پاکستان: دہشت گردی سے متاثرہ سماج موت کی سزا پر تذبذب کا شکار

0
1711
: Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzai
Views after bomb blast at Taj Road in Chaman. The bomb was planted inside vehicle caused 10 people injured. Photo Newslens/Matiullah Achakzai. : Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzai

لاہور (دردانہ نجم سے) سزائے موت کے درست ہونے یا نہ ہونے پر جاری فکری بحث پاکستان میں ایک پیچیدہ رُخ اختیار کرچکی ہے کیوں کہ عوام ملک میں جاری دہشت گردی کے پیدا کردہ بحران کے حوالے سے متنوع نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ کچھ کے لیے دہشت گردی حکومتِ پاکستان کی جانب سے عسکریت پسندگروہوں کی سرپرستی کا نتیجہ ہے تو کچھ کے لیے قانون کی عملداری کا نہ ہونا اس کی ایک اہم وجہ ہے جب کہ بہت سوں کے لیے حکومت کے گناہ گاروں کو سزا دینے کے ضمن میں تذبذب کے باعث یہ صورتِ حال پیدا ہوئی ہے۔
مذکورہ بالا متنوع نقطہ ہائے نظر کے باعث سزائے موت کے معاشرے پر اثرات کے حوالے سے تین مختلف فکری دھارے تشکیل پاگئے ہیں۔
ایک فکری گروہ یہ یقین رکھتا ہے کہ سزائے موت کے باعث سماج میں جرائم کی شرح کم ہوتی ہے۔ مذہبی طبقہ اس فکر کا پرچار کرتا ہے۔ ایک دوسرے فکری گروہ کا یہ ماننا ہے کہ سزائے موت پر پابندی ختم ہونے سے جرائم کے تناسب میں کوئی کمی نہیں آئی اور ریاست کا یہ استحقاق نہیں ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں کسی بھی انسان کو اس کی زندگی سے محروم کرے۔ ایک اور فکری گروہ، جو ان دنوں پاکستان میں اکثریت میں ہے،ملک میں فروغ پذیر دہشت گردی کی وجہ ریاست کی سزائے موت پرعملدرآمد کروانے کے حوالے سے عدم فعالیت کو اس ساری صورتِ حال کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ اولذکر دونوں فکری گروہوں کے پاس اپنے اپنے دعوئوں کو ثابت کرنے کے لیے اعداد و شماردستیاب ہیں لیکن موخرالذکر گروہ کے پاس ایسا کوئی مواد نہیں جس سے اس کے استدلال کی تصدیق ہوتی ہو اور نہ ہی اپنے بیانیے کو درست ثابت کرنے کے لیے کوئی اخلاقی بنیاد ہے۔
نیوز لینز پاکستان نے جب باچا خان ٹرسٹ ایجوکیشن فائونڈیشن سے منسلک سکیورٹی تجزیہ کار ڈاکٹر خادم حسین سے عسکریت پسندوں کو سزائے موت دیئے جانے اور دہشت گردی کے واقعات میں حالیہ کمی کے بارے میں بات کی تو انہوں نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ ان دونوں میں کوئی تعلق ہے۔ انہوں نے یہ استدلال پیش کیا کہ ریاست انتہا پسندی کو خارجہ پالیسی کے ایک حربے کے طور پر استعمال کرتی ہے اور بچوں و نوجوانوں کے ذہنوں میںنصاب اور میڈیا کے ذریعے اس سوچ کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ سوات میں فوجی آپریشن کے بعد عسکریت پسندوں کی معاونت مختلف طریقوں سے ہوتی رہی لیکن جب ان تک آنے والی فنڈنگ کے ذرائع مسدود کرنے کے علاوہ دہشت گردوں کی بھرتی کے نیٹ ورک بند کیے گئے تو امن و امان کے حالات میں بہتری آگئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ فاٹا میں بھی اسی حکمتِ عملی پر عمل کیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر خادم حسین نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں میں بھی صرف نچلے درجے کے دہشت گردوں کو موت کی سزا دی جارہی ہے ‘ عسکریت پسندوں کی قیادت اب تک فعال ہے اوران میں سے صرف پانچ فی صد کو ہی موت کی سزا سنائی جاسکی ہے۔
