ڈیرہ اسماعیل خان( رحمت محسود سے) نیوز لینز پاکستان کو حاصل ہونے والی دستاویزات سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ حکومت نے پاکستان کے جنگ سے متاثرہ قبائلی علاقے میں ’’ شکائی ڈیم‘‘ کی تعمیر کا رسمی طور پر آغاز کر دیا ہے جس کا مقصد انتشار کا شکار علاقے میں ترقی کے نئے در کھولنا اور مقامی آبادی کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا ہے تاکہ عسکریت پسندی کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔
جنوبی وزیرستان کی مقامی انتظامیہ کے ایک سینئر رُکن نے، نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، کہا کہ شکائی میں پانی کا اولین ذخیرہ تعمیر کیاجارہا ہے، یہ قدرتی مناظر سے مالامال ایک وادی ہے جہاں 24اپریل 2004ء کو پاکستانی فوج اور تحریکِ طالبان پاکستان کے اس وقت کے کمانڈر نیک محمد کے درمیان امن معاہدہ ہوا تھا۔
تاہم یہ معاہدہ اس وقت ختم ہوگیا تھا جب 17جون 2004ء کو نیک محمد امریکی ڈورن حملے میںـ ہلاک ہوگئے تھے۔ مقامی انتظامیہ کے اعلیٰ افسر نے کہا:’’ گزشتہ کئی برسوں سے حکومت وادیٔ شکئی میں ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا رہی تھی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ڈیم کی تعمیر سے زمین کے ایک بڑے حصے کو سیراب کرنے اور ہزاروں خاندانوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی میں مدد حاصل ہوگی۔ 2009ء میں پاکستانی فوج نے جنوبی وزیرستان سے غیر ملکی عسکریت پسندوں اور ان کے سہولت کاروں کو نکالنے کے لیے آپریشن راہِ نجات کیا تھا، اسی مقام سے تحریکِ طالبان پاکستان ابھری تھی۔
مذکورہ افسر نے کہا کہ فوج کی جانب سے حالیہ برسوں کے دوران اس علاقے کو عسکریت پسندوںسے واگزار کروانے کا اعلان کیاگیا ہے، حکومت نے ڈیم تعمیر کرکے علاقے کی ترقی کی جانب ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔
میڈیا میں آنے والی رپورٹوں کے مطابق جنوبی وزیرستان عالمی اور مقامی دہشت گردوں کا ایک بدنام زمانہ ٹھکانہ رہاہے جہاں سے وہ پاکستان کے علاوہ افغانستان میں نیٹو فورسز پر بھی حملے کرتے رہے ہیں۔
عمومی طور پر پاکستان اور ملک کے قبائلی علاقوں ،جو وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے نام سے معروف ہیں، نے بالخصوص پاکستانی سیکورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان خون ریز تصادم کا مشاہدہ کیا ہے جس کے باعث مقامی آبادی کا ایک بڑا حصہ نقل مکانی پر مجبور ہوا۔
پرتشدد واقعات کا ریکارڈ مرتب کرنے والے ادارے سائوتھ ایشیاء ٹیررازم پورٹل (ایس اے ٹی پی) کے اعداد و شمار کے مطابق 2003ء سے 2016ء کے درمیان پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 26,966شہری اور 6,439سکیورٹی اہل کار ہلاک ہوئے۔
سابق سفارت کار اور قبائلی امور کے ماہر ایاز وزیر کہتے ہیں کہ جنوبی وزیرستان میں ڈیم کی تعمیر ایک اہم اقدام ہے جو قبائلی عوام کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں لانے کا باعث بنے گا۔
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا:’’ ان علاقوں میں رہنے والے لوگ ایک مشکل زندگی گزار رہے ہیں۔ ڈیم کی تعمیر سے ان کی مشکلات میں کمی آئے گی۔‘‘
قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی حامد وزیر نے کہا کہ ترقی کے پہلوئوں کو مدِنظر رکھا جائے تو فاٹا ایک ایسا علاقہ ہے جسے نظرانداز کیا گیا ہے‘ علاقے میں کوئی یونیورسٹی ہے اور نہ ہی پانی کو ذخیرہ کرنے کا بندوبست ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ ڈیم کی تعمیر سے ترقیاتی سرگرمیوں، جیسا کہ زراعت کونا صرف فروغ حاصل ہوگا بلکہ ملازمت کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔‘‘
حامد وزیر کا کہنا تھا:’’ ڈیم کی تعمیر سے انتہا پسندی کے رجحان پر بالواسطہ طور پر قابوپانے میں مدد حاصل ہوگی۔‘‘ فاٹا کے مختلف علاقوں، جن میں جنوبی وزیرستان بھی شامل ہے، میںقبائلی خاندانوں کی واپسی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔
نیوز لینز پاکستان کو حاصل ہونے والی دستاویزات سے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ قدرتی حسن سے مالامال وادیٔ شکئی کی مجموعی آبادی 70ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور یہ جنوبی وزیرستان کے ہیڈکوارٹرز وانا کے شمالی میں 33کلومیٹرز کے فاصلے پرواقع ہے۔
فاٹا سیکرٹریٹ کے اعداد و شمار کے مطابق جنوبی وزیرستان کی مجموعی آبادی 1998ء کی مردم شماری کے مطابق 429,841نفوس پر مشتمل ہے اور اس کا رقبہ 6,619مربع کلومیٹر ہے۔
قبائلی علاقوں سے لوگوں کی ایک بڑی تعدادخاص مواقع جیسا کہ عیدین پر سرسبز و شاداب وادیٔ شکئی کا رُخ کرتی ہے۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سینئر ترین قبائلی رہنما علی وزیر کہتے ہیں:’’ اس ڈیم کی تعمیر سے مقامی معیشت اور زراعت پر بلاشک وشبہ دور رس مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ مقامی آبادی کو ملازمت کے حق سے محروم نہیں کیا جانا چاہیے اور ڈیم کے لیے عملہ رکھنے میں مقامی افراد کو ترجیح دی جائے۔
مقامی انتظامیہ میں اعلیٰ افسر نے کہا کہ یہ ڈیم دسمبر 2017ء تک مکمل ہوجائے گا۔
ایک اور قبائلی محمد اکرام نے کہا کہ مقامی آبادی کی جانب سے طویل عرصہ سے ڈیم کی تعمیر کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔
انہوں نے مزید کہا:’’ ہزاروں خاندان صاف پانی کی سہولت حاصل کرسکیں گے جب کہ اس وقت ہم ایک کلومیٹر دور سے پانی لے کر آتے ہیں۔‘‘ محمد اکرام نے کہا کہ مزید زرعی اراضی کو سیراب کرنے کے لیے آبپاشی کا مربوط نظام قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں چوں کہ کوئی صنعت نہیں ہے جس کے باعث قبائلیوں کی اکثریت بے روزگار ہے اور نوجوان عسکریت پسند تنظیموں میں کشش محسوس کرتے ہیں۔ محمد اکرام نے کہا کہ روزگار کے مواقع پیدا ہونے سے مقامی آبادی کو ’’ پروقار انداز سے گزر بسر کرنے میں‘‘ مصروف کیا جاسکے گا۔
فاٹا سیکرٹریٹ کی جانب سے فراہم کیے گئے اعداد و شمار سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ 2008ء سے 2009ء کے دوران فاٹا کی صرف آٹھ فی صد اراضی پر ہی کاشت کاری کی جارہی تھی جب کہ 86فی صد سے زائد اراضی کاشت کاری کے لیے دستیاب نہیں تھی۔
ان اعداد و شمار سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس نوعیت کی حکمتِ عملی کے باعث دستیاب زرعی اراضی پر انحصار بڑھا ہے اور قابلِ کاشت فی ایکڑ اراضی پر 18افراد اور قابلِ آبپاشی فی ایکڑ اراضی پر 40افراد کی بقاء منحصر ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق :’’ تقریباً 39فی صد قابلِ کاشت اراضی کو ہی آبپاشی کی سہولت حاصل ہے جب کہ باقی اراضی کو بارش کے پانی پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔‘‘
