اسلام آباد ( رحمت محسود سے) پاکستان کے نجی سکولوں کی فیس میں ’’غیر معمولی‘‘ اضافے کے باعث والدین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
انکم ٹیکس گروپ سے منسلک گریڈ 19کے سی ایس پی افسر، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر کیوں کہ سرکاری ملازمین کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے،نے کہا کہ جب نجی سکولوں کی ایک بڑی چین کی انتظامیہ نے ان سے ان کے دو بچوں کی دو ماہ کی ایک لاکھ روپے فیس جمع کروانے کے لیے کہا تو انہوں نے ان سے کہا کہ وہ ان کو بچوں کو سکول سے نکال دیں۔
مذکورہ افسر نے سکول انتظامیہ سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا:’’ میں آپ (سکول انتظامیہ ) کو ایک لاکھ روپے فیس ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔اور مہربانی کرکے میرے بچوں کو سکول سے نکال دیں۔‘‘ یہ گفتگو نیوز لینز پاکستان نے بھی سنی۔
بعدازاں نالاں افسر نے اپنے تفصیلی انٹرویو میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ مایوس ہوچکے ہیں کیوں کہ سکول انتظامیہ ہر ماہ اُن کے بچوں سے موسیقی کی تقریب، پکنک پارٹی، نئے سال کی پارٹی اور والدین کے دن کی پارٹی کے لیے فیس ادا کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’ میرے نقطۂ نظر میں نجی سکول پیسہ بنانے والی مشینیں بن چکے ہیں اور فیسوں میں اضافے کے باعث پاکستان میں شعبۂ تعلیم بہ ظاہر یرغمال بن چکاہے۔ نجی سکولوں کی اجارہ داری قائم ہوگئی ہے کیوں کہ والدین کا ایک دوسرے سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔‘‘
اسلام آباد کے ایک سرکاری سکول و کالج سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسر الطاف نوری نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری سکولوں میں میٹرک اور او لیول تک بلامعاوضہ تعلیم فراہم کی جارہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ سرکاری سکول و کالج نجی تعلیمی اداروں کی نسبت بہتر نتائج دے رہے ہیں۔‘‘
الطاف نوری نے کہا کہ سرکاری سکولوں میں زیرِ تعلیم طالب علم ہر برس ملک کے نجی تعلیمی اداروں کے طالب علموں کی نسبت بہتر نتائج دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حتیٰ کہ نجی تعلیمی اداروں کی ایک بڑی چین روٹس انٹرنیشنل سکول و کالجز کے مالک نے بھی اپنے بچوں کو سرکاری سکول میں ہی داخل کروایا ہے۔
الطاف نوری نے کہا کہ سرکاری سکولوں میں طالب علموں کی تعلیمی سرگرمیاں کے علاوہ اُن کی اخلاقی اقدار کو بہتر بنانے پر بھی خاص توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ نجی سکول جیسا کہ بیکس ہائوس، سٹی سکول، فروئبل، دی ایجوکیٹرز وغیرہ میں ’’تعلیم کی نسبت غیر نصابی سرگرمیوں پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ نجی سکول والدین کی مالی حالت کو پیشِ نظر نہیں رکھتے اور بھاری فیسیں وصول کرتے ہیں۔‘‘
ایچی سن کالج لاہور، لاہور گرامر سکول، بیکن ہائوس سکول سسٹم، دی سٹی سکول اور لکاس پاکستان میں نجی سکولوں کی پانچ بڑی چینز میں شمار ہوتے ہیں۔
اسلام آباد کے ایک سرکاری سکول سے منسلک ایک اور لیکچرار شکیل احمد نے کہا کہ وہ والدین جن کے بچے نجی تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں، وہ انتہائی دبائو میں رہتے ہیں کیوں کہ وہ روز بروز بڑھتی ہوئی فیسیں ادا نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا:’’ نجی سکولوں کی ایک چین دی فروئبل سکولز دو برس قبل اے لیول کے طالب علم سے 25ہزار روپے ماہانہ فیس وصول کررہا تھا۔‘‘ اس حقیقت سے قطعٔ نظر کہ سرکاری و نجی سکولوں کے نصاب میں کچھ خاص فرق نہیں ہے۔
پھل فروش دلاور نعیم ، جن کی دو بیٹیاں ایک سرکاری سکول میں زیرِ تعلیم ہیں ، یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے بڑے نجی سکول میں تعلیم حاصل کریں لیکن وہ اس قدر بھاری فیس ادا نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا:’’جب معقول آمدن کے باوجود لوگ اپنے بچوں کو نجی سکولوں میں نہیں پڑھا سکتے توایک عام آدمی بچوں کو اچھی تعلیم سے آراستہ کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘
40برس کے سلیم عباسی راولپنڈی میں گارمنٹس سٹور چلاتے ہیں، انہوں نے اپنے تین بچوں کونجی سکول سے نکال کر سرکاری سکول میں داخل کروایا ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’میں ایجوکیٹر سکول میں ایک بچے کی ماہانہ تین ہزار روپے فیس ادا کیا کرتا تھا جب کہ سرکاری سکول میں بچوں کی کوئی فیس نہیں ہے۔‘‘
