کراچی (فرحانہ نیازی سے) پولیس کانسٹیبل غلام رسول میمن پولیو مہم کی کامیابی کی کوششوں میں زندگی گنوا بیٹھے، ان کی اس قربانی سے کئی بچے معذورہونے سے محفوظ رہے لیکن اُن کے اپنے نوعمر بچے یتیم ہوگئے۔
غلام رسول ان سات پولیس اہلکاروں میں شامل تھے، جنہیں بدھ کے روز کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن بنگلا مارکیٹ میں پولیو مہم کے دوران فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا۔
غلام نبی مقتول سپاہی غلام رسول کے بھائی ہیں انہوں نے نیوز لینز سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ بھائی کی موبائیل پر آخری بات بھابھی کے ساتھ ہوئی تھی۔
’انہوں نے بھابی کو بتایا کہ ڈیوٹی پوری کرکے دودن بعد وہ آئیں گے تو انہیں ڈاکٹر کے پاس لے جائیں گے کیونکہ ان کی ڈلیوری کے دن قریب ہیں۔‘
غلام رسول کا تعلق گھوٹکی ضلعے سے تھا اور وہ 2007 میں پولیس میں بھرتی ہوئے تھے۔ وہ شہدادپُور پولیس ٹرئننگ اسکول میں لوئر کورس کرنے گئے تھے جہاں سے انہیں پولیو ڈیوٹی کے لیے کراچی بھیج دیا گیا۔
غلام نبی کے مطابق ’ان کے بھائی تو تربیت کے لیے گئے تھے وہاں سے اُن کو ڈیوٹی پر بھیج دیا انہیں تو اس کا بعد میں پتہ چلا تھا، یہاں گھوٹکی میں تو کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن کراچی کے خطرات کے بارے میں لاعلم تھے۔‘
غلام رسول میمن کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہیں، غلام نبی کے مطابق ’گھر والوں کی صورتحال کیا ہوگی جب واحد کفیل ہی چلا جائے لیکن انہیں فخر ہے کہ بھائی کو شہادت ملی۔‘
کراچی میں 2012 سے پولیو ٹیموں پر حملوں کا آغاز ہوا جس میں اب تک دس پولیس اہلکار اور سات رضاکار ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس سال سات ہزار رضاکاروں کے لیے پانچ ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
مقتول ہیڈ کانسٹیبل عبدالستار کی لاش ان کے دوست اے ایس آئی صورت خان پنجاب کے ضلع منڈی بہاوالدین کی تحصیل ملک وال لے کر پہنچے، وہ گزشتہ 24 برسوں سے پولیس کی ملازمت میں تھے۔
اے ایس آئی صورت خان کا نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان حملوں کے باوجود وہ خوف زدہ نہیں ہیں یہ ملک و قوم کے لیے نوکری ہے۔ جان اللہ کی ہے ۔
’ہم دہشت گردوں سے ڈر کر نوکری چھوڑ کر چوڑیاں پہن کر گھر میں نہیں بیٹھ سکتے ہم ان سے مقابلہ کریں گے، دہشت گرد کا کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ کوئی نسل وہ بس دہشت گرد ہوتا ہے۔‘
کراچی میں پولیس اہلکاروں پر حملوں کے زیادہ تر واقعات اورنگی ٹاؤن میں پیش آئے ہیں جہاں پولیس اور رینجرز کئی بار کالعدم شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں بھی کرتی آئی ہے، جن میں کالعدم تحریک طالبان اور لشکر جھنگوی کے کارندوں کی ہلاکتیں بھی ہوچکی ہیں۔
ایس پی اورنگی علی آصف کا کہنا ہے کہ دراصل یہ ایک جنگ ہے اور ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
’مسئلہ یہ ہے کہ ایک خاص ذہنیت اور نفرت انگیز رجحانات رکھنے والے لوگ کسی طریقے سے دوبارہ فعال ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور اگر وہ جنگی صلاحیتیں رکھتے ہوں اور وہ اُنہی جنگجو صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ریاست پر حملے کریں تو پاکستان میں ایسے واقعات ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں اور ان حالات میں ہم نے پہلے بھی آپریشن کیے ہیں۔‘
شدت پسندوں کا نشانہ بننے والی ٹیم میں کانسٹیبل علی گوہر چاچڑ بھی شامل تھے جو خوش قسمتی سے بچ گئے، نیوز لینز پاکستان سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ انہیں ساتھیوں نے کہا کہ وہ واپس آرہے ہیں اور وہ کھانے پر انتظار کررہے تھے، اسی دوران انہیں حملے کا پتہ چلا اور وہ جائے وقوع پر پہنچے جہاں اس کے دوستوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔
