پشاور: ریڈیو تہذیب کے نیم تاریک سٹوڈیو میں موجود رومین خان مسکراتی ہیں اور مائیکروفون پر بات کرنے سے قبل اپنا گلہ صاف کرتی ہیں :’’ یہ ریڈیو تہذیب ہے اور میں آپ کی میزبان رومین خان ہوں۔ آپ آج کے پروگرام میں کن موضوعات پر بات کرنا پسند کریں گے؟‘‘
رومین خان پشاور کے کارخانو بازار میں قائم ایف ایم سٹیشن ریڈیو تہذیب کی میزبان ہیں، یہ بازار سمگلروں کے بازار کے نام سے بھی معروف ہے جہاں کم قیمت چینی مصنوعات سے لے کر برطانوی سازوسامان تک دستیاب ہے اور وہ امریکی مصنوعات بھی یہاں سے باآسانی مل جاتی ہیں جو افغانستان میں نیٹو کے کنٹینروں سے چوری کرکے پاکستان سمگل کی جاتی ہیں۔
رومین خان کاایف ایم چینل وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں(فاٹا) کی خیبرایجنسی کے سامعین کے لیے تفریحی پروگرام نشر کرتا ہے۔ ان کا پروگرام ’’رنگونا‘‘ یا رنگ، میں سامعین کی خطے کے ان مسائل کی جانب توجہ مبذول کروائی جاتی ہے جن پر فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آر) کے تحت مقامی میڈیا کو بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، یہ ایک متوازی قانون ہے جس کے تحت قبائلی علاقوں کو منتظم کیا جاتا ہے۔
رومین خان نے ٹروتھ ٹریکر سے بات کرتے ہوئے کہا:’’میرے پروگرام پر سامعین کا ردِعمل شاندار ہوتاہے۔‘‘
وہ فاٹا سے متصل صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ مرد سامعین گیت سننے کی فرمائش کرتے ہیں اور مختلف مسائل کے بارے میں بات کرتے ہیں لیکن فاٹا کی خواتین زوق و شوق سے پروگرام کا حصہ بنتی ہیں۔‘‘
ان کے مطابق وہ سامعین سے مستقل بنیادوں پر فیڈ بیک حاصل کرتی ہیں اور ان کو روزانہ 80ایس ایم ایس اور 50کالیں موصول ہوتی ہیں۔ ان میں سے 60فی صد کالیں فاٹا کی خواتین کرتی ہیں۔‘‘
رومین خان نے کہا:’’ قبائلی علاقوں میں عائد ثقافتی و روایتی پابندیوں کے باعث اس وقت ان کے ریڈیو چینل سے ایسی کوئی خاتون میزبان منسلک نہیں ہے جس کا تعلق فاٹا سے ہو۔‘‘
رومین خان اپنے پروگراموں کے ذریعے اپنی خاتون سامعین میں ان مسائل کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں جن کا وہ اس وقت سامنا کررہی ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ میں فاٹا کی خواتین کے لیے رول ماڈل بننے کی کوشش کررہی ہوں ، میں حصولِ تعلیم کے حوالے سے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہوں اور ان کو ان کے حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہ کرتی ہوں۔‘‘
وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ فاٹا کی خواتین ہنوز ثقافتی رکاوٹوں کا سامنا کررہی ہیں، لیکن اب ان کے رویوں میں درپیش مسائل کے حوالے سے ’’نمایاں تبدیلی‘‘ آئی ہے ۔
رومین خان کہتی ہیں:’’خواتین کو قبل ازیں ریڈیو سٹیشن پر کال کرنے اور اپنی پسند و ناپسند یا اپنا نام ظاہر کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن اب وہ مختلف پروگراموں کے بارے میں بات کرنے کے لیے ریڈیو سٹیشن کال کرتی ہیں، وہ اپنی پسند کے موضوعات پہ بات کرتی ہیں اور اپنے مسائل کو زیرِبحث لاتی ہیں۔‘‘
یونیورسٹی آف پشاور کے شعبۂ صحافت سے منسلک سابق طالب علم دانش بابر کی جانب سے کی جانے والی تحقیق بعنوان ’’غیرملکی ریڈیو چینلوں پر عوام کا انحصار‘‘ (فاٹا میں) کے مطابق گزشتہ 15برسوں کے دوران کی جانے والی بہت ساری تحقیقی کاوشوں سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ سرحدی علاقوں میں ریڈیو ابلاغ کا ایک پاپولر میڈیم ہے۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے:’’ ان ثقافتی اور روایتی رکاوٹوں سے قطعٔ نظر شرحٔ خواندگی کم ہونے کے باعث بھی فاٹا کی خواتین کی ذرائع ابلاغ کے اداروں جیسا کہ ریڈیو، ٹیلی ویژن چینلوں اور اخبارات تک رسائی نہیں ہے جس کے اثرات بلاواسطہ اور بلواسطہ طورپر ان کی زندگیوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ مثال کے طورپر وہ اپنے بنیادی حقوق کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں رکھتیں، تعلیم اور تفریح تو بہت دور کی بات ہے۔‘‘
