کراچی: نت نئے ڈیزائن اور خوش رنگ و دیدہ زیب کپڑے، جیولری اور الیکٹرانک اشیا اب گھربیٹھے دستیاب ہیں۔ یہ چند معروف آئن لائن شاپنگ کی ویب سائٹس کی عبارتیں ہیں، جو نئی ورائٹی رعایت کے ساتھ دینے کی پیشکش کر رہی ہیں۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں عید اور شادی بیاہ کے دنوں میں خریداروں کا رش بڑھ جاتا ہے، ہر عمر اور طبقے کے لوگ اپنے پسندیدہ کپڑوں اور دیگر اشیا خریدنے کے لیے بازاروں کے چکر لگاتے ہیں لیکن اب بیش تر مصنوعات آن لاِئن بھی دستیاب ہیں۔
وجیہہ ناز بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جوآن لائن خریداری کو ترجیح دیتی ہیں۔
ناز کہتی ہیں ”آن لائن خریداری سے وقت بچتا ہے اور یہ یقین بھی ہوتا ہے کہ آپ جو چیز خرید رہے ہیں وہ اصلی ہے کیونکہ بازاروں میں لان کے مشہور برانڈز کی نقل فروخت ہورہی ہے ۔
آن لائن شاپنگ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ خریدار اپنی پرائویسی قاءم رہتی ہے ۔ خریدار اپنے ذاتی کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ سے مختلف چیزیں خریدتے ہیں اور ان کو دکان داروں کے ساتھ تکرار بھی نہیں کرنا پڑتی۔
آن لائن خریدار انعم منظور احمد گزشتہ ایک سال سے آن لائن شاپنگ کر رہی ہیں، ان کے مطابق وہ ویب سائٹس پر موجود مصنوعات کی کوالٹی سے مطمئین ہیں۔ انعم نے بتایا کہ انہوں نے ایک معروف ویب سائٹ سے برانڈڈ چشمہ ، سوٹ اور اپنے شوہر کے لیے پرفیوم خریدا جو اصلی تھے۔ ممکن ہے کہ اگروہ کسی دکان سے لیتی تو دھوکہ ہوجاتا۔
پاکستان میں اس وقت آن لائن خریداری کے لیے کئی ویب سائٹس بن چکی ہیں۔ مگر ان کمپنیزاور یہاں سے خریداری کرنے والوں کی تعداد کا اندازہ نہ کراچی چیمبر آف کامرس کو ہے اور نہ ہی سٹیٹ بینک کو۔
پاکستان میں حالیہ چند برسوں کے دوران آن لائن شاپنگ کےرجحان میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ متوسط اور اعلی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین آن لائن شاپنگ کی سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کےمطابق بینک سے سالانہ41 کروڑستر لاکھ ڈالر کی ٹرانزیکشن ہوتی ہے جن میں سے ایک کروڑ 60 یا 70 لاکھ ڈالر آن لائن شاپنگ کی مد میں کی جاتی ہیں اور اس رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔
آن لائن شاپنگ میں پراڈکٹ کے پیسے اس وقت وصول کیے جاتے ہیں جب یہ صارفین تک پہنچ جاتی ہے، کیونکہ پاکستانی عموماً آن لائن ادائیگی کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں اس میں فراڈ کا خدشہ ہوتا ہے اور دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں کریڈٹ کارڈز کے حامل افراد کی تعداد بھی بہت کم ہے۔
ماہرِ اقتصادیات قیصر بنگالی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ “اس وقت چونکہ آن لائن بزنس بڑے پیمانے پر نہیں ہورہا جس کے باعث حکومت کو اس سے بہت کم ریونیو حاصل ہورہا ہے لیکن جیسے جیسے اس کا حجم بڑھے گا تو ملک کے زرمبادلہ میں بھی یقینی طورپر اضافہ ہوگا۔”