علی گوہر چاچڑ کی ڈیوٹی اورنگی کی یونین کاؤنسل نمبر آٹھ میں تھی، اس سے قبل بھی وہ اس علاقے میں ڈیوٹی دیکر گئے ہیں۔
’ہم شہداد پور پولیس ٹرئننگ سینٹر سے چار دن کے لیے آئے تھے، ہمیں بُلٹ پروف جیکٹیں بھی فراہم نہیں کی گئیں۔حالانکہ ہمیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ آئندہ ہر ٹیم کے ساتھ تین سے چار پولیس اہلکار اور بُلٹ پروف جیکٹ فراہم ہوگی۔‘
ان کے اس مؤقف کے برعکس ڈی آئی جی فیروز شاہ نے بدھ کے روز جائے وقوع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ تمام اہلکاروں کو بلُٹ پرُوف جیکٹس فراہم کی گئی تھیں۔
کراچی میں گزشتہ دو سالوں سے شدت پسند تنظیموں، بھتہ خوری اور سیاسی جماعتوں کے ٹارگٹ کلرز کے خلاف بھی آپریشن جاری ہے، جس کے دوران صرف گزشتہ سولہ ماہ میں 95 پولیس اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔
کانسٹیبل علی گوہر کا نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کے ساتھ مقامی رہائشی کانسٹیبل ہونا چاہیے۔
’ہمیں گلیوں کے راستوں کا بھی علم نہیں ہے۔ ہر پولیو ٹیم کے ساتھ جتنی بھی نفری تھی سب کی سب کراچی سے باہر سے آئی تھی۔‘
آئی جی سندھ اللہ ڈنو خواجہ نے زیر تربیت جوانوں کو پرُ خطر علاقوں میں بھیجنے کے الزامات کو مسترد کیا ہے اُن کا کہنا تھا کہ
’کچھ جوان پولیو ورکرز کی سیکیورٹی کے لیے گئے ہوئے تھے اور کچھ باہر سے سیکیورٹی کے لیے آیے تھے اس لیے اس علاقے میں خطرات کے بارے میں اتنا اندازہ نہیں تھا جس وجہ سے یہ نقصان ہوا تاہم کوشش کریں گے آئندہ ایسی قسم کی غفلت نہ ہو۔‘
مقتول سپاہی حاجی اسماعیل اپنے بیٹے ذیشان کے ہیرو ہیں وہ انہیں پولیس میں ایک اچھے عہدے کے دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ حاجی اسماعیل کے تین بچے ہیں ذیشان دوسرے نمبر پر ہیں جو اس وقت بارہویں جماعت میں زیر تعلیم ہیں۔
کراچی میں بدامنی کی وجہ سے ذیشان والد کو کبھی کبھار ملازمت چھوڑنے کا مشورہ دیتے تھے لیکن بقول اُن کے وہ اس بات کو سنتے ہیں نہیں تھے۔
’وہ ملازمت پر جاتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر جارہا ہوں پتہ نہیں واپس آؤں یا نہ آؤں ۔ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ والد اس طرح سے چلے جائیں گے۔‘
واضح رہے کہ پولیو ٹیموں پر حملوں کے بعد پولیس کی سیکیورٹی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا دو ماہ قبل پولیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ مہم دو روز تاخیر سے شروع کی گئی تھی۔
پاکستان میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پولیو ٹیموں پر حملوں میں اضافہ ہوا، بعض رپورٹس کے مطابق پولیو ویکسین کے بہانے اسامہ کے کمپاؤنڈ تک رسائی حاصل کی گئی، کراچی میں ان حملوں کے نتیجے میں سات رضاکار ہلاک ہوچکے ہیں۔
نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے ایک پولیو رضاکار عابدہ نے بتایا تھا کہ ہر ٹیم کے ساتھ دو پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں، جو علاقے زیادہ حساس ہوتے ہیں وہاں زیادہ نفری دی جاتی ہے۔
’یہ پولیس گھر کے اندر نہیں ہوتی ہے اگر خواتین پولیس اہلکار بھی دے دی جائیں تو اچھی بات ہے ۔ کیوں کہ مرد پولیس والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وقت نہ لگے لیکن زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اگر قطرے پلانے سے منع کررہا ہے تو گھر کے اندر بھی جانا پڑجاتا ہے۔‘
رواں سال 2016 میں سندھ میں پولیو کے تین جبکہ پاکستان بھر میں پولیو کے کُل آٹھ کیس سامنے آچکے ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ’سنہ دو ہزار گیارہ تک پاکستان ان چار ممالک میں شامل تھا جہاں ابھی تک پولیو کے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ جبکہ سنہ 2012 میں پاکستان دنیا کے ان تین ممالک میں سے ایک تھا جہاں پولیو کا وائرس اب بھی پایا جاتا ہے۔ دوسرے ممالک میں افعانستان اور نائجیریا شامل ہیں۔‘
No doubt informative and intresting story