بلوچستان میں تعلیمی نظام کی بدحالی‘ حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت

0
4403

کوئٹہ (مالک اچکزئی سے) بلوچستان سے معدودے چند امیدوار ہی مقابلے کے سالانہ امتحانات یعنی سی ایس ایس یا سنٹرل سپریئر سروسز کے ذریعے ملک کی سپریئر سول سروسز کا حصہ بنتے ہیں۔ ماہرین اس کی ذمہ داری صوبہ میں تعلیم کے روبۂ زوال نظام پر عاید کرتے ہیں جس کے باعث صوبے کے وہ طالب علم ہی مقابلے کے ان امتحانات میں کامیاب ہوپاتے ہیں جو ملک کے دوسرے شہروں کے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
صوبائی محکمۂ تعلیم کے حکام کے مطابق صوبہ میں بہت سے ایسے سکول قائم ہیں جہاں بچوں کو کوئی تعلیم نہیں دی جارہی‘ گھوسٹ سکول بھی اسی زمرے میں آتے ہیں جن کا وجود صرف کاغذوں کا پیٹ بھرنے کے لیے ہے‘ اساتذہ کی غیر حاضری و وسائل کی کمیابی کے علاوہ بڑے پیمانے پر ’’نقل‘‘ کیے جانے کا رجحان وہ چند وجوہات ہیں جو صوبے میں تعلیمی نظام کے غیر مؤثر ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہیں‘ مذکورہ حکام کی جانب سے صوبہ میں نگرانی کا نظام متعارف کروایا جاچکا ہے تاکہ اساتذہ اور طالب علموں کی کلاس روم میں حاضری یقینی بنائی جاسکے۔
تعلیمی حکام کے مطابق ایجوکیشن مینجمنٹ و انفارمیشن سسٹم (ای ایم آئی ایس) سکولوں میں اساتذہ اور طالب علموں کی مستقل بنیادوں پر حاضری یقینی بنانے کے لیے ’’ان پر نظر‘‘ رکھے گا۔ 
وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے مشیر برائے تعلیم سردار رضامحمد بریچ کہتے ہیں:’’ ہمارا مقصد صوبے سے نقل کے رجحان کو جڑ سے اکھاڑنا ہے کیوں کہ بہت سے باصلاحیت طالب علم نقل کرکے تعلیم حاصل کرنے کے باعث مقابلے کے امتحانات میں شریک ہونے کے اہل نہیں رہتے۔‘‘
جنوری 2014ء میں صوبہ میں اس وقت تعلیمی ایمرجنسی نافذ کردی گئی تھی جب وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں امتحانی مراکز کا دورہ کیا تھا اور طالب علموں کو امتحانات کے دوران نقل کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ امتحانی مراکزکے باہر موجود لوگ امتحانات دینے والے طالب علموں کو ’’مدد‘‘ فراہم کررہے تھے‘ یہ پیشِ نظر رہے کہ دفعہ 144کے تحت امتحانی مراکز کے قرب وجوار میں غیر متعلقہ افراد کی موجودگی پر پابندی عاید ہے۔ 
سردار رضا محمد بریچ نے کہاکہ ای ایم آئی ایس کے تحت طالب علموں اور اساتذہ کے کوائف جمع کیے جانے کے علاوہ ان کو کمپیوٹرائزڈ کیا جائے گا جس کے باعث طالب علم اور اساتذہ کی حاضری کے تناسب میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ امتحانی مراکز میں کیمرے نصب کرکے سکولوں میں امتحانی عمل کی نگرانی بھی کی جائے گی۔
سردار رضا محمد بریچ نے مزید کہا:’’ ہم اساتذہ کو میرٹ پر بھرتی کرنے کے لیے نیشنل ٹیسٹنگ سروس کی خدمات حاصل کررہے ہیں۔ اساتذہ کی میرٹ پر بھرتی سے سکولوں میں تعلیم کا معیار بہتر ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی سکولوں میں بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے بھی کام کیا جارہا ہے اور ان علاقوں میں سکول قائم کیے جارے ہیں جہاں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔‘‘
امتحانات کے دوران نقل پر پابندی کا قانون صوبے کے طول وعرض میں نافذ ہوگا۔
شعبۂ تعلیم میں کام کرنے والی ایک پاکستانی تنظیم الف اعلان کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کے دو تہائی طالب علم سکول نہیں جاتے۔ 
