افغانستان میں جاری پاکستانی منصوبوں پر کام بہ ظاہر رُک گیا

0
3007
: Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzai
A view of the Friendship gate at Pak-Afghan border Chaman. : Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzai

لاہور(سمیرا علی سے) پاکستان کا افغانستان کی بحالی کے عمل میں حصہ لینے کے عزم کا اظہار ایک معقول بیانیے کا اظہار تھا۔ لیکن یہ اس وقت مشکلات کا شکار ہوگیا جب تکمیل کے قریب پہنچ چکے منصوبوں کے لیے فنڈنگ روک دی گئی جس کی وجہ دوطرفہ عدم اعتماد، بے ضابطگیاں اور بنکنگ کے مناسب نظام کا نہ ہونا تھا۔
تجزیہ کاروں نے اس اَمر کی پیش گوئی کی تھی کہ افغانستان کو اشیاء اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے خدمات فراہم کرنے سے پاکستان پڑوسی ملک میں اپنا اثرورسوخ قائم کرلے گا جب کہ اس سے خطے میں بھارتی بالادستی قائم ہونے کا خواب بھی چکنا چور ہوجاتا۔
 وزارتِ خزانہ سے حاصل ہونے والی مصدقہ رپورٹوں کے مطابق افغانستان میں خیرسگالی کے اظہار کے لیے اربوں ڈالرز کے منصوبے شروع کیے گئے تھے لیکن حکومت کی جانب سے اچانک فنڈز روکے جانے کے باعث ان منصوبوں کی ساکھ کے حوالے سے منفی تاثر ابھرا ہے۔ اس کے علاوہ بھی متعدد اسباب ایسے ہیں جن کے باعث صورتِ حال مزید پیچیدہ ہوئی ہے۔
 ذرائع نے نیوز لینز پاکستان سے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اکائونٹنٹ جنرل نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے کچھ آڈٹ اعتراضات کے بعد رقم کا اجرا روک دیا تھا جس کے باعث وزارتِ خرانہ نے بھی اپنی ذمہ داری سے پہلوتہی برتی جس نے افغانستان میں ٹھیکے داروں کو فنڈز کی فراہمی یقینی بنانا تھی۔
حکومت کی لاپرواہی کے باعث متاثر ہونے والے منصوبوں میں رحمان بابا ہائی سکول کابل بھی شامل ہے جو2013ء میں تقریباً97فی صد مکمل ہوگیا تھا لیکن اب یہ بند پڑا ہے۔ جلال آباد میں نشتر کڈنی ہسپتال 2010ء میں مکمل ہوگیا تھا لیکن طبی آلات نہ ہونے کے باعث اس کے انتظامی امور افغان حکومت کے حوالے نہیں کیے گئے۔ کابل میں جناح ہسپتال 2013ء میں تقریباً 85فی صد مکمل ہوگیا تھا۔ لوگر میں نائب امین اللہ لوگری ہسپتال اور طورخم جلال آباد روڈ کے منصوبے 2013ء میں 70فی صد تک مکمل ہوچکے تھے۔
سابق اکائونٹنٹ جنرل طاہر محمود نے اس معاملے پر لب کشائی کرنے کی اس وقت جرأت کی جب دیگر متعلقہ وزارتوں نے کوئی بھی بیان دینے سے انکار کر دیا۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر سرکاری خزانے کی رقوم کا حجم بڑا ہوتو وہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے دائرہ کار میں آتا ہے اور متعلقہ محکموں پر یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ تمام تر ضابطوں پر عمل کرتے ہوئے معاہدے پر سختی کے ساتھ عمل کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا:’’جب اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان کو اس ضمن میں بہت سی بے ضابطگیوںاور پاکستان پبلک ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کے قوانین کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے معلوم ہوا تو فنڈز کی ادائیگی روک دی گئی۔‘‘
جب ان سے استفسار کیا گیا:’’ فنڈز جاری نہ کرنے کی ذمہ داری کس پر عاید کی جائے؟‘‘ طاہر محمود نے کہاکہ اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان کو اس صورتِ حال کا ذمہ داقرار نہیں دیا جاسکتا۔ انہوں نے اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے کہا:’’ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ضابطوں اور قوانین پر عملدرآمد یقینی بنائیں اور یہ دیکھیں کہ کیا منصوبوں پر قوانین کے مطابق عمل ہورہا ہے یا نہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا:’’ ہم نے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کی ہیں اور اگر وزارتِ خزانہ اور پلاننگ ڈویژن کو کوئی اعتراض ہے تو وہ قوانین میں ترمیم کریں۔‘‘
طاہر محمود نے مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہاکہ منصوبہ بندی ڈویژن نے یہ کنٹریکٹ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کو دیا تھا۔ اس کنٹریکٹ کے تحت منصوبے کے 30فی صد حصے پر ہی ذیلی ٹھیکیداروں نے عملدرآمد کرنا تھا۔
انہوں نے مزید کہا::’’ پی پی آر اے کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منصوبہ بندی ڈویژن نے افغانستان میں امن و امان کے ابتر حالات میںان منصوبوں پر عملدرآمد کی تمام تر ذمہ داری ذیلی ٹھیکیداروںکو دے دی… فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن سے کہا گیا کہ وہ ترقیاتی منصوبوں پرکام روک دے۔‘‘
طاہر محمود کا کہنا تھا:’’ اگر حکومت بھارت کے اثر ورسوخ کا مقابلہ کرنے میں سنجیدہ ہے تو اس کے لیے ان ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کرنے کے لیے عالمی کنٹریکٹرز کی خدمات حاصل کی جاتیں جن پر پہلے ہی اربوں ڈالرزکے مصارف اٹھ چکے ہیں۔‘‘
