ڈیرہ اسماعیل خان: وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے سینکڑوں غریب اور مستحق طالب علموں کو سکالر شپ جاری کی گئی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ انتہاپسند نظریات سے دور رہیں۔ فاٹا کے عوام کہتے ہیں، تعلیم کے ذریعے نوجوانوں کو عسکریت پسند رجحانات سے دور رکھا جا سکتا ہے۔
ایک قبائلی بزرگ محمد نور نے کہا کہ ماضی قریب میں پاکستان کے قبائلی علاقوں کے بہت سے ناخواندہ نوجوانوں نے عسکریت پسند تنظیموں میں شمولیت اختیار کی کیوں کہ وہ تعلیم یافتہ نہیں تھے۔
انہوں نے نیوزلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’تعلیم عسکریت پسندی سے چھٹکارا پانے کے لیے ایک بہترین حل ہے۔ اگر طالب علموں کو سکالر شپ جاری نہ کی جاتی تو وہ یقیناًعسکریت پسند تنظیموں میں شمولیت اختیار کرنے کے بارے میں سوچتے۔‘‘
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے جماعت نہم کے طالب علم نقیب اللہ نے کہا کہ سکالر شپ ملنے کے باعث اب ان کے والد کو ان کی فیس ادا نہیں کرنا پڑتی۔
انہوں نے کہا:’’اگر نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) یہ سکالرشپ جاری رکھتی ہے تو میں ڈاکٹر بننا چاہوں گا اور بلامعاوضہ میڈیکل کیمپ لگا کر اپنی کمیونٹی کی خدمت کروں گا۔‘‘
این ٹی ایس کے چیف آپریٹنگ آفیسر (سی ای او) ڈاکٹر شیرزادہ خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ہم نے ان طالب علموں کو ترجیح دی ہے جو غریب اور مستحق ہیں اور سکول نہیں جا سکتے۔‘‘
فاٹا ریسرچ سنٹر (ایف آر سی) کی جانب سے مرتب کیے جانے والے جرنل ’’فاٹا میں عسکریت پسندی کے تعلیم پر اثرات‘‘ کے مطابق ’’قبائلی علاقوں میں تعلیمی شعبہ طالبان کا بنیادی ہدف ہے۔‘‘
قبائلی علاقے سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان خون ریز جھڑپوں کے باعث بدامنی کا سامنا کر رہے ہیں۔ فزیشنز فار سوشل ریسپانسبلٹی (پی ایس آر) کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بھر میں گزشتہ ایک دہائی سے جاری تشدد میں کم از کم 80 ہزار پاکستانی (عسکریت پسند، سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور شہری) ہلاک ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر شیرزادہ خان نے کہا کہ کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی (سی ایس آر) کے تحت این ٹی ایس پہلے ہی ملک بھر میں اعلیٰ تعلیم کے لیے طالب علموں کو شکالر شپ جاری کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’قبائلی علاقے دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں۔ لہٰذا ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ ان علاقوں کے طالب علم سکالر شپ حاصل کرنے کے زیادہ مستحق ہیں۔‘‘
وفاقی محکمۂ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت سے منسلک ایک سینئر افسر نے، نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر، کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، این ٹی ایس کی سکالرشپس پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا:’’ہم این ٹی ایس کی جانب سے فاٹا کے مستحق اور غریب طالب علموں کو سکالرشپ دیے جانے کی دل سے تعریف کرتے ہیں۔‘‘
فاٹا سیکرٹریٹ اور بیورو برائے شماریات کی جانب سے کیے جانے والے حالیہ سروے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فاٹا میں مجموعی شرح خواندگی 33.3 فی صد ہے، جو 2013-14ء میں قومی شرح خواندگی کے حوالے سے مرتب کیے گئے اندازوں سے انتہائی کم ہے جو 58 فی صد ہے۔
اسی طرح فاٹا میں بالغوں کی شرئ خواندگی 28.4 فی صد ہے جب کہ قومی سطح پر یہ تناسب 57 فی صد ہے۔ شرح خواندگی کے تناظر میں مرد و خواتین میں نمایاں فرق ہے۔ سروے کے مطابق فاٹا کے مردوں میں شرح خواندگی 45 فی صد جب کہ خواتین میں یہ صرف 7.8 فی صد ہے۔
این ٹی ایس کے شعبۂ سی ایس آر سے منسلک اسسٹنٹ ڈائریکٹر مدیحہ اسلم نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے ان سکالر شپس کے بارے میں تفصیل فراہم کی اور کہا کہ ادارے نے فاٹا اور خاص طور پر جنوبی وزیرستان کے طالب علموں کو مجموعی طور پر 589 سکالرشپس جاری کی ہیں، اس قبائلی ایجنسی کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیوں کہ یہ عسکریت پسندی سے بدترین طور پر متاثر ہوئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ہم نے طالب علموں کی معاشی حیثیت کی سرکاری و غیر سرکاری طور پر تصدیق کی اور اس حوالے سے وزیرستان میں کام کرنے والی ایک فلاحی تنظیم محسود ویلفیئر آرگنائزیشن کی خدمات حاصل کیں۔‘‘
