پشاور (شیراز اکبر سے) آرمی کے ریٹائرڈ افسر شفیق خان کبھی اس بارے میں درست طور پر جانا کرتے تھے کہ ان کو کس دکان میں جانا ہے اور پشاور کی یونیورسٹی روڈ پر کہاں اپنی گاڑی پارک کرنی ہے،وہ کہتے ہیں کہ اب وہ اکثر و بیش تر یہ محسوس کرتے ہیں کہ دکانوں اور کاروباری مراکز کی تعداد میں کمی آئی ہے کیوں کہ شہر کی سڑکوں کے اطراف میںجابجا عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں۔
وہ کہتے ہیں:’’ ایک وقت تھاجب عمارتیں کم تھیں جس کے باعث ان کو ایسی کسی بھی دکان کا پتہ چلانے میں مشکل پیش نہیں آتی تھی جہاں وہ جانا چاہتے تھے لیکن جس طرح بارش کے بعد مشروم اگتے ہیں اور ان کو ایک دوسرے سے الگ کرنا مشکل ہوتا ہے‘ان عمارتوں نے بھی ایک ایسا ہی چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔‘‘
 شفیق خان کی طرح کے شہری، جو ماضی کی پرسکون دنیا سے تعلق رکھتے ہیں‘یہ محسوس کرسکتے ہیں کہ وہ ایک ایسے شہر میں کھو گئے ہیں جو مسلسل بڑھ رہا ہے‘لیکن صوبائی حکام کی ترقی کے ایک اور پہلو کے حوالے سے تشویش میں روز بروز اضافہ ہورہاہے۔
بلڈرز نے شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کی کاروباری و رہائشی ضروریات پورا کرنے کے لیے کوشش کی تو پشاور میں کئی کثیرالمنزلہ عمارتیں تعمیر ہوگئیں لیکن صوبائی ڈویلپمنٹ حکام کے مطابق بلڈرز نے ان عمارتوں کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات نہیں کیے تھے اور اس حوالے سے موجود قوانین کویکسر نظرانداز کر دیا تھا۔
پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ایک افسر نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، کہا:’’ بلڈرز کی غفلت اورقوانین کی خلاف ورزی کرنے اور ایڈمنسٹریٹرز کی عمارتوں کے حوالے سے موجود بائی لاز پر عملدرآمد کروانے میں نااہلی کے باعث یہ صورتِ حال پیدا ہوئے ہیں۔‘‘
تعمیراتی قوانین، پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) کی جانب سے مرتب کیے گئے قواعد و ضوابط ہیں،جن میں دیگر شرائط کے علاوہ یہ بھی شامل ہیں کہ ہر عمارت میں گاڑیوں کے لیے ایک پارکنگ لاٹ، ہنگامی حالات میں خراج کا راستہ، آگ بجھانے اور صفائی کا مناسب اور فعال نظام اور جسمانی طورپر معذور افراد کے لیے سہولیات فراہم کی جائیں۔
حالیہ مہینوں کے دوران صوبائی حکام نے رہائشی آبادیوں میں ریستورانوں اور سکولوں کے کارو بار اور ایسی دکانوں، جنہوں نے سڑکوں اور دیگر عوامی مقامات پر غیر قانونی قبضہ کررکھا تھا، کے حوالے سے بے لچک رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ کارروائی ان کثیرالمنزلہ عمارتوں کے مالکان کے خلاف بھی کی گئی جنہوں نے اپنی عمارتوں میں پارکنگ لاٹ تو بنائے تھے لیکن وہ دکانوں یا کاروباری سرگرمیوں کے لیے استعمال ہونا شروع ہوگئے تھے جس کے باعث لوگوں کو سڑکوں پر گاڑی پارک کرنا پڑتی ہے، اس سے ٹریفک کے بہائو میں خلل پڑتا ہے اور اکثر و بیش تر حادثات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
ایمرجنسی ریسکیو سروس 1122پشاور کے کنٹرول روم کے انچارج کامران ذکاء کی جانب سے نیوز لینز پاکستان کو فراہم کی گئی دستاویزات کے مطابق سال 2015ء کے دوران مختلف مقامات پر 449مرتبہ آگ بھڑکی جن میں متعدد کثیرا لمنزلہ عمارتیں بھی شامل تھیں جس سے نہ صرف مالی بلکہ جانی نقصان بھی ہوا کیوں کہ عمارتوں کے تحفظ کے لیے کوئی انتظامات نہیں کیے گئے تھے۔
ایمرجنسی ریسکیو سروس 1122پشاور ہیڈکوارٹرز کے ڈائریکٹر آپریشنز محمد ایاز نے کہا:’’ کئی بار ایسا ہواہے کہ محدود پیمانے پر لگنے والی آگ نے آتش زدگی کا روپ دھار لیا جس سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا کیوں کہ کثرالمنزلہ رہائشی و کاروباری عمارتوں اور فیکٹریوں میں آگ بجھانے کا مناسب انتظام نہیں ہے۔‘‘
پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تعمیراتی قوانین کے تحت کاروباری اور رہائشی عمارتوںکے لیے آگ بجھانے کے آلات ، ریت کے تھیلوں کا بندوبست، ہائیڈرنٹ اور ہنگامی اخراج کے راستے قائم کرنا ضروری ہے۔
محمد ایاز کہتے ہیں:’’ شہر بھر کی ایک فی صد سے بھی کم عمارتوں میں آگ بجھانے کے انتظامات درست طور پر کیے گئے ہیں۔‘‘