افغانستان میں کنٹریکٹرز کو رقوم کی ادائیگی میں ایک اور بڑا مسئلہ رقوم کی منتقلی کے لیے بنکنگ سسٹم کا محفوظ نہ ہونا بھی ہے جس کے باعث ہنڈی کے ذریعے رقوم افغانستان منتقل کی جاتی ہیں۔
یہ صورتِ حال مایوس کن ہے کہ گزشتہ 13برسوں کے دوران کسی ایک حکومت نے بھی رقوم کی منتقلی کے حوالے سے کوئی نظام تشکیل نہیں دیا یایہ فیصلہ نہیں کیا کہ کنٹریکٹرز اور ذیلی کنٹریکٹرز کو کس طرح رقوم ادا کی جائیں گی۔
بہت سے ذیلی ٹھیکیداروںکو ایئرپورٹ سے گرفتار بھی کیا گیاجب وہ منصوبوں پر آنے والی لاگت کی ادائیگی کے لیے ڈالرز لے کر افغانستان جا رہے تھے۔
ایک ذیلی ٹھیکیدار عمران شوکت نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ حکومت کی اجازت سے ہنڈی کے ذریعے رقوم افغانستان منتقل کی جارہی ہیں ۔ انہوں نے کہا:’’ ایک بار ایئرپورٹ پر گرفتارکرلیا گیا تھالیکن وزارتِ خزانہ کی مداخلت کے بعد رہا کر دیا گیا۔‘‘
سینئر تجزیہ کار عامر متین نے اس صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے ریاست کے اندر ریاست قرار دیا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’ ایک جانب تو حکومت منی لانڈرنگ و ہنڈی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے تو دوسری جانب اس نوعیت کے حساس معاملات میںخود ہنڈی میں ملوث ہے۔‘‘
یہ انکشاف بھی ہوچکا ہے کہ ان منصوبوں کے لیے بجٹ میں غیر ملکی زرِمبادلہ مختص نہیں کیا گیا۔ 2007ء میں ان کنٹریکٹرز کو پاکستانی روپوں میں ادائیگی کی جاتی تھی کیوں کہ ڈالر کی قدر میں ٹھہرائو تھا لیکن جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت برسرِاقتدار آئی تو ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوگیا۔
سابق اکائونٹنٹ جنرل طاہر محمود نے کہاکہ مذکورہ معاہدوں میں یہ پہلے سے طے تھا کہ کنٹریکٹرز کو ڈالر کی قدر کے مطابق ادائیگی کی جائے گی۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا’’ لیکن ڈالرز میں ادائیگی کا ضابطہ تشکیل نہیں دیا گیا تھا جس کے باعث جب این ایل سی اور ایف ڈبلیو او نے وزارتِ خزانہ سے ڈالرز میں رقوم طلب کیں تو وزارت پس قدمی کرنے پر مجبور ہوگئی۔‘‘
خبروں کے مطابق وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے چھ ماہ قبل منصوبہ بندی و ترقی کے وزیر احسن اقبال کو خط لکھ کر ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے فنڈز جاری کرنے کا کہا تھا لیکن ان کی اس درخواست پر اب تک عمل نہیں ہوا۔
نیوز لینز پاکستان نے جب اس حوالے سے سرتاج عزیز سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے کہا کہ پی پی آر اے میں کچھ ترامیم کی جاچکی ہیں تاکہ ان منصوبوں کے لیے فنڈز کے اجرا کو یقینی بنایا جاسکے۔ انہوں نے تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا:’’ پی پی آر اے قوانین میں منظور کی گئی ترامیم کے تحت افغانستان میں ذیلی ٹھیکیداروں کو مکمل ٹھیکے دیئے جائیں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ تاہم نومبر کے پہلے ہفتے کے دوران منصوبوں کے جائزے کے لیے طلب کیا گیا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیا جاچکا ہے۔
سرتاج عزیز نے رقوم کی منتقلی کے لیے غیرقانونی طریقوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں بنکنگ کا کوئی مربوط نظام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا:’’ یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث ہنڈی ہی وہ واحد ذریعہ رہ جاتا ہے جو افغانستان میں کنٹریکٹرز کو رقوم کی منتقلی کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ این ایل سی کو ایک بار پھر کنٹریکٹ دیا جاچکا ہے تاکہ اسے ہر صورت میں مکمل کیاجا سکے۔
مشرف دورِ حکومت میں 2002ء میں مذکورہ ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے تھے، ا س وقت شوکت عزیز وزیرِ خزانہ تھے اور پاکستان نے افغانستان کو ترقیاتی منصوبوں کے لیے ایک سو ملین ڈالرزکی امداد دی تھی۔ ایف ڈبلیو او اور این ایل سی سے سڑکوں، انفراسٹرکچر، سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر کے لیے رابطہ کیا گیا تھا۔
2005ء میں شوکت عزیز جب افغانستان کے دورے پر گئے تو انہوں نے مزید ایک سو ملین ڈالرز ترقیاتی منصوبوں کے لیے عطیہ کیے۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے لندن کانفرنس میں افغانستان کے لیے مزید 50ملین ڈالرز کی امداد دی گئی اور بعدازاں مزید 50ملین ڈالرز کا اعلان کیا گیا، یوں مجموعی طور پر سرمایہ کاری کا حجم تین سو ڈالرز تک پہنچ گیا۔
جب پاکستان مسلم لیگ نواز برسرِاقتدار آئی تو نواز شریف نے مزید دو سو ملین ڈالر زامداد کا اعلان کر دیاجس کے باعث مجموعی سرمایہ کاری پانچ سو ملین ڈالرز تک پہنچ گئی ہے۔
 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here