لاہور (دردانہ نجم سے) رواں برس 20جنوری کو ہزاروں افراد پر مشتمل مشتعل ہجوم نے ایک سکیورٹی گارڈ کی جانب سے قرآن حکیم کی مبینہ بے حرمتی پر جہلم میں پاکستان چپ بورڈ فیکٹری پر دھاوا بولا اوراسے راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔یہ پاکستان میں توہینِ مذہب کو جواز بناتے ہوئے تشدد کا اولین واقعہ نہیں ہے۔
قومی کمیشن برائے امن و انصاف کے اعداد و شمار کے مطابق 1987ء سے اب تک توہینِ مذہب کے قوانین کی مختلف دفعات کے تحت 633مسلمان، 494احمدی، 187مسیحی اور 21ہندوئوں کوتوہینِ مذہب کے تحت مختلف مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں فرقہ ورانہ تشدد کوئی نیا بیانیہ نہیں ہے۔ملک کی شیعہ، احمدی، مسیحی اور ہندو آبادی اکثر و بیش تر اپنے مذہبی عقائد کے باعث بدترین تشدد کا نشانہ بنتی رہی ہے۔
ایف سی یونیورسٹی، لاہور کے سنٹر فار پبلک پالیسی اینڈ گورننس ( سی پی پی جی) کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر سعید شفقت یہ یقین رکھتے ہیں کہ انتہا پسند ملائوں کی جانب سے خودساختہ طور پر اقلیتوں کی جائیدادوں ، عبادت گاہوں اور ان کا خون بہانا درست خیال کیا جاچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بہت سے مواقع پر مذہبی جذبات کو جان بوجھ کر مذہبی اقلیتوں کے خلاف بھڑکایا گیا۔
ڈاکٹر سعید شفقت کا مزید کہنا تھا:’’ ضیاء الحق کے دور میں توہینِ مذہبِ کا قانون متعارف کروایا گیا جس میں بعدازاں نواز شریف کے دورِ حکومت میں ترامیم کرتے ہوئے عمر قید اور سزائے موت بھی بالترتیب شامل کر دی گئیں اور اب یہ قانون ذاتی دشمنیوں میں بطور ایک حربہ استعمال ہورہا ہے۔‘‘
احمدی کمیونٹی یہ یقین رکھتی ہے کہ جہلم کا واقعہ درحقیقت ان کے خلاف نفرت کو فروغ دینے کی ایک منظم سازش تھی۔ احمدیہ ٹائمز کے چیف ایڈیٹر عمران جٹالہ نے اس حملے کے بعد اپنے ٹوئیٹ میں اس کی ذمہ داری پاکستان علما کونسل کے سربراہ مولانا طاہر اشرفی اور ان کے خطیب بھائی حسن معاویہ کی نفرت انگیز تقاریر پر عاید کی جو احمدیوں کے خلاف توہینِ مذہب کے خلاف تشدد کے ہر واقعہ میں ملوث ہوتے ہیں۔ انہوں نے 23نومبر کو اپنے ٹوئیٹ میں لکھا:’’ جہلم کا وقوعہ مولانا طاہر اشرفی کے ان اشتعال انگیز بیانات کے باعث پیش آیاجو وہ عرصۂ دراز سے احمدی کمیونٹی کے خلاف دیتے آرہے ہیں۔‘‘
مولانا طاہر اشرفی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے احمدیوں پر الزام لگایا کہ ان کو ایسی ہی مشکلات کا سامنا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی معقول وجہ نہیں کہ احمدی خود کو مسلمان کہیں کیوں کہ آئینی طور پر ان کے مذہب کا تعین ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ احمدی کمیونٹی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مواد تقسیم کرتی رہی ہے۔
عمران جٹالہ کہتے ہیں:’’ یہ مدِنظر رکھنا انتہائی اہم ہے کہ معروف ترین سکالرز اور دانش وروں جیسا کہ سید احمد شہید بریلوی، علامہ اقبال، مولانا مودودی وغیرہ نے کبھی احمدیوں کوخدائے کریم کے انبیاء کرام کا گستاخ تصور نہیں کیا تھا۔ یہ آنے والے برسوں کے علمائے کرام ہیں جیسا کہ مولانا طاہر محمود اشرفی اُس نفرت انگیز بیانیے سے الفاظ کا چنائو کرتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘
جہلم میں جبر کی جو تاریخ رقم کی گئی، وہ فیکٹری کو نذرِ آتش کرنے سے ہی ختم نہیں ہوجاتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ علاقے میں احمدی کمیونٹی کی دو عبادت گاہوں پر سنی ملائوں نے قبضہ کررکھا ہے جنہیں مساجد بھی قرار دے ڈالا ہے۔ ایک مسجد کا نیا نام ’’ اللہ والی‘‘ رکھا گیا ہے جس کے باہر ختمِ نبوت زندہ آباد کا نعرہ بھی کندہ کیا گیا ہے۔
نیوز لینز پاکستان نے جب ڈسٹرکٹ پولیس افسر جہلم مجاہد اکبر سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے ان دعوئوں کی تردید کی کہ سنی ملائوں کی جانب سے کسی بھی مسجد پر قبضہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ توہینِ مذہب چوں کہ ایک حساس معاملہ ہے جس کے باعث پولیس نے بروقت مجسٹریٹ کی خدمات حاصل کیں اور ملزم قمر احمد طاہر کو حراست میں لے لیا جو فیکٹری کا سکیورٹی گارڈ ہے۔
