اسلام آباد ( رحمت محسود سے) ماہرینِ ماحولیات کی جانب سے پاکستان تحریکِ انصاف کی بہت زیادہ تشہیر کی گئی بلین ٹری سونامی مہم کی نہ صرف مذمت کی گئی ہے بلکہ ان تحفظات کا اظہار بھی کیا گیاہے کہ یہ مہم تباہ کن ہے کیوں کہ شجرکاری کے لیے درختوں کی غلط انواع کا انتخاب کیا گیا ہے۔
ماہرِ ماحولیات اور یونیورسٹی آف پشاور کے شعبۂ علم نباتات سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر لال بادشاہ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ شجرکاری کی یہ مہم شاندار ہے لیکن ہماری تشویش کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی برسرِاقتدار حکومت نے غلط مقامات کے لیے نباتات کی غلط انواع کا انتخاب کیا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ مثال کے طور پر خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے نواح میں کنوکارپوس اُگایا جارہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ درخت اس علاقے کے لیے بہت زیادہ ماحول دوست نہیں ہے۔
ڈاکٹر لال بادشاہ نے کہا کہ سنتھا بھی اُگایا جارہا ہے جو ملکی دولت تباہ کرنے کے مترادف ہے کیوں کہ یہ بھی علاقے کے لیے مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا:’’ بیری کے درخت کاشت کرنے چاہئے تھے جو نسبتاً تیزی سے بڑھتے ہیں اور ماحول دوست ہیں۔‘‘
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے خیبرپختونخوا کے ضلع ہری پور میں شجرکاری مہم کا افتتاح کرتے ہوئے شجرکاری کی جامع مہم شروع کرنے کے لیے بھرپور کام کرنے پر زور دیا تھا تاکہ ماحولیاتی نظام اور دیہاتی طرزِ زندگی کا تحفظ کیاجاسکے۔
PTI one billion tree campaignانہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہاتھا:’’ شجرکاری کی یہ مہم زمینی کٹائو اور قدرتی وسائل کے تحفظ میں معاون ثابت ہوگی۔‘‘ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے اس مہم کو کامیاب بنانے کے لیے مقامی آبادی کو فعال کردار ادا کرنے کے حوالے سے دعوت دی ہے۔
ڈاکٹر لال بادشاہ نے یاد کرتے ہوئے کہاکہ کراچی میں بھی کنوکارپوس اُگایا گیا تھا جس کے باعث پولن الرجی کا مرض پیدا ہوا اور ماحول پربڑے پیمانے پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ان درختوں کے دوسری نباتات پر منفی اثرات مرتب ہوئے تھے جب کہ پرندے بھی ان درختوں پر اپنا گھونسلہ نہیں بناتے تھے۔
تاہم ایک اور ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر فرخ حسین نے کہا کہ پی ٹی آئی کی شجرکاری مہم ’’ ماحول پر بڑے پیمانے پر مثبت اثرات‘‘ مرتب کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ پشاور شہر کے مختلف علاقوں میں سنتھا اُگایا جارہا ہے جو ایک بڑی غلطی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بیری کے درخت ہی ماحول کے لیے بہتر ہیں۔
ڈاکٹر لال بادشاہ نے کہا کہ ان نباتات کی کاشت جنگلی شہتوت کے درختوں کی طرح ہے جو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں60ء کی دہائی میںلگائے گئے تھے لیکن اب یہ پولن الرجی کے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ ہیں۔
پاکستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے منسلک ایک سینئر افسر، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیںہے، نے کہا کہ ان کا محکمہ پولن الرجی کے حوالے سے عوامی تحفظات کے باعث اسلام آباد کے مختلف حصوں سے ان ضرر رساں درختوں کو اکھاڑنے پر ایک بڑی رقم خرچ کر رہا ہے۔
