حکومت کی جانب سے ناکافی اقدامات کے باعث جبری مشقت کا تدارک ممکن نہ ہوسکا

0
1301

اسلام آباد (رحمت محسود سے) غیر سرکاری تنظیموں کے حکام اور محنت کش کہتے ہیں:’’ پاکستان بھر میں اینٹوں کے بھٹے ان انکشافات کے منظرِعام پر آنے کے بعد بھی جبری مشقت کو فروغ دینے کے مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں کہ حاملہ عورتوں اور بچوں کو ناساز ماحول میں کام کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے کیوں کہ اس حوالے سے قوانین کا نفاذ اب تک عمل میں نہیں آسکا۔
بائونڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ کی جنرل سیکرٹری سیدہ غلام فاطمہ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے بچوں اور خاص طور پر عورتوں کی حالتِ زار حکومت کی محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی اور اصلاحات کرنے کے حوالے سے نااہلی کو ظاہر کرتی ہے۔‘‘
اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے محنت کشوں اور ان کے خاندانوں کواپنی زندگی بہتر بنانے کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ ایک جانب تو ان کا معاوضہ ناکافی ہے تو دوسری جانب ضرورت سے زیادہ کام لیا جاتا ہے جب کہ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ یہ محنت کش زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔
جبری مشقت پر مجبور ان محنت کشوں کی داستانِ غم صرف ان چند سطور میں ہی ختم نہیں ہوجاتی کیوں کہ ان پر بدترین تشدد کرنے سمیت اغوا اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کی رپورٹیں بھی منظرعام پر آتی رہی ہیں۔
سیدہ غلام فاطمہ نے کہا کہ بی ایل ایل ایف ، یہ ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو جبری مشقت کے تدارک کے لیے کوشاں ہے، ان محنت کشوں کے حقوق کی ترجمان بن چکی ہے جنہیں انتہائی نامساعد حالات میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ پاکستان میں اس وقت ایک اندازے کے مطابق 45لاکھ افراد جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ پنجاب میں 23لاکھ افراد اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرتے ہیں جہاں خواتین اور بچوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے جوعہدِ جدید کی غلامی سے مشابہت رکھتا ہے۔‘‘
 سب سے بڑھ کر المیہ تویہ ہے کہ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے محنت کشوں کے حقوق کے لیے کوئی یونین تک قائم نہیں ہے۔ اگر کوئی تنظیم کام کربھی رہی ہے تو محنت کشوں کا استحصال ہی کر رہی ہے کیوں کہ اس کے ارکان اینٹوں کے بھٹوں کے مالکان کے ساتھ مل کر اپنے ساتھیوں کی امیدوںاور آسوں سے کھیل رہے ہیں۔
1989ء میں جبری مشقت کے خاتمے کے لیے ایک بل ڈرافٹ کیا گیا جو اسی برس قانون سازی کے لیے پیش کر دیا گیا اور یہ 1992ء میں ایک قانون کی حیثیت اختیار کر گیا جس کے تحت ’’ جبری مشقت کے نظام‘‘ کو ختم کر دیا گیا۔
دوسری جانب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی شق 11میں کہا گیا ہے:
’’(1 پاکستان میں کسی بھی طرح کی غلامی پر مکمل پابندی عاید ہے اورکوئی قانون ایسا نہیں ہے جس کے تحت اسے رائج کیا جائے۔
(2ہر طرح کی جبری مشقت اور انسانوں کی خریدو فروخت پر مکمل پابندی عاید ہے۔
(3ٍ14برس سے کم عمر کا کوئی بھی بچہ بھی فیکٹری یا کان میں یا پھر خطرات سے پُر ملازمت نہیں کرے گا۔
تاہم صوبائی سیکرٹری لیبر و ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ علی سرفراز حسین نے یقین دہانی کروائی کہ قانون کو اس کی اصل روح کے ساتھ نافذ کرنے کے لیے تمام تر اقدامات کیے جاچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے ایک منصوبہ شروع کیا ہے جس کے تحت زیادہ سے زیادہ بچوں کی تعلیم کا اہتمام کیا جائے گا۔
علی سرفراز حسین نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کا دائرہ کار پنجاب کے تمام اضلاع تک بڑھایا جائے گا تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ ہر بچہ، خواہ وہ گلیوں میں کوڑا کرکٹ چنتا ہے یا اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتا ہے‘ سکول جاسکے۔
انہوں نے کہا:’’ حکومتِ پنجاب نے اس منصوبے کے لیے پانچ ارب روپے مختص کیے ہیں۔‘‘  علی سرفراز حسین نے مزید کہا کہ اس حوالے سے کیے جانے والے سروے کو حتمی شکل دی جاچکی ہے۔