انہوں نے ایک بار پھر اس الزام کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ پولیس کی کوتاہی تھی جس کے باعث یہ صورتِ حال پیش آئی۔ انہوں نے کہا کہ جب یہ سانحہ وقوع پذیرہوا تو عملہ ناکافی تھا۔
مجاہد اکبر نے مزید کہا:’’ میری پولیس فورس کا ایک بڑا حصہ چکوال میں انتخابات کی سکیورٹی پر مامور تھااور خصوصی خدمات انجام دے رہا تھا۔‘‘
احمدیہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی کاروباری برادری ایک اور نقطۂ نظر پیش کرتی ہے۔ ایک بڑی کاروباری شخصیت، جو کراچی اور لاہور میں ایک بڑی پلاسٹک کمپنی کے مالک ہیں، ٹیپو (سکیورٹی وجوہات کے باعث اصل نام ظاہر نہیں کیا جارہا)خوف زدہ ہیں کہ اُن کا مستقبل محفوظ نہیں ہے اور وہ بھی نشانے پر ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہلم کی چپ بورڈ فیکٹری کے مالک کو ملک کے سب سے بڑے ریئل سٹیٹ ٹائیکون کی جانب سے فیکٹری اور اس سے متصل اراضی فروخت کرنے کے لیے ڈرایا دھمکایاجاتا رہاتاکہ اس مقام پر ہائوسنگ سوسائٹی تعمیر کی جاسکے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ یہ کس طرح ممکن ہے کہ چند ہی لمحوں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد یکجا ہوجائے اور فیکٹری کو نذرِ آتش کر ڈالے؟ یہ سب کچھ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا جس میں نام نہاد مذہبی سکالرز ، مقامی حکومت اور ریئل سٹیٹ ٹائیکون ایک دوسرے سے تعاون کر رہے تھے۔‘‘
انسانی حقوق کمیشن پاکستان سے وابستہ وکیل سروپ اعجاز کہتے ہیں کہ پہلی بار ایسا نہیں ہوا جب توہینِ مذہب کے باعث اقلیتوں کی جائیداد یا زندگیاں خطرات کی زد پر آئی ہیں اور نہ ہی ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی خطیب نے مذہب کے نام پر لوگوں کے جذبات کو بھڑکایا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب ریاست کی جانب سے ایک سازگار ماحول فراہم کیا گیا ہے کہ کوئی بھی عمارتوں یا فیکٹریوں کو نذرِ آتش کرنے کے لیے جذبات ابھار سکتا ہے تو نفرت کا فروغ نسبتاً آسان ہوجاتا ہے۔ سروپ اعجاز مزید کہتے ہیں کہ ریاست اور اس کے قوانین میں خامیاں موجود ہیں۔ تعزیراتِ پاکستان اقلیتوںاور خاص طور پر احمدیوں کے خلاف تعصب پرمبنی ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’جدید دنیا میں ایسی معدودے چند مثالیں ہی ڈھونڈنے سے ملتی ہیں جب ریاست لوگوں کے کسی گروہ کے خلاف فریق بنی ہو۔‘‘
سروپ اعجاز کا کہنا تھا:’’ اس کا دارو مدار طاقت پر ہے۔ مذہبی تنظیموں سے منسلک کارکن آسانی کے ساتھ بلوئوں پر انحصار کرسکتے ہیں کیوں کہ اُن کو ریاست کی آشیرواد حاصل ہوتی ہے جس کے باعث اقلیتوں کے خلاف توہینِ مذہب کے الزامات کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ریاست طاقت ور مذہبی تنظیموں کو نفرت کی آبیاری کے لیے سازگارماحول فراہم کر رہی ہے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ اہلِ سنت مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے خطیب کی جانب سے احمدیوں پر عاید کیے جانے والے نفرت انگیز مواد شایع کرنے کے الزامات اگر درست ہیں تو اس صورت میں عدالت کے روبرو شواہد پیش کرنے کی ضرورت ہے ‘خاص طور پر جب قومی ایکشن پلان کے تحت بہت سے لوگوں کو نفرت انگیز مواد پھیلانے پر سزائیں دی جارہی ہیں۔سماج میں مذہب کے نام پر جنگ شروع کرنے سے صرف عدم رواداری میں ہی اضافہ ہوگا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریاست کو یہ حکم جاری کیا تھا :’’ وہ اس نوعیت کے جرم میںبے گناہ لوگوں کوغلط الزامات یادھوکہ دہی کے تحت تفتیش یا مقدمات کا سامنا نہ کرنے کے عمل کو یقینی بنائے۔‘‘
سروپ اعجاز نے مزید کہا کہ ریاست کو عدالت کے اس حکم کے بعد یہ موقع ملا ہے کہ وہ توہینِ مذہب کے قانون میں سنجیدہ نوعیت کی ترامیم کرے۔