ان دستاویزات سے یہ انکشاف بھی ہوتاہے کہ ڈیم پر تقریباً 676.143ملین روپے کی لاگت آئے گی جو وفاقی حکومت کی جانب سے فراہم کیے گئے ہیں۔ ان دستاویزات کے مطابق پانی کے اس ذخیرے کی زندگی 57برس ہے۔
ڈیم میں 1.193اے ایف پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے جونو سو ایکڑ زمین کو سیراب کرے گا۔ ان دستاویزات سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اس وقت 462ایکڑ اراضی زرعی مقاصد کے لیے استعمال میں لائی جارہی ہے۔
مزید برآں، پانی کے اس ذخیرے سے تقریباً0.096ملین گیلن پینے کے قابل پانی کو محفوظ کیا جاسکے گاجو ان تین ہزار خاندانوں کو سپلائی کیاجائے گا جن کی پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں ہے۔
مزیدبرآں ، ان دستاویزات میں یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ ڈیم کی تعمیر سے نہ صرف سیلاب کے خطرات پر قابو پانے میں مدد حاصل ہوگی بلکہ مقامی آبادی کا سماجی ومعاشی معیار بھی بہتر ہوگا ۔ ان دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ قبل ازیں میسرز الیکٹرا کنسلٹنٹ پشاور نے میسرز ٹیکنو کنسلٹ انٹرنیشنل اور ایز پاک کنسلٹنٹ لاہور کے تعاون سے اس منصوبے کی فزیبیلٹی رپورٹ ترتیب دی تھی۔
لیکن اس منصوبے پر کام کرنے والی کمپنیوں کے حکام سے، علاقے میں کمیونیکشین کے مسائل کے باعث ، مؤقف حاصل نہیں کیا جاسکا۔
سروے میں یہ نشاندہی کی گئی تھی کہ تقریباً ایک ہزار ایکڑ اراضی بنجر ہے جسے قابلِ کاشت اور زرخیز بنایا جاسکتا ہے۔ اس علاقے میں فصلوں کی ایک بڑی تعداد پیدا کی جاسکتی ہے ‘ تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اس سے مقامی آبادی کی طلب پوری کی جاسکتی ہے۔
یہ ڈیم چٹانوں سے بنایا جائے گا جو سطحٔ زمین سے 32میٹر بلند ہوگا، اس کی اونچائی2,082میٹراور چوڑائی 10میٹر تک ہوگی۔ مزیدآں سیلاب کے پانی کے زیادہ سے زیادہ اخراج کے لیے جھیل بھی قائم کی جائے گی۔
ان دستاویزات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس ڈیم تک سڑک، بجلی کی فراہمی اور پل بھی تعمیر کیے جائیں گے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈیم سے 600ملی میٹر کے قطر کے پائپ کے ذریعے پانی سپلائی کیا جائے گا جسے آبپاشی کے لیے استعمال میں لائی جانے والی نہر سے منسلک کیا جائے گا۔
اس منصوبے سے مقامی آبادی متاثر یا نقل مکانی پرمجبور نہیں ہوگی کیوں کہ یہ ایک غیر آباد مقام پر قائم کیا جارہا ہے۔
ان دستاویزات سے یہ بھی انکشاف ہوتا ہے کہ قبائلی عوام کو گزر بسر کے لیے چند ہی مواقع دستیاب ہیں۔ مقامی معیشت کا بڑی حد تک انحصار مویشیوں پر ہے جب کہ زراعت صرف چند زرخیز وادیوں تک ہی محدود ہے۔ زیادہ تر خاندان بنیادی نوعیت کی سرگرمیوں جیسا کہ بقاء کے لیے ناگزیرزراعت اور مویشیوں کو پالنے یا پھر مقامی سطح پر چھوٹے کاروبار پر انحصار کرتے ہیں۔ایک بڑی تعداد قبائلی پٹی میں یا پھر ملک کے دیگر علاقوں سے تجارت کرتی ہے۔
حامد وزیر کہتے ہیں کہ زیادہ تر خوراک دوسرے اضلاع سے آتی ہے لیکن اس منصوبے پر عملدرآمد سے یہ خوراک مقامی طور پر اگائی جاسکے گی۔
1998ء میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق فاٹا کی آبادی تقریباً3.18ملین ہے۔ 1981ء اور 1998ء کے درمیان سالانہ شرح آبادی ایک اندازے کے مطابق 2.19فی صد رہی۔