پشاور ( سلمان یوسف زئی سے) خیبر پختونخوا حکومت صوبے کے تشدد سے متاثرہ علاقوں میںعمارتوں کی کمی پورا کرنے کے لیے مال برداری کے لیے استعمال ہونے والے کنٹینرز میں سکول کھولنے کے حوالے سے غور کر رہی ہے۔
محکمۂ پلاننگ و ڈویلپمنٹ خیبر پختونخواسے منسلک چیف فارن ایڈ آفیسر خالد الیاس کہتے ہیں:’’ مال برداری کے لیے استعمال ہونے والے کنٹینرز کو ازسرِ نو ڈیزائن کرنے اور ان کو کلاس رومز میں تبدیل کرنے کا منصوبہ صوبائی محکمۂ پلاننگ و ڈویلپمنٹ کی جانب سے پیش کیا جاچکا ہے تاکہ قدرتی آفات اور عسکریت پسندی سے متاثر ہونے والے علاقوں میں دوبارہ سکول قائم کیے جاسکیں۔‘‘
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ محکمۂ تعلیم اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے پر تیار ہوچکا ہے اور محکمۂ پلاننگ و ڈویلپمنٹ کو منتخب علاقوں میں اس منصوبے کو پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر شروع کرنے کے لیے گرین سگنل دیا جا چکا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس منصوبے کا دائرہ کار صوبے کے دیگر اضلاع تک بھی بڑھایا جائے گا تاکہ سکولوں کی عمارتوں کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔
اکیڈمی آف ایجوکیشنل پلاننگ اینڈ مینجمنٹ ( اے ای پی اے ایم) اورتعلیمی شعبہ میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم الف اعلان کی جانب سے حال ہی میں جاری کی گئی رپورٹ بعنوان ’’Pakistan Education Statistics 2014-15‘‘ کے مطابق صوبہ بھر میں52فی صد لڑکیاں اور 21فی صد لڑکے سکول نہیں جارہے۔
خیبر پختونخوا کے سیکرٹری تعلیم مشتاق جدون کے مطابق حالیہ برسوں کے دوران خیبر پختونخوا میں سیلاب، زلزلوں اور دہشت گردی کے باعث 34سو سکول تباہ ہوئے ہیں۔
وزیر برائے ایلیمنٹری و سکینڈری ایجوکیشن محمد عارف خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے یہ تصدیق کی کہ محکمۂ پلاننگ و ڈویلپمنٹ نے کنٹینر سکول قائم کرنے کی تجویز دی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ محکمہ کو فی الحال پائلٹ ماڈل تعمیر کرنے کے حوالے سے کام کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ محکمہ پائلٹ پراجیکٹ کا جائزہ لینے کے بعد ہی اس منصوبے کے لیے سالانہ ڈویلپمنٹ پروگرام میں فنڈز مختص کرے گا۔‘‘
محمد عارف خان نے کہا کہ اس منصوبے پر عملدرآمد سے حکام کم قیمت میںمحفوظ اور نسبتاً بہتر سکول قائم کرسکیں گے کیوں کہ اینٹوں کی عمارت بنانے میں زیادہ وقت لگتا ہے جب کہ اس وقت حالات فوری مداخلت کا تقاضا کر رہے ہیں۔
محکمۂ پلاننگ و ڈویلپمنٹ کے چیف فارن ایڈ آفیسر خالد الیاس کہتے ہیں:’’ پہلے سے قائم شدہ سکولوں کو جلداز جلد اور آسانی کے ساتھ توسیع دی جاسکے گی جب کہ طالب علموں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے مزید کنٹینرز کا اضافہ بھی کیا جاسکے گا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا:’’ مختلف ملکوں میں پہلے سے ہی کنٹینرسکول کام کررہے ہیں جو اطمینان بخش نتائج دے رہے ہیں۔‘‘
خالد الیاس کے مطابق اس منصوبے کو آفات سے متاثرہ علاقوں میں تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر شروع کیا جائے گا۔ تین ماہ میںتعمیر ہونے والے ہر سکول میں چھ کلاس روم ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کی طویل بندش کے باعث تعلیمی سرگرمیوں میں پیدا ہونے والے تعطل سے بچنے کے لیے سکولوں میں سولر پاور یونٹ نصب کیے جائیں گے۔
خالد الیاس نے مزید کہا:’’ ہم مال برداری کے لیے استعمال ہونے والے کنٹینرز کو آراام دہ اور پرکشش سکولوں میں تبدیل کریں گے جو آفات سے متاثرہ علاقوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے مثالی ادارے ہوں گے۔ ‘‘ انہوں نے کہا :’’ سرکاری شعبہ میں پروکیورمنٹ اورفنڈز مختص کرنے کا میکانزم خاصا طویل ہے تاہم ہم معاشی معاونت حاصل کرنے اور اس منصوبے پر جلد از جلد عملدرآمد کے لیے غیر ملکی امدادی اداروں سے رابطہ کررہے ہیں۔‘‘