بلوچستان میں تعلیم کے حالات پر الف اعلان کی جانب سے جاری کیے جانے والے حقائق نامے کے مطابق:’’ بلوچستان میں پانچ سے 16برس تک کی عمر کے بچوں کی تعداد 27لاکھ ہے جن میں سے 18لاکھ یعنی 66فی صد اور بالخصوص لڑکیاں زیادہ عرصہ تک اپنا تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ پاتیں۔ پرائمری کی سطح پر بچیوں کے داخلے کا تناسب 35فی صد ہے جو مڈل میں کم ہوکرنو فی صد اور ہائی سکول میں آکر صرف چار فی صد رہ جاتا ہے۔‘‘
سابق وزیرِ تعلیم مولانا عبدالوہاب صدیقی نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میرا نہیں خیال کہ ’’نقل کیے جانے کے رجحان پر قابو پانے‘‘ کی مہم کے ہمارے نوجوانوں ( طالب علموں) پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے کیوں کہ معیارِ تعلیم ناقص ہے اور خاص طور پر سکولوں میں لیبارٹریاں اور صاف پانی کی سہولیات دستیاب نہیں ہیں جب کہ اساتذہ اکثر و بیش تر غیر حاضر رہتے ہیں۔‘‘
انہوں نے استفسار کیا کہ تعلیم کی فراہمی کے لیے بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث طالب علم جوابی پرچے پر کیا تحریر کریں گے؟
مولانا عبدالوہاب صدیقی نے مزید کہا:’’ موجودہ حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے بجٹ کا 24فی صد حصہ تعلیم کے لیے مخصوص کیا ہے لیکن فی الحال بلوچستان کے گنجان آباد علاقوں میں لڑکے و لڑکیوں کے لیے نئے سکول، کالج اور حتیٰ کہ پوسٹ گریجویٹ کالج تعمیر ہونا ہیں۔ بقیہ تعلیمی اداروں ( دورافتادہ اضلاع میں) کو بھی نگرانی کے نظام میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
گزشتہ ماہ مارچ میں وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی قیادت میں بلوچستان حکومت کے محکمۂ تعلیم نے ایک آگاہی واک کا انعقاد کیا تھا۔ واک میں بلند کیے جانے والے نعروں میں ’’امتحانات میں نقل کیے جانے کا رجحان نامنظور‘‘ اور ’’ خدا حافظ نقل‘‘ شامل تھے۔ 
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنی ایک تقریر میں اپنے اس وعدے کو ایک بار پھر دہرایا جو انہوں نے گزشتہ برس کیا تھا کہ ان کی حکومت امتحانات میں نقل کے رجحان کا تدارک کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت ’’روشن مستقبل کے لیے‘‘ نوجوان نسل کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے تعلیمی نظام میں اصلاحات کرے گی۔
گزشتہ ماہ صوبے کے اہم ترین اخبارات میں ایک اشتہار شایع ہوا تھاجس میں کہا گیا تھا:’’ نقل کرنے کا رجحان ناقابلِ قبول ہے‘‘ اور ’’ نقل کیے جانے کے رجحان پر قابو پانا موجودہ حکومت کی ترجیح ہے‘‘۔
ان اشتہارات میں مزید کہا گیا تھا :’’ امتحانات کے دوران نقل کیے جانے کے رجحان کے مقابل نوجوان بے بس ہوجاتے ہیں جس کے باعث ان کے علاقائی و صوبائی قوم پرستی کے جذبات بھی متاثر ہوتے ہیں۔‘‘
ماہرِقانون اور بچوں کے حقوق کی کارکن سلمیٰ بلوچ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میَں نے حال ہی میں براہوی علاقوں جیسا کہ خضدار کا دورہ کیاجہاں سکولوں کے کمروں میں مویشی رکھے گئے تھے اور کچھ سکول رہائش کے طور پر استعمال کیے جارہے تھے۔ کوئی استاد یا طالب علم موجود نہیں تھا۔حتیٰ کہ شہر کے وسط میں بچوں کے لیے ناگزیر سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔‘‘
سلمیٰ بلوچ نے استفسار کیا:’’ کوئٹہ میں نقل کیے جانے کے رجحان پر قابو پانے کے لیے ا قدامات کا کیا جانا درست ہے لیکن کیا وزیراعلیٰ یا ان کے مشیر برائے تعلیم بلوچستان کے اضلاع میں تعلیم کے حالات سے آگاہ ہیں؟ان اضلاع اور دور افتادہ علاقوں میں سکولوں کے اساتذہ تدریس کے فرائض انجام نہیں دیتے۔ ان حالات میں طالب علموں کو نقل کرنے سے کس طرح روکا جاسکتا ہے جب یہ غیرمؤثر تعلیمی نظام میں ڈگری حاصل کرنے کا واحد طریقہ رہ جاتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ پورا بلوچستان نہیں ہے اوراس جانب توجہ مبذول کروائی کہ حکومت کو پورے صوبے پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔
سلمیٰ بلوچ نے مزید کہا:’’ دور دراز کے علاقوں میں کوئی تعلیمی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔ لڑکیاں ان حالات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں کیوں کہ ان کو سماجی دباؤ کے باعث سکول جانے سے روک دیا جاتا ہے۔دوسری جانب حکام کی جانب سے بچوں کو معیاری یا بنیادی تعلیم کی فراہمی کے لیے کوئی کوشش کی جاتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔ظاہر ہے کہ ناقص تعلیم حاصل کرنے والے بچے امتحانات نہیں دیں گے۔ یہ وہ رجحان ہے جس کے باعث ہم نئی نسل کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے میں دیگر صوبوں سے پیچھے رہ جائیں گے۔ نقل کیے جانے کے رجحان پر پابندی عاید کرنا اس مسئلے کا واحد حل نہیں ہے۔‘‘
ماڈل ہائی سکول چمن کے 17برس کے طالب علم نجیب اللہ نے حال ہی میں جماعت دہم کے امتحانات دیے ہیں‘ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بار امتحانات انتہائی مشکل تھے۔ 
انہوں نے کہا:’’ میَں نے پیش تر جوابی کاپیوں کو خالی چھوڑ دیا کیوں کہ سوالنامے میں پوچھے گئے سولات پڑھائے نہیں گئے تھے۔ہم نصاب مکمل نہیں کرپائے تھے لیکن سوالات میں پورے نصاب کا احاطہ کیا گیا تھا جس کے بارے میں قبل ازیں آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔‘‘
ماڈل ہائی سکول فار گرلزچمن میں زیرِتعلیم جماعت دہم کی طالبہ نادیہ خان خوش ہیں کیوں کہ انہوں نے امتحانات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا:’’ میں نے سخت محنت کی اور باقاعدگی سے سکول جاتی رہی جس کے باعث اس بار بھی امتحانات اچھے ہوئے۔ نقل کرنے پر پابندی کے باعث اب کوئی طالب علم محنت کیے بغیر پاس نہیں ہوسکے گا۔میں حکومت سے درخواست کروں گی کہ وہ اس ضمن میں اپنا دباؤ برقرار رکھے ‘اور پریقین ہوں کہ طالب علم اگلے برس امتحانات کے لیے سخت محنت کریں گے۔‘‘
سائنس کالج کوئٹہ میں ایف ایس سی کے طالب علم 20برس کے سمیع اللہ نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پبلک لائبریری میں مطالعہ کی غرض سے آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جن کی بڑی تعداد ایف ایس سی و ایف اے کے امتحانات کی تیاری کے لیے لائبریری کا رُخ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا:’’وہ آگاہ ہیں کہ بلوچستان کی حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کیے جانے کے باعث اس بار ان کے لیے امتحانات میں نقل کرنا آسان نہیں ہوگا۔‘‘
جمعیت طلباء پاکستان سے منسلک عبدالوحید کاکڑ نے کہاکہ اساتذہ کی بھرتی چوں کہ سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہے جس کے باعث وہ اپنی ملازمت برقرار رکھنے کے لیے سیاسی وفاداریوں کو بروئے کار لاتے ہیں‘ ان حالات میں ہم تبدیلی کی کوئی امید نہیں کرسکتے۔‘‘
سکول کی ایک استانی نرگس کاکڑ نے کہا:’’ حکومت کی جانب سے نقل کیے جانے کے رجحان کے تدارک کے لیے مچائے گئے اس تمام تر شورشرابے کے باوجود سکولوں میں امتحانی مراکز میں بچیاں نقل کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ طالب علموں کو جب تک امتحانات سے قبل پڑھایا نہیں جائے گا‘ ہم نقل کیے جانے کے رجحان پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوپائیں گے۔ اس حوالے سے آگاہی مہم شروع کی جائے اور تعلیم کی فراہمی کو اولین ترجیح دی جائے۔ میَں یہ وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ اس وقت کوئی نقل نہیں کرے گا جب ایک طالب علم یا طالبہ یہ جانتا یا جانتی ہوگی کہ ان کو کمرۂ جماعت میں استاد کی موجودگی میں پڑھایا گیا ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here