مدیحہ اسلم نے کہا کہ این ٹی ایس نے ملک بھر کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیرِتعلم طالب علموں کو مجموعی طور پر 1,370 سکالر شپس جاری کی ہیں۔ فاٹا کے پہلی جماعت سے ماسٹر تک کے طالب علموں کو پہلی بار اپریل 2016ء سے ایک سال کے لیے سکالر شپ جاری کی گئی ہے۔
ڈاکٹر شیرزادہ خان کہتے ہیں:’’ہم نے ابتدائی طور پر اس مقصد (سکالرشپ) کے لیے ایک کروڑ روپے جاری کیے ہیں اور ہم اس سکالرشپ کو جاری رکھیں گے۔‘‘ انہوں نے یہ زور دیا کہ این ٹی ایس نے یہ سکالرشپ جاری رکھنے کے لیے سخت شرائط وضع کی ہیں چنانچہ بہترین تعلیمی کارکردگی دکھانے والے مستحق طالب علم ہی یہ سکالر شپ حاصل کر پائیں گے۔ ڈاکٹر شیر زادہ خان نے کہا:’’جب تک یہ شرائط پوری ہوتی رہیں گی، ہم ضرورت مند طالب علموں کی مدد کرنا جاری رکھیں گے۔‘‘
وزارتِ تعلیم، ٹریننگ و سٹینڈرڈز ان ہائر ایجوکیشن پاکستان نے یونیسکو پاکستان اور یونیسیف پاکستان کے تعاون سے ’’ایجوکیشن فار آل 2015ء نیشنل ریویو رپورٹ‘‘ مرتب کی ہے۔
اس رپورٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں تعلیمی اشاریے مایوس کن ہیں، اور پرائمری سکول میں داخل ہونے کی عمر تک پہنچ چکے ایک تہائی طالب علم سکول نہیں جا رہے اور 42 فی صد آبادی (10 برس سے زائد عمر) ناخواندہ ہے۔
علاوہ ازیں، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قومی سطح پر 15 برس سے زائد عمر کی تقریباً دو تہائی خواتین لکھ اور پڑھ نہیں سکتیں اور 35 فی صد لڑکیاں سکول نہیں جا رہیں۔ پرائمری کی سطح پر صنفی فرق 0.82 فی صد ہے۔ یہ اندازہ مرتب کیا گیا ہے کہ 67 لاکھ بچے سکول نہیں جا رہے اور ان میں سے اکثریت لڑکیوں (62 فی صد) پر مشتمل ہے۔
دستاویزات کے مطابق این ٹی ایس جولائی 2002ء میں قائم کی گئی کیوں کہ قومی تعلیمی پالیسی (1998-2010ء) اور حکومتِ پاکستانی کی انفارمیشن ٹیکنالوجی پالیسی میں ٹیسٹنگ سروس کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔
ادارہ کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر میرٹ کی بنیاد پر اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے حوالے سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ این ٹی ایس کے امتحانات اور جائزے اب سرکاری و نجی شعبہ اور خاص طورپر انجینئرنگ اور میڈیکل کے تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے لازمی قرار دیے جا چکے ہیں۔
قبائلی بزرگ وارث خان کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث نقل مکانی کرنے والے بچوں کی ایک بڑی تعداد کو اب سکول جانے کا موقع مل گیا ہے، اور ان کے ایک بیٹے کو بھی یہ سکالرشپ دی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’میرے پانچ بیٹے ہیں لیکن میں انہیں تعلیم دلانے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا کیوں کہ سات برس قبل نقل مکانی کرنے کے باعث میرے اخراجات میں غیرمعمولی اضافہ ہو گیا تھا۔‘‘
وارث خان نے کہا کہ اب ان کا ایک بیٹا اور بھتیجا سکول جا رہا ہے کیوں کہ این ٹی ایس ان کے بچوں کی فیس کی ادائیگی میں مدد کر رہا ہے۔
ایک اور قبائلی محمد نواب نے کہا کہ سکالرشپ حاصل کرنے والے طالب علموں کی اکثریت یتیم ہے یا غریب ہے اور وہ اپنے طور پر تعلیم حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے ایک بیٹے نے بھی یہ سکالرشپ حاصل کی ہے۔
جب فاٹا سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ ایڈیشنل آئی جی پولیس رحمت خان سے ان کی رائے جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ این ٹی ایس کی جانب سے سکالر شپ کا دیا جانا درست وقت پر درست اقدام ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’میں پرامید ہوں کہ یہ سکالرشپ پروگرام خطے میں مثبت تبدیلیاں لانے کے حوالے سے اہم کردار ادا کرے گا۔‘‘
مدیحہ اسلم نے کہا:’’اکتوبر 2016ء تک مختلف اداروں کے 1.45 کروڑ سے زائد امیدوار این ٹی ایس کے ٹیسٹوں میں شریک ہو چکے تھے۔‘‘
سکالر شپ حاصل کرنے والے طالب علم نقیب اللہ نے کہا:’’ہمیں سکول کی تین ماہ کی فیس ایڈوانس دی جاتی ہے اور کچھ جیب خرچ بھی مل جاتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر شیرزادہ خان نے غیر سرکاری تنظیموں اور فلاحی اداروں پر یہ زور دیا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں مستحق بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