کراچی (شوکت کورائی) سندھ کی سکھ کمیونٹی نے سندھ اسمبلی کی جانب سے حال ہی میںمذہبی اقلیتوں کی شادیوں کے لیے پاس کیے جانے والے ہندو میریج لا کو رَد کیا ہے۔

پاکستان میں پہلی بار سندھ کی صوبائی اسمبلی نے صوبے میں مذہبی اقلیتوں کی شادیوں کو رجسٹر کرنے کے لیے فروری 2016ء میں قانون منظور کیا۔ پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہندوئوں کی جانب سے اس قانون کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔تاہم سکھوں نے اس بنیاد پر اس قانون کی مخالفت کی ہے کہ وہ ایک مختلف مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور اس بل کے تحت ان سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ اپنی شادیاں ہندو میریج لاز کے تحت رجسٹر کروائیں۔

1998ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی 93فی صد آبادی مسلمان ہے جب کہ مذہبی اقلیتوں میں ہندو، مسیحی اور سکھ شامل ہیں جو آبادی کے سات فی صد پر مشتمل ہیں۔ جنوبی سندھ کی نو فی صد آبادی مذہبی اقلیتوں پر مشتمل ہے۔

سکھ کونسل آف پاکستان سکھ کمیونٹی کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کے رہنمائوں کے مطابق پاکستان میں 20ہزار سکھ آباد ہیں جن کی اکثریت سندھ میں رہ رہی ہے۔

انہوں نے شادیوں کی رجسٹریشن کے لیے سندھ میں ہونے والی حالیہ قانون سازی کے حوالے سے سنجیدہ نوعیت کے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بل کے مندرجات کے مطابق ہندوئوں کی شادی کی رسومات ہندومت، سکھ مت اور جین مت میں ایک سی ہیں۔

سکھ کونسل آف پاکستان کے صدر رمیش سنگھ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہندو میریج بل کے ذریعے حکومت نے سکھوں پر بھی ہندو مت کا لیبل چسپاں کردیا ہے۔ ہم اس بل کی مخالفت کرتے ہیںکیوں کہ ہم ہندو نہیں ہیں بلکہ سکھ ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا:’’ ہم پاکستان میں شادیوں کی رجسٹریشن کی حمایت کرتے ہیں لیکن ہماری کمیونٹی کو ہندومت میں شامل کیے جانے پر تحفظات ہیں۔‘‘

رمیش سنگھ نے کہا:’’ ہمارے وفد نے اپنی شکایت جمع کروانے کے لیے سندھ اسمبلی کے اقلیتی نمائندوں سے ملاقات کی ہے جنہوں نے مثبت ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت بل میں ترمیم کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو سکھ اس قانون سازی کے خلاف احتجاج کریں گے۔

رمیش سنگھ نے خبردار کیا کہ اگر پاکستان اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہوجاتاہے تو سکھ کمیونٹی اس معاملے کو عالمی فورمز پر اٹھائے گی۔

انہوں نے کہا:’’ ہم 26جون کو کراچی پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتال کریں گے اور بعدازاں اسمبلی کے باہر احتجاج کیا جائے گا جس نے یہ متنازعہ قانون سازی کی ہے۔‘‘

صوبائی وزیر ڈاکٹر سکندر علی میندھرو نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ اگر قانون سازی کے حوالے سے کوئی خدشات ہیں تو ان کے بارے میں آگاہ کیا جائے تاکہ پارلیمان اس قانون میں ترمیم کرسکے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ سندھ اسمبلی سکھ کمیونٹی کے احتجاج کی بجائے بل میں ترمیم کے بارے میں غور کرے گی۔

ڈاکٹر سکندر علی میندھرو نے کہا کہ حکومتِ سندھ نے بل پاس کرنے سے قبل اقلیتوں کے نمائندوں کو ترمیم تجویز کرنے کے لیے مینڈیٹ دیا تھا۔ اس بل کو ہر ایک کی منظوری کے بعد اتفاقِ رائے سے منظور کیا گیا۔

سندھ اسمبلی کی اقلیتوں کے لیے مخصوص نشست پر کامیاب ہونے والے رُکن دیوان چند چاولہ ان قانون سازوں میں شامل ہیں جنہوں نے ’’ہندو میریج لا‘‘ کامسودہ اسمبلی میں پیش کیے جانے سے قبل اس پر نظرثانی کی تھی۔ وہ اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اقلیتی امور کے رُکن بھی ہیں، دیوان چند چاولہ ’’ہندو میریج لا‘‘ کے حوالے سے سکھ کونسل کی تجاویز سے اتفاق کرتے ہیں۔

انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا:’’ سکھ کونسل آف پاکستان کی جانب سے تجاویز خاصی تاخیر سے آئی ہیں۔ اس دوران بل منظور ہوا اور گزٹ میں شامل کرلیا گیا۔‘‘

دیوان چند چاولہ نے اسمبلی میں قانون کے نام اور اس کے مندرجات میں ترمیم کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے کہا:’’ میں اس حوالے سے جلد کام شروع کردوں گا اور ہم فریقین کو اعتماد میں لیں گے اور اس حوالے سے تمام قانون سازوں کو آگاہ کردیا جائے گا۔‘‘

دوسری جانب ہندو کمیونٹی نے اس بل کے پاس ہونے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر جے رام کی چار برس قبل ڈاکٹر سیتا سے شادی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا:’’ ہم ہنی مون منانے کے لیے اسلام آباد کے نزدیک مری گئے اور اپنے قیام کے دوران ہوٹل نے کرایے پر کمرہ نہیں دیا کیوں کہ میری اہلیہ کے شناختی کارڈ پر ان کے والد کا نام درج تھا اور شوہر کی حیثیت سے میرا نام درج نہیں ہوسکتا تھا۔‘‘ ڈاکٹر جے رام نے بل کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک درست اقدام ہے۔

سندھ اسمبلی کے ایک اور رُکن نند کمار گوکلانی نے بھی یہ یقین دہانی کروائی کہ ان کے مطالبات پورے کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا:’’ سکھ کمیونٹی کی شکایات موصول ہوئی ہیں جن کے ازالے کے لیے ہم ہر اقدام کریں گے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here