لاہور: سرکاری ہسپتالوں، پولیس سٹیشنوں اور سکولوں میں جانا اکثر و بیش تر انتہائی تکلیف دہ تجربہ ہوتا ہے۔ یہ وہ استدلال ہے جو فارمین کرسچن کالج لاہور کے سنٹر فار پبلک پالیسی اینڈ ریسرچ نے اپنی رپورٹ ’’حکمرانی میں بہتری، پنجاب میں صوبائی سول سروسز‘‘ (Improving Governance, Reforming Provincial Civil Services in Punjab)میں پیش کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 80فی صد سرکاری ملازمین گریڈ ایک سے 16تک میں کام کررہے ہیں۔ نرسز، ایلیمنٹری اساتذہ ، لیڈی ہیلتھ ورکرز، سٹیشن ہیڈ آفیسر، پٹواری اور اسی طرح کی ملازمتیں اس فہرست میں آتی ہے۔رپورٹ ان کی ’’ریاست کے چہروں‘‘ کے طورپر تعریف کرتی ہے اور یہ استدلال پیش کرتی ہے کہ کوئی بھی پالیسی اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک پالیسی کی تشکیل کے مرحلے پر ان سرکاری ملازمین سے مشورہ نہیں کیا جاتا یا انہیں پیشِ نظر نہیں رکھاجاتا۔ رپورٹ مزید کہتی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پالیسیوں پر عملدرآمد کرنا ہوتا ہے۔
عالیہ بٹ ایک گھریلو خاتون ہیں۔ ان کی والدہ گزشتہ ایک ماہ سے سروسز ہسپتال لاہور میں گردوں کے عارضے کے باعث زیرِعلاج ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے بدترین تجربے کا آغاز اس وقت ہوا جب ان کو نرسوں سے رابطہ کرنا پڑا۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نرسیں آسانی کے ساتھ غصے میں آجاتی ہیں۔
نیوز لینز پاکستان نے ایک نرس سے رابطہ قائم کیا، جنہوں نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کام کی زیادتی اور سینئر نرسوں اور اکثر اوقات ڈاکٹروں کے ناروا رویے کے باعث وہ بے لوث ہوکر کام کرنے کے جذبے سے محروم ہوچکی ہیں۔
سی پی پی جی سروے کے مطابق ایک نرس کو عموماًً11مریضوں کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ایک وارڈ میں ایک نرس40مریضوں کی دیکھ بھال کررہی ہے۔محققین نے پالیسی سازوں کے معاون طبی عملے کی اہلیت میں اضافے اور انسانی وسائل کی صلاحیت بڑھانے کے حوالے سے عمومی بے حسی کامشاہدہ کیا۔
نیوز لینز پاکستان نے پنجاب ہیلتھ کمیشن میں سینئر کنسلٹنٹ اور پروگرام ڈائریکٹر ڈاکٹر ریاض تسنیم سے ملاقات کی۔ انہوں نے ڈاکٹروں اور نرسوں کے رویے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اَمر بدقسمتی کا باعث ہے کہ ڈاکٹروں کی طرح کامقدس پیشہ عوام کے لیے تکلیف کا باعث بن چکا ہے۔ جب حکومت نے طبی خدمات نجی شعبہ کے رحم و کرم پر چھوڑیں تو لالچ، بے حسی اور غیر پیشہ ورانہ رویہ معیار بن گیا۔
عوام کی زندگیوں میں ایک اور شعبہ بھی یکساں اہمیت رکھتا ہے اور وہ محکمۂ پولیس ہے۔ کسی بھی شکایت کنندہ کا پہلا واسطہ عموماً سٹیشن ہیڈ آفیسر(ایس ایچ او) سے پڑتا ہے۔ نیو زلینز پاکستان نے مقامی ایس ایچ او سے رابطہ قائم کیا جنہوں نے اپنے اعلیٰ افسروں کی ناراضی سے بچنے کے لیئے نام ظاہر نہیں کیا۔
سپاہیوں کے رویے اور عوام کی اس شکایت کہ پنجاب میں پولیس بہت ظالم اور سرکش ہے، کے بارے میں ایس ایچ او نے بات کرتے ہوئے کہا کہ کام کا طویل دورانیہ اوروسائل کی کمی نے ان کی پیشہ ورانہ زندگیوں کو بوجھ بنادیا ہے۔
انہوں نے کہا، مثال کے طورپر اگر پولیس کی گاڑی خراب ہوجائے تو اسے ٹھیک کروانے کے لیے انہیں اپنے طورپر وسائل کا بندوبست کرنا پڑتا ہے کیوں کہ اگر وہ انتظامی شعبے کی جانب سے رقم ارسال کئے جانے کا انتظار کریں تو اس پر بہت زیادہ وقت صرف ہوگا اور کام متاثر ہوگا۔
