پشاور( اسد خان سے) بسمینہ بی بی ہوا میں ہاتھ اٹھاتی ہیںگویادعا کررہی ہوں۔ ان کے ساتھ چارپائی پر تین خواتین بیٹھی ہیں جن کے چہروں پر امید کی جھلک نمایاں ہوتی ہے اور وہ معجزے کی امید کررہی ہیں۔ بسمینہ بی بی نے اپنا چہرہ سفید چادر سے ڈھانپ رکھا ہے، وہ اپنی آنکھیں بند کرتی ہیں اور قرآنی آیات کی تلاوت کرتی ہیں جیسا کہ کسی کو بلا رہی ہوں۔
 بسمینہ بی بی کا چہرہ اچانک سرخ ہوجاتا ہے۔ آنکھوںسے آنسو رواں ہوتے ہیں اور آواز تبدیل ہوجاتی ہے۔ اور تب وہ مردانہ آواز میں بات کرتی ہیں، اور اپنے ساتھ بیٹھی خواتین سے ان کے مسائل کے بارے میں استفسار کرتی ہیں۔ بسمینہ بی بی یاپھر وہ مخلوق جو ان میں خلول کرچکی ہے، ہر خاتون کو قرآنی آیات دعا کے طور پر بتاتی ہے۔ وہ ان کو کہتی ہیںکہ وہ روزانہ مقررہ وقت پر دعا کیا کریں تاکہ ان کے مسائل حل ہوجائیں۔
32برس کی بسمینہ بی بی پانچ بچوں کی ماں ہیں۔ وہ ضلع مردان کے گائوں قاضی آباد سے تعلق رکھتی ہیں، یہ صوبہ خیبر پختونخوا کا دوسرا اور ملک کا 19واں بڑا شہر ہے۔ وہ ایک روحانی معالج ہیں جو لاعلاج بیماریوں، بانجھ پن، تعلقات میں کشیدگی اور گھریلو مسائل کے حل کے لیے تعویز لکھتی ہیں اور دعائیں کرتی ہیں۔
پاکستان کے دیہات میں بسنے والی آبادی کی اکثریت کی صحت کی سہولیات اور خاص طور پر نفسیاتی علاج تک رسائی انتہائی محدود ہے، لوگ اپنے مسائل کے حل اور بیماریوں کے علاج کے لیے ڈاکٹرز سے زیادہ روحانی معالجین اور حکیموں پر انحصار کرتے ہیں۔اگرچہ ماہرین اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن ان غلط سرگرمیوں کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہیں لیکن لوگ اوربالخصوص خواتین کی ایک بڑی تعداد روحانی معالجین سے دعائوں اور دیسی ادویات کے لیے رجوع کرتی ہے۔
پاکستان یا خیبر پختونخوا میں کام کرنے والے ان روحانی معالجین کی درست تعداد کے بارے میں کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ تاہم سماجی کارکن قمر نسیم کے مطابق ایسے روحانی معالجین کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے کیوں کہ ’’ لوگ ڈاکٹروں سے مایوس ہوچکے ہیں اور ان کا روحانی معالجین اور تعویزگنڈا کرنے والوں پر اعتماد بڑھا ہے۔‘‘
قمر نسیم کہتے ہیں:’’ سماجی مسائل نے ہمارے معاشرے پر یلغار کررکھی ہے اور لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے بے چین رہتے ہیں جس کے لیے کہیں بھی جانے اور کوئی بھی قیمت ادا کرنے پر تیار رہتے ہیں۔‘‘ وہ ماورائی مخلوق سے مدد حاصل کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
قاضی آباد کے دیہاتیوں کے مطابق دن کے مخصوس وقت پر ایک مرد جن بسمینہ بی بی میں خلول کرجاتا ہے جو لوگوں کے مسائل سنتا ہے اور ان کے حل کے لیے دعا کرتا ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد بسمینہ بی بی کی مدد حاصل کرتی ہے جو دور دراز علاقوں سے اپنے مسائل کے حل کے لیے ان کے گھر پہ جمع ہوتے ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کی دعائیں قبول ہوچکی ہیں۔ وہ بی بی کے لیے قیمتی تحائف لے کر آتے ہیں۔
قمر نسیم کہتے ہیں کہ روحانی معالجین پر صرف ان پڑھ یا ضعیف الاعتقاد لوگ ہی اعتماد نہیں کرتے۔ تعلیم یافتہ افراد بھی ان روحانی معالجین پر اعتماد کرتے ہیں اور خواتین خاندان کے مرد ارکان کو ان روحانی معالجین کی رہنمائی حاصل کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔قمر نسیم کے مطابق خواتین جب روحانی معالجین کے بارے میں سنتی ہیں تو مردوں سے کہتی ہیں کہ اگرروحانی معالجین کی مدد سے دوسروں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں تو ان کے کیوں نہیں ہوسکتے۔
بابا جی مرد ان کے ایک معروف روحانی معالج ہیں جن سے نہ صرف ضلع بلکہ پاکستان بھر سے لوگ رہنمائی کے لیے رجوع کرتے ہیں۔ بابا جی، ایک ادھیڑ عمر شخص ہیں اور قصبہ رستم میں رہتے ہیں جہاں لوگ جوق در جوق ان کے ڈیرے پہ آتے ہیں اور خانگی، جائیداد، محبت، کاروبار اور ملازمت میں درپیش مسائل کے حوالے سے مدد حاصل کرتے ہیں۔
بابا جی گزشتہ 12برس سے روحانی علاج کررہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے برسوں کی تحقیق اور مطالعہ کے بعد روحانی علاج شروع کیا۔ باباجی کہتے ہیں کہ جنوں کے ساتھ رابطہ ان کے علاج کا ایک اہم جزو ہے۔
