رپورٹ : (عرفان اطہر منگی) پاکستان صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے ۔ صحافیوں کاکہنا ہے کہ انھیں پیشہ وارانہ امور کی انجام دہی کے سلسلے میں حادثات کی رپورٹنگ کے لیے بھیجا تو جاتا ہے لیکن ان کی حفاظت کے لیے کوئی خصوصی انتظامات نہیں کیے جاتے اور صحافی خود ہی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنی حفاظت سے لاپرواہ رہتے ہیں۔
جیو نیوز ٹیلی ویژن سے وابستہ کرن خان کا کہنا ہے کہ “محرم الحرام کے دن چل رہے تھے۔اس وقت گورنر سندھ عشرت العباد تھے اور گورنر ہاؤس میں علماکرام کا اجلاس تھا وہاں سے میں واپس ہی آرہی تھی۔اس دن موڈ اچھا تھا تو نیوز روم کے ساتھیوں کےلیے سموسے اور جلیبی لیکر گئی تھی۔ آفس میں علما کانفرنس پر پیکج تیارہی کررہی تھی ۔ کہ اچانک اطلاع ملی کہ اورنگی ٹائون نمبر پانچ میں دھماکا ہوا ہے امام بارگاہ کے سامنے تو مجھے بیورو چیف نے کہاکہ کرن آپ جو ہے وہ عباسی شہید ہسپتال چلی جائیں جہاں پر زخمیوں اور ڈیڈ باڈیز کو لایا جارہاہے۔میں آفس سے نکل گئی ابھی راستے میں ہی تھی کہ کال آئی کہ جو ہمارے کرائم رپورٹر ہے وہ رش اور ٹریفک میں کہیں پھنس گئے ہیں اور وہ بر وقت اسپاٹ پر پہنچ نہیں پائیں گے تو آپ وہاں دھماکے والے جگہ پر چلی جائیں۔تو اس دن میں ڈائریکٹ اسپاٹ پر پہنچی۔ یہ دھماکا 21 نومبر 2012 کو ہوا تھا۔وہ اورنگی ٹائون پانچ نمبر کی امام بارگاہ تھی جس کے سامنے رکشے کے اندر دھماکاہوا تھا ۔اس دھماکے میں پانچ چھ لوگ جاں بحق ہوگئے تھے۔ یہ ایک بڑا دھماکا تھا ۔ خیرہم وہاں پہنچے ساری ٹیمز پہنچ گئیں۔ ریسکیو ، رینجرز و پولیس والوں نے دھماکے والی جگہ کو بند کر رکھا تھا۔ چوہدری اسلم ،راجہ عمر خطاب سی ٹی ڈی ،ایس آئی یو سارے یونٹس جتنے بھی تھے وہ آئے انہوں نے چیک کیا پھر انہوں نے اس ایریا کو سیکیورٹی کے حصار میں لے لیا۔
دوایریاز کی کلیئرنس ہوچکی تھی۔ابھی ہم وہی پر موجود تھے میں فون پر ہیڈ آفس لاہور سے بات کررہی تھی کیونکہ دنیانیوز کا ہیڈ آفس لاہور میں ہے اور اس وقت میں دنیانیوز میں کام کررہی تھی۔
مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے ایک دکان کے سامنے بیرکس تھی۔ ۔اس کےبعد انھوں نے اس ایریا کو حصار میں لے لیا تھا ۔چونکہ میں فون پر تھی مجھے اندازہ نہیں ہوا ۔ میں اس مقام کے بہت قریب آچکی تھی اچانک سے ایک اوردھماکا ہوا اس لمحے اس وقت مجھے صرف دھماکے کی آواز آئی۔اس وقت اس لمحے میرے ذہن میں میری فیملی تھی اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اب وقت آگیا ہے مجھے جانا ہوگا ۔اورمیں بے ہوش ہوگئی۔”
ان کا مذید کہنا تھا کہ “اس حادثے سے میں نے یہ سیکھا کہ ہم اپنی سیفٹی کا خیال نہیں رکھتے جو کہ ہمیں کرنا چاہیے نا گہانی کو نہیں روکا جاسکتا ۔بہتر یہی ہے جو ایریا سیکیورٹی کے حصار میں ہو۔ کوشش کریں اس سے دور ہی رہے۔اور کلینرنس کے بعد بھی کبھی یہ نہ سمجھے وہ ٹھیک ہے یا صحیح ہے میں نے یہ بھی جانا جب آپ خبر دینے جارہے ہوتے ہیں تو آپ نے خبر دینی ہے آپ کو خبر بننا نہیں ہے”۔
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹر ود آؤٹ بارڈر (آر ایس ایف)کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 20 برس کے دوران دنیا بھر میں 16ہزار 68 صحافی دوران ڈیوٹی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سالانہ صحافیوں کے مرنے کی تعداد اوسط 80 رہی ۔
پی پی ایف کے دستاویز کے مطابق سال 2002 سے لیکر اب تک پاکستان میں 76 صحافی قتل ہوئے ۔ سندھ میں 18 ، بلوچستان میں 21، خیبرپختونخواہ میں 29 اور پنجاب میں 5 اور دارالحکومت اسلام آباد تین صحافی مارے گئے۔
نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی سمیرا خان کہتی ہیں کہ “جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو تمام چینلز کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ سب سے پہلے خبر دے۔ تواس میں سیفٹی اور اپنا خیال رکھنا جیسی باتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے واقعے کی پہلے فوٹیج اور خبر چاہیے بس۔
ادارے کمرشل بنیادوں پر کھولے جاتےہیں کوئی نظریات یا سوچ کے تحت نہیں اس میں سرمایہ دار نے جو پیسے لگائے ہوتےہیں وہ ان سے ذیادہ کمانے کے چکر میں ہوتےہیں ۔ اس لیے انکا سیفٹی جنرل ازم پر دھیان کم بلکہ ہوتا ہی نہیں ہے۔
سیفٹی کے لیے ادارے کی جانب سے اگر بہتر ہدایات نہیں ملتی ہیں پھر بھی ہمیں خود اپنی حفاظت کرنی ہوتی ہے۔”
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2022 میں 5 پاکستانی صحافیوں سمیت 68 صحافی اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران قتل کردیے گئے۔
ہم نیوز اسلام آباد کے اسائنمنٹ ہیڈ اور سینئر پروڈیوسر غضنفر عباس کے مطابق کوئی بھی واقعہ جب رونما ہوتاہے تو بیورو کو آگاہ کیا جاتاہے کہ خبر فلاں چینل پر چل رہی ہے چیک کرلیں۔ حادثے والی جگہ پر بھیجنے سے پہلے ٹیم کو آگاہ کیا جاتاہے کہ اپنی حفاظت کو مد نظر رکھیں۔دھماکے ، فائرنگ یا آگ یا اس طرح کی واقعات میں بالکل رسک نہ لیں۔
ان کا مذید کہنا ہے کہ ” میں اپنی ٹیم کو پہلے ہی آگاہ کر دیتا ہوں کہ اس طرح کے واقعات کی دور سے ویڈیو بنائیں۔ دھماکے کی جگہ کے قریب اس وقت نہ جائیں جب تک وہ جگہ کلیئر قرار دے دی گئی ہو۔کسی بھی قسم کی امدادی کارروائی میں ہر گز رکاوٹ نہ بنیں۔خوفناک ،اذیت ناک ،فوٹیجز اور مناظر ہم نہیں دکھائیں گے کوئی تصویر لے سکتے ہیں ، اناؤسمنٹ اور نوٹ لکھ کر آن ائر ہونگے’’ہم نیوز اس سفاکانہ واردات سے پہلے کے مناظر آن ایئر نہیں کر رہا‘‘ کیونکہ مختلف عمر اور مختلف سوچ کے افراد پر ان مناظر کاممکنہ نفسیاتی اور سماجی ادراک الگ الگ ہوسکتا ہے ۔”
پولیس افسر سہائی عزیز کہتی ہیں کہ “صحافی حفاظتی اقدامات پر عمل کرتے ہیں۔یہ صحافی کی پختگی، تربیت اور تجربے پر منحصر ہے۔اس کے علاوہ بہت سے صحافیوں کو اخلاقی ضابطے کا علم نہیں ہے کیونکہ انہیں اس بارے میں کبھی نہیں بتایا جاتا، اور نیوز ڈیسک کی طرف سے فیلڈ رپورٹر کو ایک خصوصی پریشر دیا جاتاہےکہ ایکسکلوسو حاصل کرنے کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے ۔ جو اسے غیر ضروری کام کرنے پر مجبور کرتا ہے، جیسے زخمیوں کا انٹرویو لینا، سوگوار خاندانوں سے عجیب و غریب سوالات کرنا، عصمت دری/ہراساں کیے جانے والے متاثرین کی شناخت کم کرنا اور ذاتی رپورٹ کے ساتھ الجھناشامل ہے۔”
سی پی این ای کی رپورٹ کے مطابق 2022 میں صحافیوں، میڈیا ملازمین اور میڈیا تنظیموں کو میڈیا کے خلاف عدم برداشت اور تعصب کے نتیجے میں میڈیا مخالف سرگرمیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ 28 سے زائد واقعات میں 13 صحافیوں کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا، 2 صحافیوں کے گھرانوں پر حملے کیے گئے، 10 صحافیوں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے، 3 خواتین صحافیوں کو ہراساں کیا گیا۔ سندھ میں سیلاب اور متاثرین کے بارے میں حقائق پر مبنی رپورٹنگ کے معاوضے پر کیٹی بندر کے صحافی الیاس سمو کے ساتھ سندھ کے مختلف علاقوں سے متعدد صحافیوں کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا۔