آن لائن شاپنگ کے فروغ کے لیے بھی ادارے وجود میں آچکے ہیں، ایسےہی ایک ڈیجیٹل مارکیٹنگ اکیڈمی کے سربراہ حارث غوری نے نیوزلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ” پورے جنوبی ایشیا میں آن لائن بزنس کے لیے سب سے زیادہ سازگار ماحول پاکستان میں ہے اور اس کاروبار سے خواتین کی بہت بڑی تعداد وابستہ ہے۔”
حارث غوری کے ادارے میں طالبعلموں سمیت مختلف کمپنیوں کو بھی آن لائن بزنس کی ٹریننگ فراہم کی جاتی ہے، ان کا کہنا ہے کہ چار ماہ کی تربیت پر ماہانہ بیس ہزار روپے کی لاگت آتی ہے۔
فرحین عاطف ملازمت کے ساتھ ساتھ گذشتہ تین برسوں سے پارٹ ٹائم آن لائن بزنس سے وابستہ ہیں اور کپڑے اور بیڈ شیٹس وغیرہ بیچتی ہیں۔ فرحین کہتی ہیں کہ وہ صرف خواتین کی دلچسپی کی مصنوعات فروخت کرتی ہیں جس کے باعث گاہکوں کی بڑی بھی خواتین پر ہی مشتمل ہے۔
شاہین عتیق ایک طالبہ ہیں اور پارٹ ٹائم ملازمت بھی کرتی ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک کورس کے پراجیکٹ کے سلسلے میں آن لائن بزنس شروع کیا اور اب وہ اپنی ایک ویب سائٹ چلا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آن لائن بزنس پر اتنی زیادہ لاگت نہیں آتی جبکہ اس کے برعکس دکان پر زیادہ لاگت آتی ہے۔
معروف آن لائن کمپنی کےکنٹری منیجرعلی زین شیخ نے نیوز لینز پاکستان کو بتایا کہ “مردوں کے مقابلے میں چونکہ آن لائن خریدار خواتین ہیں اسی لیے آن لائن خواتین کی مصنوعات زیادہ فروخت کی جاتی ہیں۔”
ایک گھریلو خاتون عائشہ عامر کا آن لائن شاپنگ کا تجربہ اچھا نہیں رہا۔ ان کے مطابق وہ آن لائن شاپنگ نہیں کرتیں کیوں کہ اس میں زیادہ تردھوکہ ہوتا ہے اور اخراجات بھی بہت زیادہ ہیں۔ “میں نے ایک سوٹ عام دکان سے 2200 کا لیا لیکن ایک آن لائن وہ چار ہزار چھ سو کا تھا۔ میرے شوہر نے جوتے منگوائے جو انتہائی غیر معیاری تھے جس کے باعث وہ واپس کردیے۔”
معروف آن لائن کمپنی کے کنٹری منیجرعلی زین شیخ تسلیم کرتے ہیں کہ مارکیٹ کے مقابلے میں قیمتوں میں تھوڑا بہت فرق ضرور ہوتا ہے اور یہ فرق اس لیے ہوتا ہے کہ آپ کو گھر بیٹھے ایک چیزمل رہی ہے۔ “اب تک کوالٹی کے حوالے سے تو کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی لیکن اگر ایک شخص بھی شکایت کرے وہ اسے بہت اہمیت دیتے ہیں۔”
ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی کے مطابق اس کاروبار میں سب سے اہم عنصر اعتماد کا ہے جس کا پاکستان کے آن لائن بزنس میں فقدان ہے۔خریدار اور دکاندار میں اعتماد کا رشتہ موجود نہیں ہے۔
موبائل فون پر تھری جی اور فور جی سہولت ملنے سے لاکھوں افراد کو موبائل فون کے ذریعے انٹر نیٹ کی سہولت مل گئی ہے اور یہ پیشرفت آن لائن خریداری کے لئے بہت فائدہ مند سمجھی جا رہی ہے۔
معروف کمپنی کے کنٹری ہیڈ کے مطابق آن لائن خریداری میں ملبوسات، جیولری، میک اپ اور موبائل فونز خریدنے کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔
آن لائن بزنس نے عام دکاندار بھی اس جانب متوجہ ہورہے ہیں۔ناظم آباد کے ایک دکاندار عطا اللہ کہتے ہیں، “میرا خیال ہے کہ اس میں زیادہ فائدہ ہے اور آپ گھر بیٹھے پورے ملک میں کاروبارکرسکتےہیں۔”