ڈاکٹر خادم حسین کا کہنا تھا:’’ میَں یہ یقین رکھتا ہوں کہ سزائے موت سے وہ لوگ انتہا پسندی کے رجحان کی جانب راغب ہوں گے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ مخالفانہ نقطۂ نظر رکھنے والا موت کی سزا کا مستحق ہے۔ چناں چہ اگر آپ کسی کو تختۂ دار پرلٹکاتے ہیں تو ممکن ہے ملک میں جاری دہشت گردی کے واقعات میں وقتی طور پر کمی آجائے۔‘‘
مذہبی عسکریت پسندوں میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ سزائے موت کو عزت و بخشش کا ایک ذریعہ خیال کرتے ہیں جیساکہ 17جنوری 2015ء کو کراچی کی سنٹرل جیل میں کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان کے عسکریت پسندوں کی پھانسی کے بعد ان کے تابوتوں پر ان کے حامیوں نے گلاب کی پتیاں نچھاور کیں۔
روشن خیال طبقات پھانسی کی سزا کی مخالفت اس بنا پر کرتے ہیں کیوں کہ پاکستان میں غیر مؤثر اور ناقص فوجداری عدالتی نظام رائج ہے، ملزموں کے قانونی دفاع کے مناسب انتظام کے نہ ہونے اور مقدمہ کی عدم شفافیت اس کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں ۔
جنوری 2015ء سے اب تک پاکستان میں 260مجرموں کو سولی پر چڑھایا جاچکا ہے۔2009ء سے 2014ء تک ملک میں پھانسی کی سزا پر غیر رسمی پابندی کے باعث کسی ایک مجرم کی موت کی سزا پربھی عملدرآمد نہیں ہوا جب کہ اس عرصہ کے دوران عدالتوں نے 2,196مجرموںکو موت کی سزا سنائی۔
 پاکستان جب معرضِ وجود میں آیا تو اس وقت صرف دو جرائم پر سزائے موت دی جاتی تھی جو اب بڑھ کر 27 ہوچکے ہیں۔ 99ممالک اپنے قانون سے پھانسی کی سزا ختم کرچکے ہیں۔ چین، شمالی کوریا اور اب پاکستان ان ملکوں میں شامل ہیں جہاں دنیابھر میں سب سے زیادہ پھانسی کی سزا دی جا رہی ہے۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل آئی اے رحمان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پھانسی کی سزا سماج سے کرپشن اور جرائم کے تدارک کے لیے کوئی حل نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ پاکستان کے قانونی نظام میں موجود خامیوں کے باعث ایک مجرم کو یہ 100فی صد یقین ہوتا ہے کہ وہ ان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بالآخر رہائی حاصل کرسکتا ہے۔ سزائے موت پر انحصار کے باعث حقیقی مسائل جیسا کہ درست تفتیش نہ ہونا، جرائم کی روک تھام اور ملزموں کے حقوق سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔‘‘
آئی اے رحمان کا کہنا تھا کہ جرائم کی شرح ان ممالک میں ہمیشہ زیادہ رہی ہے جہاں لوگ بنیادی ضروریات جیسا کہ تعلیم، صحت اور روزگارکے مواقع سے محروم ہیں‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت تک جرائم پر قابو نہیں پایا جاسکتا جب تک عوام کو ان کے بنیادی حقوق فراہم نہیں کیے جاتے۔ آئی اے رحمان کا کہنا تھا کہ سزائے موت دینے کی بجائے سماجی ترقی کے ذریعے جرائم کی روک تھام ممکن بنائی جائے۔
پنجاب یونیورسٹی میں اسلامک سٹڈیز کے پروفیسر ڈاکٹر محمد حماد لکھوی نے سزائے موت کی ضرورت کی حمایت کرتے ہوئے حکومت پر تنقید کی جس نے اس قانون کو مذاق بنا دیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ملک کو منتظم کرنے کے لیے بہ ظاہر کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر حماد لکھوی نے کہا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ قانونی نظام میں موجود خامیوں کے باعث کرپشن کرنا مزید آسان ہوگیا ہے۔ انہوں نے قانون کے روبرو تمام انسانوں کی برابری پر زور دیا جس کی ضمانت آئین کا آرٹیکل چار دیتا ہے۔