پنجاب حکومت اور آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن (اے پی پی ایس ایف) و ایلیٹ سکولوںکی نمائندہ تنظیم پاکستان ایجوکیشن کونسل (پی ای سی) کے درمیان فیسوں میں اضافے کے حوالے سے تنازع رہا ہے جو گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران بڑھ چکا ہے۔ اے پی پی ایس سی اور پی ای سی نے حکومت پر یہ دبائو بڑھانے کے لیے کہ وہ نجی سکولوں کے معاملات میں مداخلت نہ کرے، صوبہ پنجاب میں آٹھ اور نو مارچ کو تمام سکول بند کردیئے تھے۔
مزید برآں، اے پی پی ایس سی اور پی ای سی نے نجی تعلیمی اداروں کے بل کے خلاف احتجاج بھی کیا جس کے تحت نجی سکول پانچ فی صد سالانہ سے زیادہ فیس نہیں بڑھا سکتے لیکن اگر وہ(نجی سکول) فیس بڑھانے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں تو ان کو اس کے لیے حکومت سے اجازت لینا ہوگی۔
اسلام آباد کے ایک نجی سکول میں زیرِتعلیم تین بچوں کے والد ابراہیم انیس نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ والدین کی اکثریت نجی سکولوں کی جانب سے فیسوں میں اضافے پر پریشان ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ والدین کے لیے اجتماعی طور پر اپنی آوازبلند کرنے کے لیے کوئی پلیٹ فارم موجودنہیں ہے۔
آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن (اے پی پی ایس ایف) کے صدر کاشف مرزا نے ای میل پر بات کرتے ہوئے کہا:’’ اے پی پی ایس ایف پنجاب پرائیویٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز (پروموشن اینڈ ریگولیشن) بل (ترمیم شدہ) 2015ء کو رَد کرتی ہے۔انہوں نے کہا:’’یہ بل پنجاب اسمبلی نے منظور کیا تھا۔‘‘
نیوز لینز پاکستان کو اے پی پی ایس ایف سے موصول ہونے والی دستاویز میں یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان بھر کے 50فی صداور پنجاب بھر کے 60فی صد طالب علم نجی سکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔
اس دستاویز میں کہا گیا ہے:’’ پاکستان بھر میں 173,110نجی سکول قائم ہیں جن میں تقریباً 23,839,431طالب علم زیرِتعلیم ہیں۔‘‘
اس دستاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ ان سکولوں میں 15لاکھ اساتذہ کام کررہے ہیں۔ کاشف مرزا کہتے ہیں کہ حکومت نجی سکولوں کے ساتھ ایک کاروباری ادارے کے طورپر پیش آتی ہے جو 33فی صد انکم ٹیکس، 17فی صد جی ایس ٹی، تین فی صد سپر ٹیکس، چھ فی صد سوشل سکیورٹی اور اپنی پراپرٹی پر عاید ہونے والی بھاری بھرکم کمرشلائزیشن فیس بھی ادا کرتے ہیں۔
تاہم ابراہیم انیس کہتے ہیں کہ حکومت کے متعلقہ محکمے جیسا کہ محکمۂ تعلیم ’’ نجی سکولوں کی طاقت ور مافیا‘‘ کے خلاف کارروائی کرنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے۔
پی ای سی کے نمائندے کامران ملک نے رابطہ کرنے پر کہا کہ پنجاب حکومت نے مذکورہ بل 2015ء نجی سکولوں کے معاملات کا جائزہ لینے کے لیے قائم کمیٹی کی جانب سے تجویز کی گئی ترامیم کے بغیر ہی منظور کرلیا۔
انہوں نے مزید کہا:’’حکومت نے بل پاس کرتے ہوئے نجی سکولوں کی جانب سے فیس کے معاملات کے حوالے سے پیش کی گئی تجاویز کو پیشِ نظر نہیں رکھا۔‘‘
کامران ملک کا کہناتھا:’’ حکومت نے یہ بل زمینی حقیقتوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے پاس نہیں کیا۔‘‘
نجی سکولوں کی نمائندہ دونوں تنظیموں نے خبردار کیا کہ اگر حکومت قانون میں ترمیم اوراس میں ان کے تحفظات کو شامل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک ماہرِ تعلیم مجیب شیخ نے کہا کہ حکومت اور نجی سکولوں کی تنظیم کے درمیان جاری حالیہ تنازع سے صرف والدین اور ان کے بچے ہی متاثر ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ حکومت کو نجی سکولوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کے حوالے سے مناسب حکمتِ عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ پسماندہ علاقوں میں والدین کے لیے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے نجی سکولوں میں داخل کروانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔‘‘
لیکن کاشف مرزا کہتے ہیں کہ نجی سکولوں کی فیس میں اوسطاً10سے 12فی صد کے درمیان اضافہ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مثال کے طورپر اگست، ستمبر 2015ء کی فیس میںاضافہ درحقیقت طالب علموں کے پری پرائمری سے پرائمری ، پرائمری سے مڈل، یا مڈل سے سکینڈری یا پھر ہائر سکینڈری کی سطح پر جانے کے باعث کیا گیا۔
مذکورہ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ملک میں قائم 173,000نجی سکولوں نے پرائیویٹ شعبہ میں سب سے زیادہ خواتین کو ملازمت دے رکھی ہے۔
پنجاب کے وزیرِ تعلیم رانا مشہود سے اس حوالے سے رابطہ کرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں لیکن انہوں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
تاہم کاشف مرزا نے خبر دار کیا کہ اگر حکومت مثبت اقدامات کرنے میں ناکام رہتی ہے تواس کے نجی تعلیمی اداروں اور خاص طور پر طالب علموں پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