لاہور: پاکستان کے سابق چیف جسٹس جواد خواجہ کی اہلیہ بیناخواجہ اپنی ملازمہ کے بچوں کے فارغ رہنے پر ناخوش تھیں۔ ان کی اپنی صاحب زادی زینب جواد بھی اپنے صاحب زادے کے ہمہ وقت سکول کا کام کرتے رہنے پر خوش نہیں تھیں۔ جب زینب کا بیٹا اپنا ہوم ورک مکمل کرلیتا تو اس کے سونے کا وقت ہوجاتا ۔

زینب جواد نے ٹروتھ ٹریکر سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ وہ ہر وقت کتابوں میں گم رہتا ۔ سکول کی غیر نصابی سرگرمیوں کا تعلق بھی کسی نہ کسی طورپر نصاب سے ہی تھا۔‘‘

ان وجوہات کے باعث ہی اس خاندان نے لاہور کے نواح میں بیدیاں روڈ پر اپنے فارم ہائوس میں ’’ہر سکھ‘‘ سکول قائم کیاہے۔

سکول میں تمام بچوں کے لیے داخلے کھلے ہیں، حتیٰ کہ نواحی دیہاتوں کے طالب علم بھی اس سکول میں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ زینب جواد نے بھی اپنے بچوں کو لاہور کالج آف آرٹس اینڈ سائنس سے ہٹا کر ’’ہر سکھ‘‘ میں داخل کروا دیا ہے۔

انہوں نے ٹروتھ ٹریکٹر سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہمیں اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ ہمارے بچے بھی اسی سکول میں تعلیم حاصل کریں جہاں ہماری ملازمائوں کے بچے پڑھتے ہیں۔‘‘

غانیہ بابر سرامکس کا مضمون رضاکارانہ طورپر پڑھاتی ہیں، انہوں نے بھی اسلام آباد کے ایک ایلیٹ سکول میں زیرِتعلیم اپنے بچوں کا داخلہ اب ’’ہر سکھ‘‘ میں کروا دیا ہے۔

بینا خواجہ کہتی ہیں کہ’’ ہر سکھ‘‘ قائم کرنے کا مقصد صرف ان کی ملازمائوں کے بچوں کو بہتر تعلیم فراہم کرنا نہیں تھا۔

وہ ایک ایسا تعلیمی ادارہ قائم کرنے کی خواہاں تھیں جہاں بچے کھیل کھیل میں سیکھ جائیں۔

انہوں نے ٹروتھ ٹریکر سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ یہ ایک ایساسکول ہے جہاں بچے کمرۂ جماعت میں کم وقت گزارتے ہیں اور زیادہ وقت فطرت کے قریب تر رہتے ہیں۔‘‘

’’ہر سکھ‘‘ سکول کی انتظامیہ کے مطابق اس وقت سکول میں چار سے 11برس کی عمر کے55 بچے زیرِتعلیم ہیں۔ تعلیم کو معمول کو نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

’’ہر سکھ‘‘ کا بنیادی مقصد بچوں کو ان کے اردگرد کے ماحول سے جوڑنا ہے۔

زینب جواد نے کہا:’’ بچے جب اپنا زیادہ وقت کمرۂ جماعت میں گزارتے ہیں تو وہ بچہ جمورا بن جاتے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا:’’ خاص طورپر ہمارے ہاں ایسا ہی ہورہا ہے جہاں استاد اور طالب علم کا تعلق فروخت کنندہ اور کلائنٹ کا سا بن چکا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کادماغ حقائق و معلومات سے بھر جاتا ہے۔‘‘
زینب جواد نے زور دیتے ہوئے کہا:’’ ہم بچوں کو یہ سکھانا چاہتے ہیں کہ ایک چٹان سخت کیوں ہے اور پانی مائع کیوں ہے اور ہوا محسوس تو ہوتی ہے لیکن نظر کیوں نہیں آتی۔ہم چاہتے ہیں کہ بچے کائنات کا رُکن بننے کی بجائے اس کا حصہ بن جائیں۔ ‘‘

اس بنا پر ہی ’’ہر سکھ‘‘ میں مختلف غیر نصابی سرگرمیوں پر بھرپور توجہ دی جارہی ہیں جن میں جماعت اول سے جماعت سوم تک زیرِتعلیم ہر بچہ شامل ہوتا ہے۔

غیر نصابی سرگرمیوں کی تدریس کے لیے مختلف رضاکار خدمات انجام دے رہے ہیں جو اپنے اپنے شعبہ میں مہارت رکھتے ہیں۔

