واشنگٹن ڈ ی سی: امریکی صدارتی انتخابات کے غیرمتوقع نتائج کے باعث پیدا ہونے والی حیرت کے مدھم پڑنے کے بعد اب یہ سوال پیداہوا ہے کہ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہد میں امریکہ کی سمت کیا ہوسکتی ہے، امریکہ میں مقیم پاکستانی اور افغان شہری اسلام دشمن تصور ہونے والے صدر کے عہد کے حوالے سے خوف زدہ تو ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی پرامید بھی ہیں۔
پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے امریکی شہری یہ محسوس کرتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسلامو فوبیا کو اس وقت نئی جہت دی جب انہوں نے انتخابی مہم کے دوران یہ کہا کہ وہ منتخب ہوکر مسلمانوں کو ملک میں داخل ہونے سے روک دیں گے۔
شجاع نواز واشنگٹن ڈی سی میں قائم تھنک ٹینک ’’اٹلانٹک کونسل‘‘ سے منسلک ممتاز محقق ہیں، انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ایک مسلمان اور پاکستانی امریکی ہونے کے باعث وہ 45ویں امریکی صدر کے حوالے سے مضطرب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دیئے گئے نسل پرستانہ بیانات اور سفید فام قوم پرستوں کے طاقت حاصل کرنے کے حوالے سے پریشان ہیںجس کے اثرات ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں پر بھی مرتب ہوں گے۔
تاہم انہوں نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو مؤثرانداز سے حکومت کرنے اور عالمی منظرنامے پر نمایاں کردار ادا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر حمایت حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ان کا کہنا تھا:’’ میں یہ امید کرتا ہوں کہ حلف اٹھانے کے بعد ان کے مؤقف میں لچک پیدا ہوگی۔‘‘
شجاع نواز کتاب ’’کروسڈ سوورڈز : پاکستان، اٹس آرمی اینڈ دی وار دِد ان‘‘ کے مصنف ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہوسکتاہے، ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے عمل کو تیز کردیں جس کے باعث ملک کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی اور افغانی نژاد امریکیوں کو نئے صدر کو یہ باور کروانے کے لیے اپنی سی بہترین کوشش کرنا ہوگی کہ وہ کس پالیسی پر عمل کریں اور کس پالیسی پر عمل نہ کریں۔ شجاع نواز کہتے ہیں کہ ایسا عوامی تبصروں اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کو بریفنگ دینے سے ہی ممکن ہوپائے گی، جن میں وہ پاکستانی امریکی بھی شامل ہیں جنہوں نے صدارتی مہم کے لیے فنڈز فراہم کیے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ان سمیت پاکستانی امریکیوں سے رابطہ قائم کیا گیا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کی جانب سے پُر کی جانے والی چار ہزار آسامیوں کے لیے درست امیدوار تلاش کرنے میں مدد کریں۔
انہوں نے کہا:’’ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ملک کو کامیابی سے چلانے میں ان (ڈونلڈ ٹرمپ) کی مدد کریں۔‘‘ شجاع نواز نے مزید کہا:’’ پاکستانی اور افغانی نژاد امریکی ہونے کے باعث ہم امریکہ اور اپنے آبائی ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔‘‘
وہ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ہونے والے مظاہروں کی حمایت نہیں کرتے اور یہ کہتے ہیں کہ یہ مظاہرے قابلِ فہم ہیں کیوں کہ صدارتی انتخابات کے باعث شہریوں میں خوف پیدا ہوا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا:’’ان مظاہروں کی وجہ سے مایوس گروہوں کو ایک چھتری مل گئی ہے اور اس بنا پر وہ قابو سے باہر ہوسکتے ہیں۔ میں تشدد یاسرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی حمایت نہیں کرتا ۔ اگر مظاہرے جاری رہتے ہیں تو مظاہرین اپنی حمایت کھو دیں گے۔‘‘
شجاع نواز نے کہاکہ نومنتخب صدر ٹرمپ کو حلف اٹھانے کے بعدپالیسی سازی کرتے ہوئے ایک یا دو ملکوں کی حمایت کرنے کی بجائے افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیاء سے رابطوں کو فروغ دینا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا:’’عظیم تر جنوبی ایشیاء میں افغانستان اور ایران بھی شامل ہیں۔ نئی انتظامیہ کو تین جوہری طاقتوں ایران، پاکستان اور انڈیا پرمشتمل تنائو کا شکار خطے میں تعلقات مستحکم کرنے کے لیے برصغیر کے تمام ملکوں، اور روس و چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔‘‘