تحقیقی مقالے بعنوان :’’ تعمیراتی رقبے میں اضافہ اور اس کے شہری زراعت پر اثرات: پشاور کے حوالے سے ایک کیس سٹڈی‘‘ میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا شہر ہونے کے باعث پشاور کاروباری سرگرمیوں اور دیہی و شہری ہجرت کا مرکز رہا ہے۔ شہر میں چوں کہ روزگار اور ملازمت کے دیگر مواقع موجود ہیں جس کے باعث یہ قبائلی علاقوں سے تشدد کے باعث اندرونِ ملک نقل مکانی کرنے والے شہریوں اور افغانستان کے مہاجروں کے لیے آباد ہونے کے لیے ایک ترجیحی مقام ہے۔یونیورسٹی آف پشاور کے محقق سمیع اللہ کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق اس وجہ سے ہی گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران شہر کی آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
مذکورہ تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ شہری آبادی بڑھنے کے باعث تعمیراتی سرگرمیاں ایک رُخ پر ہی بڑھتی رہی ہیں کیوں کہ تعمیراتی، کاروباری اور صنعتی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔یواین ڈیٹا کے مطابق پشاور پاکستان کا نواں سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی 1998ء کی مردم شماری کے مطابق تقریباً ایک ملین ہے۔ حال ہی میں چوںکہ کہ کوئی مردم شماری نہیں ہوئی جس کے باعث شہر کی آبادی کے حوالے سے مختلف اندازے لگائے گئے ہیں‘ حکام کہتے ہیں کہ اس وقت شہر کی آبادی 40لاکھ ہے۔ مزیدبرآں پشاور اور اس کے نواحی علاقے ، کوئٹہ اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں کی طرح افغانستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے 45لاکھ مہاجروں کا مسکن بنے ہیں جنہوں نے تشدد کے مختلف مراحل کے دوران ہجرت کی۔
 بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پشاور کے ڈائریکٹر نجیب الرحمان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ٹیمیں شہر کے مختلف مقامات پر تعمیراتی قوانین پر عملدرآمد کروانے کے لیے چھاپے مارتی رہی ہیں۔ انہوں نے کہ اکہ یہ چھاپے ضلعی انتظامیہ کی مدد سے مارے گئے۔
ڈپٹی کمشنر آفس پشاور کے افسر تعلقاتِ عامہ ساجد نواز سے جب اس بارے میں استفسارکیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایسی عمارتیں جن کی تعمیر میں پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قوانین کو نظرانداز کیا گیا ہے‘ ان سے نمٹا جائے گا۔تاہم یہ کب اور کیسے کیا جائے گا؟ اس حوالے سے انہوں نے کوئی منصوبہ نہیں بنایا۔
وہ کہتے ہیں:’’ اس وقت ہم نے عمارتوں میں صرف پارکنگ کے مسائل کی جانب توجہ مرکوز کررکھی ہے جو نہ صرف ایک بڑا مسئلہ ہے بلکہ اس سے ٹریفک کے بہائو میں بھی خلل پڑتا ہے۔ ہم یہ بھی یقینی بنا رہے ہیں کہ عمارتوں میں مخصوص مقامات پر بلامعاوضہ پارکنگ کی سہولت فراہم کی جائے جیسا کہ قانون میں کہا گیا ہے۔‘‘
پشاور کی وہ آبادیاں ،جہاں پر گزشتہ چند برسوں کے دوران کاروباری سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے،ورسک روڈ بھی شامل ہے۔مراد علی، ورسک روڈ پر ایک دومنزلہ عمارت کے مالک ہیں،کہتے ہیں کہ وہ عمارت کی بیسمنٹ میں قائم پارکنگ کے لیے مخصوص جگہ کودکانوں میں تبدیل کرچکے ہیں کیوں کہ یہ پارکنگ کے لیے استعمال نہیں ہورہی تھی۔
  انہوں نے کہا:’’ لوگ اپنا وقت بچانے کے لیے عمارتوں کے باہر ہی گاڑی پارک کردیتے ہیں۔‘‘
لوگوں کی جانب سے پارکنگ کے قوانین کی خلاف ورزی کے علاوہ عمارتوں کے مالکان اور بلڈرزبھی اس حوالے سے لاپرواہی برتتے ہیں جس کے باعث بڑے پیمانے پر ٹریفک کے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر پشاور کے اندرونِ شہر کے رہائشی صدام خان کہتے ہیں:’’ پارکنگ کے مسائل سے نمٹنے کے لیے پرہجوم اندرونِ شہر میں متعدد کثیرالمنزلہ پارکنگ پلازے تعمیر کرنے کی شدید ضرورت ہے۔‘‘
 ان عمارتوں کی ایک بڑی تعداد میں جسمانی طور پر معذور افراد کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوئی انتظامات نہیں کیے گئے۔
سجاد احمد، پولیو وائرس کے باعث اپنی دونوں ٹانگوں سے معذور ہوچکے ہیں، کہتے ہیں:’’ میں شہر بھر میں اپنی الیکٹرک چیئر پر آزادانہ طور پر گھوم پھر سکتا ہوں لیکن جب کثیر المنزلہ عمارتوں کا رُخ کرنا ہو تو مجھے دوسروں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے ایسی عمارتوں میں داخل ہونے اور باہر نکلتے ہوئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here