیں تاکہ ان کو حکومت یا اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر)کے پاس رجسٹرڈ نہ ہونا پڑے۔

لسانی بنیادوں پر تقسیم پاکستان میں مردم شماری پر ہمیشہ ہی اختلافات رہے ہیں۔ افغانوں کے پشتون آبادی میں شامل ہونے کا تنازع طویل تاریخ رکھتا ہے تو بلوچ علاقوں میں سکیورٹی نہ ہونے کے باعث بلوچ مردم شماری کے عمل میں شامل نہیں ہوپاتے جسے مردم شماری میں ایک بڑی رکاوٹ تصور کیا جاتا ہے جو بلوچ آبادیاتی شماریات پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب پشتون قوم پرست جماعتیں کہتی ہیں کہ ماضی میں بلوچ سیاسی جماعتوں کے تحت ہونے والی مردم شماریوں میں ان کی آبادی درست طور پر بیان نہیں کی گئی۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رُکن کبیر افغان کہتے ہیں کہ آئینِ پاکستان کے تحت کوئی بھی ایسا شخص جو شناختی کارڈ اور ڈومیسائل رکھتا ہو، یہ حق رکھتا ہے کہ اسے مردم شماری میں گنا جائے۔

انہوں نے کہا کہ 1971ء سے قبل صوبے میں پشتونوں اور بلوچوں کی آبادی یکساں تھی۔ لیکن اسی برس بلوچ قیادت کے تحت ہونے والی مردم شماری میں پشتونوں کو اقلیت میں تبدیل کردیا گیا۔

کبیر افغان نے کہا:’’ اس مردم شماری میں کچھ ڈویژنوں اور اضلاع کو بلوچ اکثریتی علاقے ظاہر کیا گیا۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ (اس کے نتیجے میں) بلوچوں کے لیے قومی، صوبائی اور سینیٹ کی نشستیں بڑھا دی گئیں۔ غلط مردم شماری کے باعث بلوچوں کو صوبے میں سیاسی اثر و رسوخ اور معاشی مواقع حاصل ہوئے۔‘‘

کبیر افغان نے دعویٰ کیا کہ صوبے میں پشتونوں کی آبادی بلوچوں سے زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا:’’ بلوچستان میں شفاف مردم شماری کے انعقاد سے یہ حقیقت واضح ہوجائے گی۔‘‘

کبیر افغان نے کہا:’’ پشتون آبادی اکثریت کے طور پر ابھرے گی۔ یہ وہ بڑی وجہ ہے جس کے باعث بلوچ قوم پرست شفاف مردم شماری کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کررہے ہیں تاکہ پشتون اقلیت پرغلط طریقے سے اپنی اکثریت قائم رکھ سکیں۔‘‘

نیشنل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری عبدالخالق بلوچ نے کہا کہ افغان مہاجرین کی موجودگی اور امن و امان کے ابتر حالات کے باعث مردم شماری کا انعقاد قابل قبول نہیں ہے، نیشنل پارٹی صوبے میں برسرِا قتدار سہ جماعتی اتحاد میں شامل ہے۔

انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ان حالات میں مردم شماری کا انعقاد بلوچ قوم کے خلاف سازش ہوگی کیوں کہ یہ بلوچوں کو ان کی سرزمین پر ہی اقلیت میں تبدیل کردے گی۔‘‘
عبدالخالق بلوچ نے کہا:’’ شورش کی وجہ سے مکران ڈویژن کی 40فی صد آبادی نقل مکانی کرچکی ہے۔ کچھ ایسے ہی حالات صوبے کے دیگر علاقوں جیسا کہ آواران، کوہلو اور ڈیرہ بگٹی کے ہیں۔ اگر نقل مکانی کرنے والی آبادی کوشامل کیے بغیر مردم شماری کروائی جاتی ہے تو بلوچوں کی آبادی کم ہوجائے گی۔‘‘

انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں لاکھوں افغان مہاجرین رہ رہے ہیں۔

عبدالخالق بلوچ کا مزید کہنا تھا:’’ ان کے ہر شعبۂ زندگی پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں لیکن پشتون قوم پرستوں نے اپنا ووٹ بنک بڑھانے کے لیے ہمیشہ ان کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام افغان مہاجرین کو جلداز جلد ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے۔‘‘
یو این ایچ سی آر کے مطابق پاکستان میں 32لاکھ افغان مہاجرین رجسٹرڈ ہیں۔ یو این ایچ سی آر نے بلوچستان سے سات لاکھ مہاجرین کی افغانستان واپسی میں معاونت کی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here