تاہم امریکہ میں مقیم مہاجرین کے لیے فوری نوعیت کی پریشانی یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اپنی نئی انتظامیہ میں کن لوگوں کو شامل کریں گے اور صدارتی مہم کے دوران مسلمان ملکوں یا دہشت گردی سے متاثرہ ملکوں سے آنے والے مہاجرین کو روکنے کے حوالے سے دیے گئے بیانات پر کس طرح عمل کریں گے۔
شجاع نواز کہتے ہیں:’’دیگر چھوٹے ممالک سے موازنہ کیا جائے تو امریکہ نے مہاجرین کی بہت بڑی تعداد کو خوش آمدید نہیں کہا۔ ان کے بیانات (مہاجرین کے خلاف) کوبڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ ہم یہ امید کرتے ہیں کہ ان کے مؤقف میں نرمی آئے گی۔‘‘
پیو ریسرچ سنٹر ، محکمۂ خارجہ کے رفیوجی پراسیسنگ سنٹرسے حاصل کیے گئے اعداد و شمار کے تجزیے کی بنا پر یہ کہتا ہے کہ مالی سال 2016ء کے دوران امریکہ میں 38,901مسلمان داخل ہوئے،جو اس عرصہ کے دوران ملک میں داخل ہونے والے تقریباً85ہزار مہاجرین کے تقریباًنصف (46فی صد) پر مشتمل ہیں۔
پیو تجزیے کے مطابق اس عرصہ کے دوران امریکہ میں تقریباً35ہزار مسیحی مہاجر داخل ہوئے۔ 2016ء کے دوران امریکہ میں 10ہزارشامی مہاجرین کے آنے کی امید تھی جن میں سے دسمبر تک صرف سات ہزار کو ہی آنے کی اجازت دی گئی تھی۔ کینیڈا میں نومبر2015ء سے فروری 2016ء کے دوران 34ہزار سے زائد شامی مہاجرین آئے، کینیڈا کی آبادی صرف ساڑھے تین کروڑ نفوس پر مشتمل ہے جب کہ امریکہ کی آبادی 32.5کروڑ ہے۔
شکاگو سے تعلق رکھنے والے پاکستانی امریکی شہری رضوان قادر نے انتخابات میں ہلیری کلنٹن کی حمایت کی، وہ کہتے ہیں ، یہ حقیقت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوچکے ہیں اور پارٹی کو سینٹ اور ایوان نمائندگان میں برتری حاصل ہے جو خوف کا باعث ہے لیکن نئی انتظامیہ کو ’’درحقیقت رواداری اور تعاون کی ضرورت‘‘ ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ان مشکل ترین وقتوں کے باوجود میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ امریکی اقدار اس قدر مضبوط ہیںکہ ہمیں ٹرمپ کی صدارت کے حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
ایسوسی ایشن آف برٹش مسلمز ، امریکہ کی ڈائریکٹر اور پاکستانی نژاد امریکی شہری سیمی گل حسن یہ وضاحت کرتی ہیں کہ سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں وائٹ ہائوس کو بہت زیادہ طاقت دے دی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ صدر کو کوئی بھی قانون منظور کرنے سے قبل اسے کانگریس میں پیش کرنا ہوتا تھا لیکن بش کے دور میں اور نوگیارہ کے حملوں کے بعد وائٹ ہائوس کی طاقت میں اضافہ ہوا اور صدر کی جانب سے ایگزیکٹو آرڈز جاری کئے جانے لگے۔
سیمی گل حسن نے مزید کہا:’’صدر اوبامہ نے حزبِ اختلاف کی جانب سے مزاحمت کے باوجود قوانین کو نظرانداز کرنے کے لیے یہ (آئینی) طاقت بہت زیادہ استعمال کی۔ ٹرمپ کو بھی یہ خصوصی اختیارات حاصل ہوں گے۔ وہ انہیں مسلمانوں کے خلاف استعمال کرسکتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ تاہم امریکی دستور سے متصادم کسی بھی ایگزیکٹو آرڈر کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گاجو اس کی موزونیت کے حوالے سے کوئی بھی حتمی فیصلہ کرے گی۔ سیمی گل حسن نے کہا:’’میں پریقین نہیں ہوں کہ صدر ٹرمپ (ایگزیکٹو آرڈرز کا استعمال کرکے) بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ میں پریشان ہوں کہ لوگ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کے بیانات سے شہ پاکر مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرسکتے ہیں۔ ٹرمپ کو واضح الفاظ میں یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ یہ سب غلط ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ مسلمانوں کے امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی عائد کرسکتے ہیں لیکن امریکی کاروباری ادارے ایسا کوئی بھی فیصلہ پسند نہیں کریں گے۔ سیمی گل حسن کا کہنا تھا:’’امریکی کمپنیوں کے عملے میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو دنیا بھر کا دورہ کرتے ہیں۔ کیا وہ واپس نہیں آپائیں گے؟ ڈونلڈ ٹرمپ اگر مسلمانوں کے امریکہ کا سفر کرنے پر پابندی عائد کرتے ہیں تو ان کے بیوروکریٹ ان کے اس فیصلے پر اعتراضات کریںگے۔ میرا خیال ہے کہ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ مہاجرین ملک میں داخل نہ ہوں۔‘‘