رپورٹ میں پولیس سٹیشنوں میں عملے کی کمی پر بھی بات کی گئی ہے۔ پولیس کے قوانین 1879ء کے مطابق 456افراد کے لیے ایک پولیس کانسٹیبل ہونا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ہزار افراد کے لیے ایک پولیس کانسٹیبل ہے۔ مذکورہ پولیس افسر نے مزید کہا کہ جب ڈولفن فورس قائم کی گئی تو نئے پولیس افسر بھرتی کرنے کی بجائے موجودہ فورس سے افسروں کی خدمات حاصل کی گئیں اور ان کا تبادلہ ڈولفن فورس میںکردیا گیا، یہ سٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لیے قائم کیا گیا خصوصی سکواڈ ہے جس کے باعث پولیس کی نفری میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔
نیوز لینز پاکستان نے جب اس بارے میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس لاہور حیدر اشرف سے بات کی تو انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ پولیس کانسٹیبلوں اور نچلی سطح پر پولیس افسروں کی تعداد ناکافی ہے۔ تاہم فنڈز کی کمی کے باعث نئے افسر بھرتی نہیں کئے جاسکتے۔
ان سے جب کام کے طویل دورانئے کے بارے میں بات کی گئی جس کے باعث تھکاوٹ اور غیر پیشہ ورانہ طرزِ عمل نمایاں ہوجاتا ہے تو انہوں نے کہا کہ پاکستان یورپ میں نہیں ہے اور پولیس کو آٹھ گھنٹوں کی شفٹ کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ حیدر اشرف کا مزید کہنا تھا:’’ افسروں کو کم از کم 12گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔‘‘
پاکستان میں پولیس افسروں کا شہریوں کے حوالے سے تناسب 529شہریوںکے لیے ایک پولیس افسر کا ہے۔ پنجاب پولیس رولز(1934ئ)اسے 450کے لیے ایک تک محدود کرتے ہیں۔ پولیس ایکٹ1861ء ، جو اب بھی پولیس کی قانون سازی کے لیے رہنما دستاویز ہے،نے چھ کے لیے ایک کے تناسب کا حکم دیا تھا۔
آمنہ مشتاق ، جو ایک مقامی سرکاری سکول میں کام کرتی ہیں، نے درپیش مشکلا ت کے حوالے سے تفصیلات بتائیں، انہوں نے کہا کہ وہ ایک وقت میں 50بچوں کے ساتھ تدریس کے فرائض انجام دیتی ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا:’’ ان حالات میں یہ امید کس طرح رکھی جاسکتی ہے کہ میں پیشہ ورانہ کارکردگی کا مظاہرہ کروں گی؟‘‘
آمنہ مشتاق نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ چار مضامین پڑھاتی ہیں، بہت سے بچوں کی کاپیاں اور پیپر چیک کرتی ہیں، یوں یہ ایک نہ ختم ہونے والا کام بن جاتا ہے۔ انہوں نے کہا:’’میں نے جب اس پیشے کا انتخاب کیا، میں کمیونٹی کی خدمت کرنے کے حوالے سے پرجوش تھی لیکن اب میرا جوش و جذبہ صرف کام کو نپٹانے اور ملازمت کو برقرار رکھنے تک محدود ہوگیا ہے۔‘‘
نیوز لینزپاکستان نے جب پنجاب کے وزیرِ ایکسائز و ٹیکسیشن اور ہائر ایجوکیشن میاں مجتبیٰ شجاح الرحمان سے اساتذہ کی شکایات کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ حکومت تعلیم کے فروغ کے حوالے سے اپنی سی بہترین کوشش کررہی ہے۔
تحقیقی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 36فی صد بچے سکول نہیں جارہے اور 69فی صد پانچ برس کی عمر تک سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ اس پریشان کن صورتِ حال کی بیان کی گئی وجوہات میں تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی، تدریسی مواد کی قلت اور ناقص انفراسٹرکچر ہے۔
اس تحقیق کے بنیادی تصور کے خالق سعید شفقت نے کہا کہ حکومت اعلیٰ افسرِ شاہی میں اصلاحات پرتوجہ دیتی رہی ہے۔ تاہم نچلی سطح کے افسروں کی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا:’’ عوام کے مسائل اور مشکلات کا کچھ یوںازالہ کیا جاتاہے۔‘‘