35برس کی وکیلاں راجپوت کو نہ ہی محنت کشوں سے متعلق قوانین کے بارے میں کوئی علم ہے اور نہ ہی وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ان پر عملدرآمد کے حوالے سے کوئی آگاہی رکھتی ہیں۔ وہ برسوں سے حیدرآباد، سندھ میں اینٹوں کے ایک بھٹے پر کام کررہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے:’’ اینٹوں کے بھٹے پر پورا پورا خاندان کام کرتا ہے جس کے ہر رُکن، جن میں بچے اور حاملہ عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں،کے لیے اپنے مالک کو مطمئن کرنے اور اپنا ادھار چکانے کے لیے دن رات کام کرنا پڑتا ہے۔‘‘
چار بچوں کی والدہ وکیلاں کہتی ہیں کہ وہ صبح کی روپہلی کرن کے نمودار ہونے سے شام کے سایے گہرے ہونے تک اپنے بچوں کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا:’’ایک ہزار اینٹیں بنانے کا 450روپے معاوضہ ملتا ہے۔ ہم مالک کی جانب سے دیئے گئے قرض کے گھن چکر میں پھنس چکے ہیں۔ مجھے رات دیر گئے تک کام کرنا پڑتا ہے تاکہ اپنے بچوں کو بنیادی ضروریاتِ زندگی مہیا کرسکوں۔ مہنگائی کے اس دور میں میرے خاندان کا ہر فرد، عمر اور صنف سے قطعٔ نظر، زندگی گزارنے کے لیے سخت محنت کرتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ انہوں نے بھٹے کے مالک سے قرض لیا تھا تاکہ وہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی شادی کرنے کے علاوہ اپنے خاندان کے طبی اخراجات کے لیے کچھ رقم پس پشت کرسکیں۔
وکیلاں نے مزید کہا:’’ میَں حکومت سے مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ ہماری غلاموں کی سی زندگی سے نجات دلانے کے لیے مدد کرنے کی غرض سے قانون متعارف کروائے۔‘‘
وکیلاں ہی صرف اس قسم کے حالات کا سامنا نہیں کر رہیں۔ سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک) کے ریسرچ و کمیونیکیشن افسر ظہیروحید نے ای میل پر نیوز لینز پاکستان کو ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جبری مشقت کے تصور کی بنیاد پاکستان میں رائج قرض یا پیشگی کے نظام پر ہے۔
انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا:’’ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے خاندان صحت کی بنیادی سہولیات کے حصول، شادیوں اور حتیٰ کہ روزمرہ کی ضروریات پورا کرنے کے لیے قرض لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس قرض پر سود کی غیر معمولی شرح وصول کی جاتی ہے جس کا تعین مالک کرتا ہے۔ خاندان کے ارکان اینٹوں کے بھٹے پر کام کرکے قرص واپس کرتے ہیں لیکن بھاری شرح پر سود کی رقم کی ادائیگی کے باعث ایسا ممکن نہیں رہتا اور یوں یہ قرض نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے جس کے باعث غلامی کا یہ کھیل کبھی ختم نہیں ہوپاتا۔‘‘
انہوں نے جبری مشقت پر عالمی اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جبری مشقت کرنے والے طبقے ( جو بیش تر سندھ اور پنجاب میں ہیں) زراعت اور اینٹوں کے بھٹوں کے شعبوں سے منسلک ہیں۔
ظہیر وحید نے کہا:’’گلوبل سروے انڈکس کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2014ء تک تقریباً 2,058,200( تقریباً ملک کی آبادی کا 1.13فی صد) مرد خواتین اور بچے غلامی یا اسی نوعیت کی صورتِ حال کا سامنا کر رہے تھے۔ ایشیاء پیسیفک کے خطے میں جبری مشقت کرنے والوں کی تعداد کے حوالے سے پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ لڑکے اور لڑکیاں اینٹوں کے بھٹوں پر روزانہ اینیٹیں بنانے کے مختلف مراحل سے گزرتی ہیں۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ حاملہ خواتین بھی بھٹوں پر کام کرتی ہیں لیکن بچے کی پیدائش کے وقت چھٹی حاصل کرلیتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا:’’ لیکن حاملہ خواتین کو مالکان کی جانب سے صحت کی کوئی سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں۔‘‘
42برس کی پنہوں مزدواینٹوں کے بھٹے پر کام کرتی ہیں‘ وہ حیدرآباد میں سندھ بھٹہ مزدورفیڈریشن کی صدر ہیں‘ وہ کہتی ہیں:’’ ہم گزشتہ کئی نسلوں سے اینٹوں کے بھٹوں پر کام کر رہے ہیں۔ مالکان نے قرض تو دیا لیکن خاندان کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ میں حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ اس شیطانی چکر سے جان چھڑانے کے لیے ہماری مدد کرے تاکہ ہم بھی آزاد فضائوں میں سانس لے سکیں۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here