انہوں نے کہا:’’ میں نے تجربہ حاصل کرنے کے لیے نہ صرف مشکل حالات کا سامنا کیا بلکہ خطرناک مقامات کا رُخ بھی کیا۔جنوں کے ساتھ کام کرنا بزدلوں کے لیے ممکن نہیں ہے۔‘‘
عابد حسین ایک نوجوان روحانی معالج ہیں اوراپنے پاس مدد کے لیے آنے والے لوگوں کے لیے تعویز لکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تعویز نویسی کا فن ایک ہزار برس پرانا ہے۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم ایسا کوئی کام نہیں کرتے جو اسلامی اقدار کے خلاف ہو اورایک مسلمان کے طورپر ہمارے لیے بدنامی کا باعث ہو۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس وقت بہت سے جعلی روحانی معالجین کام کررہے ہیں جو مذہب اور قرآن حکیم کے بارے میں کوئی علم نہیں رکھتے۔ عابد حسین نے مزید کہا:’’ وہ سادہ لوح لوگوں کو بیوقوف بناکر پیسہ بنانے کے لیے یہ کام کررہے ہیں۔ میں اس طرح کام نہیں کرتا۔ میں لوگوں کے مسائل سنتا ہوں اور قرآنِ حکیم کی روشنی میں ان کا حل تلاش کرتا ہوں۔ ان کو شفا دینا اور ان کے مسائل کا حل خدا کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ زیادہ تر لوگ گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے ان روحانی معالجین کے پاس آتے ہیں،ہوتا کچھ یوں ہے کہ خاندان کے ارکان حسد کی آگ میں جل کر اپنے ہی رشتہ داروں پر کالا جادو کرکے ان کے لیے مسائل پیدا کردیتے ہیں۔‘‘ عابد حسین نے کہاـ’’لوگ عاملوں کے ذریعے اپنے خاندان کے ارکان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے لیے کالا جادو کروانے پر ہزاروں روپے خرچ کردیتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہاکہ انہوں نے ’’ اللہ کی رحمت سے‘‘ کالے جادو سے متاثرہ لوگوں کا علاج کیا اور قرآنِ حکیم کی آیات سے اس کے اثرات زائل کیے۔
تاہم مردن کے معروف عالمِ دین مولانا محمد بلال کے مطابق اسلام میں تعویز نویسی اسی صورت میں جائز ہے جب کچھ اصولوں پر عمل کیا جائے۔ انہوں نے کہا:’’ تعویز پر لازمی طور پر اللہ اورقرآنی آیات نقش کی جائیں۔‘‘
مولانا محمد بلال کہتے ہیں کہ اسلام نے دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لیے تعویز لکھنے سے منع کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں کالا جادوپر ممانعت ہے کیوں کہ اس سے لوگوں کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔
ماہرینِ نفسیات کے مطابق لوگوں کے روحانی معالجین سے علاج کروانے کی بڑی وجہ ڈپریشن ہے جو پاکستانی سماج میں ایک وبا کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے کیوں کہ حالیہ برسوں کے دوران ہمارا معاشرہ نہ صرف بہت زیادہ شورش کا شکار رہا ہے بلکہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی بھی ہوئی ہے۔خیبر میڈیکل کالج کے شعبۂ نفسیات کے سربراہ ڈاکٹر محمد سلطان کہتے ہیں کہ ملک کی 40فی صدآبادی ڈپریشن کا شکار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مریضوں کی اکثریت نفسیاتی عارضوں کا علاج نہیں کرواتی کیوں کہ تقریباً52فی صد آبادی کی جدید طبی سہولیات تک رسائی نہیں ہے۔ ڈاکٹر محمد سلطان نے کہا کہ اس کی وجہ حکومت کی جانب سے مناسب فنڈنگ کانہ ہونا، ماہرینِ نفسیات کی کمی، آگاہی نہ ہونا، ثقافتی عقائد اور نفسیاتی علاج کروانے کے لیے روحانی معالجین و نیم حکیموںسے رجوع کرنا ہے۔
ڈاکٹر محمد سلطان نے روحانی معالجین پر لوگوں کا غلط اور غیر قانونی علاج کرنے پر تنقید کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے کیوں کہ یہ لوگوں کو بیوقوف بنا کر ان سے رقم بٹورتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب لوگ علاج کروانے کے لیے بھاری بھرکم فیس ادا نہیں کرپاتے تو وہ روحانی معالجین اور مزاروںکا رُخ کرتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد سلطان نے کہا:’’ حکومت کو ضلع کی سطح پر صحت کی سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کی ہسپتالوں اور تربیت یافتہ ڈاکٹروں تک رسائی ممکن ہوسکے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here