گزشتہ 15برسوں سے زائد عرصہ کے دوران فاٹا سیکرٹیریٹ نے قبائلی علاقوں میں بہت سے ترقیاتی منصوبے شروع کیے جن میں چار سرکاری ایف ایم ریڈیو چینلوں کا قیام بھی شامل تھا۔
ان میں سے ایک جنوبی وزیرستان میں وانا کے مقام پر قائم کیا گیاجسے طالبان نے 2006ء میں تباہ کردیا اوردیگر تین فنڈز کی کمی کے باعث بند ہوچکے ہیںجن میں سے ایک شمالی وزیرستان اور دوخیبرایجنسی میں قائم تھے۔
2016ء میں سیاسی انتظامیہ نے باجوڑ میں ایک نجی ایف ایم چینل شمال ریڈیوکو قبائلی علاقوں میں نشریات شروع کرنے کی اجازت دے دی۔
تہذیب اور شمال کے علاوہ سرکاری ریڈیو چینل کی نشریات بھی سرحدی علاقوں میں سنی جاسکتی ہیں۔ لیکن دانش بابر کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق عالمی ریڈیو چینل وائس آف امریکہ، مشال ریڈیو اور بی بی سی اب بھی مقبول ترین ہیں۔ رپورٹ کے مطابق :’’اس کی وجہ ان ریڈیو چینلوں کی معیاری نشریات، مصدقہ معلومات، اوقاتِ کار، خبریں پیش کرنے کا انداز، پروگراموں کا فارمیٹ اور متوازن متن ہے۔‘‘
اس تحقیقی مقالے میںمزید کہا گیا ہے کہ سروے میں شامل کیے جانے والے رائے دہندگان میں سے 80فی صد خواتین اور70فی صد مرد تقریباً روزانہ ہی یہ ریڈیو چینل سنتے ہیں۔ تاہم 2013ء سے قبل مقامی ریڈیو چینل شاذو نادر ہی قبائلی علاقوں کی خواتین آبادی کے لیے خصوصی پروگرام نشر کیا کرتے تھے۔
تحقیق کے مطابق:’’ فاٹا کے تینوں سرکاری ریڈیو چینلوں نے خواتین سامعین کو نظرانداز کردیا اور ان پر نشر کیے جانے والے بیشتر پروگرام مردوں کی دلچسپی کے ہوا کرتے تھے۔‘‘
فاٹا سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ آسیہ شاہ کہتی ہیں کہ وہ وائس آف امریکہ اور مشال ریڈیو پر شام کے وقت خواتین کے لیے نشر ہونے والے خصوصی پروگرام سنتی ہیںجن میں حقیقی ٹیلنٹ کو منظرِعام پر لایا جاتا ہے ، وہ کہتی ہیں کہ یہ ریڈیو چینل فاٹا کی خواتین کی آواز بنے ہیں اور ان پر ان کی صحت اور تعلیمی مسائل زیرِبحث لائے جاتے ہیں۔
آسیہ شاہ کہتی ہیں، وہ ایسے پروگراموں کو ترجیح دیتی ہیں جن میں فاٹا کی مرد آبادی کو خواتین کے بنیادی حقوق کے حوالے سے آگاہ کرنے کی کوشش کی جائے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ میں ایسے پروگرام بنانا چاہتی ہوں جن سے فاٹا کے مرد تعلیمِ نسواں کی اہمیت اور خواتین کے بنیادی حقوق سے تو آگاہ ہوں ہی بلکہ وہ خواتین کو جسمانی تشدد سے محفوظ رکھنے میں بھی معاون ثابت ہوں۔‘‘
خیبرایجنسی سے تعلق رکھنے والی ایک گھریلو خاتون زرمینہ کہتی ہیں کہ وہ وائس آف امریکہ اور بی بی سی پرنشر ہونے والے مختلف پروگرام نہایت ذوق و شوق سے سنتی ہیں کیوں کہ ثقافتی و مذہبی وجوہات کے باعث قبائلی علاقوں کی خواتین کی ٹیلی ویژن تک رسائی نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’میں صحت سے متعلقہ پروگرام دیکھنا پسند کرتی ہوں جن میں ڈاکٹر خواتین کو ان کی صحت کے مسائل کے حوالے سے مشورہ دیتے ہیں اور علاج تجویز کرتے ہیں۔ صحت کے پروگراموں کے علاوہ میں تفریحی پروگرام سننا بھی پسند کرتی ہوں۔‘‘
فاٹا کے ایک قبائلی شاہ نواز کہتے ہیں کہ خطے کی خواتین کو اپنے گھروں سے باہر قدم رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ ریڈیو ان کے لیے ذرائع ابلاغ کا ایسا واحد میڈیم رہ جاتا ہے جس سے وہ ناصرف لطف اندوز ہوتی ہیں بلکہ زندگی، مذہب، صحت اور تعلیمی موضوعات وغیرہ کے بارے میں بھی آگاہی حاصل کرتی ہیں۔‘‘
باجوڑ ایجنسی میں قائم شمال ریڈیو کے پروگرام منیجر زاہد خان نے ریڈیو کی خواتین سامعین کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ریڈیو چینل کی 40فی صد پروگرامنگ خواتین کے لیے مخصوص ہے۔ انہوں نے کہاکہ ان پروگراموں میں صحت، تعلیم اور دیگر شعبۂ جات کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے۔اورخواتین صبح 10سے دوپہر12بجے تک سب سے زیادہ فیڈبیک دیتی ہیں اور پروگراموں میں شریک ہوتی ہیں۔