پروفیسر حماد لکھوی نے مزید کہا:’’ جب لوگوں کو ان کے جرائم پر گرفتار کرکے سزائیں نہیں دی جاتیں تو وہ غیر ذمہ دار ہوجاتے ہیں اور قانون کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ صرف سزا سے ہی نہیں بلکہ مستقل مزاجی اورقانون کے درست طور پر نفاذ کے ذریعے ہی شہریوں میں قانون کی پاسداری کرنے کا خوف پیدا ہوتا ہے۔جب ہم میں سے ہر کوئی یہ آگہی حاصل کرلے گا کہ کسی بھی خطے، پس منظر اور لسانی گروہ سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی مجرم قانون کی زد میں آنے سے بچ نہیں سکتا تو حالات بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ دیت سزائے موت کامتبادل نہیں ہے۔ اس بارے میں فیصلہ کرنا مکمل طور پر متاثرہ فریق کے خاندان کی صوابدید پر ہوتاہے: وہ مجرم کو معاف کر سکتے ہیں، اس کے خاندان سے دیت وصول کرسکتے ہیں یا پھر سزائے موت برقرار بھی رکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں دیت کے قانون کے نفاذ کے طریقۂ کار پر تنقید کی کیوں کہ اس کی وجہ سے کمزور وبے بس خاندان مجبور ہوجاتے ہیں کہ وہ موت کے مجرم سے رقم لے کر اسے معاف کر دیں۔
انسانی حقوق کے کارکن اور قانونی ماہرین حکومت سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ حکومت غیرت کے نام پر قتل کے قانون میں ترمیم کرے اور فریقین کے مابین مصالحت کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔
غیرت کے نام پر قتل تعزیراتِ پاکستان کی شق 320کے تحت ایک قابلِ مصالحت جرم ہے۔ ایک قابلِ مصالحت جرم کچھ خاص سنجیدہ تصور نہیں کیا جاتا اور متاثرہ فریق اور مجرم عدالت کی اجازت سے یا اجازت کے بغیربھی مصالحت کرسکتے ہیں۔اگر کمپرومائز ہوجائے تو مجرم جیل سے رہا ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر لکھوی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ریاست نے اگر جرم کی درست طور پر تفتیش کی ہے اور ملزم قصور وار ہے تو اس صورت میں اسلام کی رو سے کسی بھی صورت میں مجرم اور متاثرہ فریق کے خاندان کے درمیان مصالحت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اگر غیرت کے نام پر یا کسی بھی وجہ سے قتل کیا جائے تو ہر دو صورتوں میں یہ ایک گھنائونا اور ظالمانہ جرم ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
سزائے موت دیئے جانے کی حالیہ لہر اور اس کے باعث ملک بھر میں جرائم کی شرح میں آنے والی کمی کے بارے میں بات کرتے ہوئے اٹک کے ڈی پی او رانا ایاز سلیم نے کہا:’’ گزشتہ کئی برسوں سے سزائے موت کے منتظر مجرم جیل کے اندر سے گینگ چلا رہے تھے۔ پھانسیوں کے باعث اس رجحان میں کمی آئی ہے۔ سزائے موت پانے والے مذہبی اور فرقہ ورانہ انتہاپسندجیل میں رہتے ہوئے بھی حقیقی ڈان بن چکے تھے جو گواہوں اور شکایت کنندگان کے لیے خوف کی ایک علامت تصور ہونے لگے تھے۔ سزائے موت دیئے جانے پرعاید غیر رسمی پابندی کے ختم ہونے سے گزشتہ ایک دہائی کے دوران قائم ہونے والا جمود ٹوٹا ہے۔‘‘
حکومت قتل کی وارداتوں اور پھانسی کی سزائوں کے درمیان تعلق تلاش کرنے کے لیے مختلف اعداد و شمار جاری کرتی رہی ہے۔ میڈیا میں آنے والی رپورٹوں کے مطابق جنوری 2015ء سے قتل کی واردارتوں میں ایک تہائی کمی آئی ہے۔ تاہم ان اعداد و شمار کی کسی باوثوق اتھارٹی سے تصدیق نہیں ہوسکتی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here