بینا خواجہ کلاسیکی رقص کی تربیت دیتی ہیں۔ نیشنل کالج آف فائن آرٹس سے فارغ التحصیل غانیہ بدر سرامکس کا مضمون پڑھاتی ہیں۔ مکالمۂ سقراط کا انعقاد فرخ عباس کرتے ہیں جو لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ بیکن ہائوس یونیورسٹی کی تربیت یافتہ استانی عصمت جواد آرٹس و کرافٹس کی تعلیم دیتی ہیں۔لمز میں زیرِتعلیم حامد الیکٹرانکس پر ورکشاپس کا انعقاد کرتے ہیں۔ عثمان لطیف موسیقی کی تعلیم دیتے ہیں۔ سکول میں ہفتہ میں ایک بار کرکٹ بھی کھیلی جاتی ہے۔
11برس کے محمد عثمان سکول کے نواح میںآباد ایک چھوٹے سے گائوںملوکی میں رہتے ہیں۔

’’ہرسکھ‘‘ میں داخلہ لینے سے قبل وہ ایک مقامی نجی سکول میں زیرِتعلیم تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے پرانے سکول میں اساتذہ ان پر اکثر تشدد کرتے۔

محمد عثمان نے ٹروتھ ٹریکر سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ اگر مجھ سے چھوٹی سی بھی غلطی ہوجاتی تو بہت زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ مجھے ’’ہر سکھ‘‘ پسند ہے کیوں کہ اس نے غیر رسمی انداز میں پڑھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

سکول اس وقت پانچ حصوں میں تقسیم ہے۔

زینب جواد کہتی ہیں:’’اس وقت سکول میں نرسری، پریپ اور جماعت اول، دوم اور سوم تک تعلیم دی جارہی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا:’’ہم طالب علم کی ذہانت اور سیکھنے کی اہلیت کی بنا پراس کی کلاس کا تعین کرتے ہیں۔ ایک قریبی گائوں سے تعلق رکھنے والی دو بہنیں جماعت اول میں زیرِتعلیم ہیں ۔ ایک سات اور دوسری 11برس کی ہے۔ 11برس کی طالبہ کے لیے چوں کہ جماعت دوم میں پڑھنا مشکل ہے جس کے باعث ہم اسے جماعت اول میں ہی پڑھا رہے ہیں۔‘‘

’’ہر سکھ‘‘ کے ہیڈماسٹر آفتاب شیخ کہتے ہیں کہ صرف بنیادی مضامین جیسا کہ انگریزی، اردو، ریاضی اور سائنس ہی پڑھائے جارہے ہیں۔ سکول عطیات پر چل رہا ہے اورہر بچے کو ایک ہزار روپے فیس ادا کرنی پڑتی ہے، خواہ اس کا تعلق دیہاتی علاقے سے ہی کیوں نہیں ہے۔

بینا خواجہ نے کہا:’’ہم مذہب کو مختلف انداز سے پڑھا رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا:’’ پاکستان میں بچوں کے ذہن میں خدا کا تصور کچھ یوں پیش کیا جاتا ہے گویا وہ لوگوں کو دوزخ یا جنت میں ہی بھیجتا ہے جس کے باعث بچے کی ایک نیک فطرت انسان بننے کے حوالے سے اہلیت متاثر ہوتی ہے۔‘‘

وہ یہ یقین رکھتی ہیں کہ’’ خوف بیگانگی پیدا کرتا ہے۔ خوف جھجک کا باعث بنتا ہے۔ خوف کے باعث خوداعتمادی ختم ہوجاتی ہے اور فرد غلط سرگرمیوں کی جانب راغب ہوتا ہے۔‘‘

فرخ عباس کہتے ہیں کہ ’’ہرسکھ‘‘ میں تصورِ تدریس کی بنیاد طالب علم و استاد کے دوطرفہ تعلقات پر ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ ایک کمرۂ جماعت میں 10سے زیادہ طالب علم نہیں ہوتے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر طالب علم کو پوری توجہ حاصل ہوتی ہے۔‘‘

فارمین کرسچن کالج ، لاہور کی جانب سے شائع کیا گیا تحقیقی مقالہ بعنوان ’’ امپرونگ گورننس ان پنجاب‘‘ میں یہ کہا گیاہے کہ پنجاب میں 50طالب علموں کے لیے صرف ایک استاد ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here