خالد الیاس کہتے ہیں کہ اگر اس منصوبے پر عملدرآمد شروع ہوتاہے تو محکمہ کنسٹرکشن و ورکس دو برسوں میں تمام سکول قائم کرلے گا۔ انہوں نے کہا کہ جب کنٹینر سکول استعمال کے لیے تیار ہوجائے گا توحکام یہ جاننے کے لیے اس کا جائزہ لیں گے کہ اس میں تمام ضرورتوں کو پوراکرنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں یا نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا:’’ ایک کنٹینرسکول کی زندگی 50برس تک ہوگی جب کہ اس کی مرمت پر کوئی رقم خرچ نہیں ہوگی۔ ہم کامیاب پائلٹ پراجیکٹ کے بعد دو برسوں میں صوبہ بھر میں سکول قائم کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔‘‘
خالد الیاس کہتے ہیں کہ اینٹوں کا سکول قائم کرنے پر محکمۂ کنسٹرکشن و ورکس کو ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں جب کہ ایک کنٹینر سکول ایک کروڑ 20لاکھ روپے میں تعمیر ہوسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ ان سکولوں کی تعمیر پر کم لاگت تو آتی ہی ہے بلکہ ان کو عام سکولوں سے 25فی صد کم اخراجات میں جدید سہولیات سے آراستہ بھی کیاجاسکتا ہے۔‘‘
خالد الیاس نے مزید کہاکہ انڈیا نے اپنا اولین کنٹینر سکول 2015ء میں متعارف کروایا اور آفات سے متاثرہ علاقوں میں، جہاں تعلیمی سہولیات متاثر ہوئی تھیں،اسی نوعیت کے انتظامات کیے۔ انہوں نے کہا:’’ ابتداء میں قومی و بین الاقوامی ماہرین کنٹینر سکول قائم کرنے میں تعاون کریں گے۔‘‘
پشاور سے تعلق رکھنے والے انجینئر سعید خان کہتے ہیں کہ یہ صوبائی حکومت کا ایک مثبت اقدام ہے کیوں کہ کنٹینر سکول قائم کرنے میں کم وقت لگتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا:’’ میرا یہ یقین ہے کہ اس کی دیرپا پائیداری اور مرمت پر نسبتاً کم اخراجات کے باعث یہ اینٹوں کی عمارت تعمیر کرنے کی نسبت، جو خیبر پختونخوا میں عام ہیں، ایک ترجیحی ذریعہ ہے۔‘‘
سعید خان نے کہا کہ اگر ایک کنٹینر بہتر حالت میں ہو تو اسے پینٹ کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔
انہوں نے کہا:’’ ہر کنٹینر کا سائز 40ضرب 9فٹ ہوتا ہے جس کے باعث اسے کلاس رومز میں بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔‘‘
سعید خان کا کہنا تھا:’’ کنٹینر سکول قائم کرنا آسان ہے کیوں ان کو نہ صرف تعمیر نہیں کرنا پڑتا بلکہ کہیں پر بھی منتقل کیا جاسکتا ہے۔‘‘
سماجی اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن عمران ٹکر اس قدام کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تصور خاصا دلچسپ ہے لیکن اگر حکومت اس منصوبے پر سنجیدگی سے عمل کرتی ہے تو اسی صورت میں یہ کامیاب ہوسکے گا۔
انہوں نے مزید کہا:’’ اس منصوبے پر سنجیدگی سے عملدرآمد کے لیے حکومت کو آفاقی تعلیم کے حوالے سے پاکستان کے آئین کی شق 25اے پر درست طور پر عملدرآمد اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس اقدام سے تمام بچوں کو تعلیم فراہم کرنے اور سکولوں میں ان کے داخلوں کی شرح بڑھانے کے حوالے سے مدد حاصل ہوسکتی ہے۔‘‘
عمران ٹکر نے کہا کہ حکومت کو منصوبہ شروع کرنے سے قبل اس پر مناسب ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہتری صوبے میں برسرِاقتدار پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کی اولین ترجیح ہے لیکن اس حوالے سے اب تک کوئی کام نہیں ہوا۔
نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 2005ء میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں آنے والے تباہ کن زلزلے میں تقریباً چھ لاکھ عمارتیں تباہ ہوئی تھیں جن میں 55سو سکول کی عمارتیں بھی شامل تھیں۔ 2010ء کے سیلاب میں 10ہزار عمارتیں تباہ ہوئیں اور عسکریت پسندی و دہشت گردی کے واقعات میںعسکریت پسندوں نے صوبہ بھر میں تقریباً750سکولوں کو نشانہ بنایا اور تباہ کیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here