پاکستانی سیاست میں سیاست دان اکثر و بیش تر سونامی کا لفظ استعمال کرتے ہیں جس کا مقصد بہ ظاہر عوامی توجہ حاصل کرنا یا پھر سیاسی حریفوں پر دبائوڈالنا ہوتا ہے۔ خیبرپختونخوا کے وزیرِ زراعت اکرام اللہ گنڈاپور نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ پی ٹی آئی کی حکومت نے سونامی کے لفظ کا انتخاب اس لیے کیا ہے تاکہ شجرکاری کی اس مہم کو عوام میں مقبول کیا جاسکے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ایک ارب درخت کاشت کرنے کی مہم صوبہ بھر میں شروع کی گئی ہے جو دن بدن مقبول ہورہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت گرین گروتھ مہم شروع کرچکی ہے جس کے تحت ایک ارب درخت لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
اکرام اللہ گنڈا پور نے امید ظاہر کی کہ یہ مہم جنگلات میں 22فی صد تک اضافے کا باعث بنے گی اور یوںپی ٹی آئی کے خیبر پختونخوا میں پانچ برس پر محیط دورِ اقتدار کے دوران نیشنل پارکس کی تعدادمیں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے مزید کہاکہ بلین ٹری سونامی مہم پر تین سو ملین ڈالر کے اخراجات ہوں گے جو صوبائی حکومت ادا کرے گی۔ اکرام اللہ گنڈا پور نے کہاکہ رواں برس اب تک تقریباً 17ملین پودے لگائے جاچکے ہیں جب کہ248ملین قلمیں بھی اسی برس لگائی جائیں گی۔
لیکن ڈاکٹر لال بادشاہ نے کہا کہ حکومت ایسے پودے لگا رہی ہے جو علاقائی نہیں ہیں اور مقامی ماحول سے مطابقت نہیں رکھتے۔
اسلام آباد میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو جنگلی شہتوت کے درختوں کے باعث تلخ تجربے کا سامنا کرنا پڑا ہے جو ہزاروں شہریوں میں پولن الرجی پھیلنے کی ایک بڑی وجہ ہیں۔
ڈاکٹر لال بادشاہ نے کہا:’’ پاکستان میں تقریباً چھ ہزار فلورا شناخت کیے جاچکے ہیں اور درختوں کی بہت سی اقسام پائی جاتی ہیں۔‘‘انہوں نے تجویز پیش کی کہ بدیسی کی بجائے مقامی درختوں کو ترجیح دی جائے جو بدیسی درختوں کی نسبت ماحول دوست ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماہرین ماحولیات نے کیکر، زیتون، پھلاہی، شیشم،ببول، بیری اور ساگوان اُگانے کا مشورہ دیا ہے جو بہت زیادہ ماحول دوست ہیں۔
اکرام اللہ گنڈاپور نے کہا کہ یہ جنگلات مکمل طور پر محفوظ بنائے جائیں گے اور جانوروں کو بھی ان جنگلات میں چرنے نہیں دیا جائے گا ۔ انہوںنے کہا کہ لکڑی کی چوری روکنے کے لیے پالیسی کی تشکیل پر کام جاری ہے جس کے باعث قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت ’’ آنے والی نسلوں کے لیے زرخیز ماحول‘‘ تخلیق کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔
لیکن پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے قانون ساز اور اپوزیشن رہنما فخر اعظم وزیر نے اس مہم کو یہ کہتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا:’’ ہم پی ٹی آئی کی برسرِاقتدار حکومت میں کوئی سبز انقلاب یا تعلیمی انقلاب رونما ہوتے نہیں دیکھ رہے۔‘‘
انہوں نے الزام عاید کیا کہ شجر کاری مہم پی ٹی آئی کے قانون سازوں کے لیے کرپشن کے ذریعے پیسہ بنانے کا ایک اور ذریعہ ہے۔
خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی گرین گروتھ مہم کے سربراہ ملک امین اسلم خان سے ان کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں جو ناکام رہیں۔ تاہم انہوں نے اپنے ایک مضمون میں بلین ٹری سونامی مہم کو شاندار قرار دیتے ہوئے اسے صوبے، ملک اور دنیا کے مفاد میں قرار دیا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here