اسلام آباد ( رحمت محسود سے) نیوز لینز پاکستان کو موصول ہونے والی دستاویزات سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان تشدد سے متاثرہ ملک افغانستان کو نصف بلین ڈالرز کی امداد فراہم کرکے اپنا تشخص بہتر بنانے کی امید رکھتا ہے۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے افغانستان کو صحت وتعلیم کے شعبوں کے فروغ اور انفراسٹرکچر بہتر بنانے کے لیے پانچ سو ملین ڈالر زدینے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
مزیدبرآں، مذکورہ وفاقی وزیر یہ بھی کہتے ہیںکہ پاکستان افغان طالب علموں کو ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے تین ہزار سکالر شپوں کی پیش کش کر رہا ہے۔
تقریباً ایک سو طالب علم ملک کے نمایاں تعلیمی ادارے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں تعلیم حاصل کریں گے۔ان دستاویزات میں مذکورہ وفاقی وزیر کا یہ بیان بھی شامل ہے:’’پاکستان تمام پڑوسی ملکوں بالخصوص افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ فن کاروں، کاروباری حضرات اور سکالرز کے وفود کے تبادلے کی شدید ضرورت ہے تاکہ پاکستان و افغانستان کے دوطرفہ تعلقات کو مضبوط کیا جائے۔
کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے پریس قونصلر افتخار منیر نے ای میل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا ’’ افغانستان کے تباہ حال انفراسٹرکچر جیسا کہ تعلیم، صحت اور کمیونیکیشن اور سڑکوں کے شعبوں کی بحالی‘‘ کے حوالے سے اہم کردار رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ پاکستان کابل میں چار سو بستروںپر مشتمل جناح ہسپتال، نشتر کڈنی سنٹر جلال آباداور 200بستروں پر مشتمل نائب امین اللہ ہسپتال لوگرکے لیے نہ صرف فندنگ فراہم کررہا ہے بلکہ افغانستان کی حکومت کو 45ایمبولینسیں بھی دی جاچکی ہیں۔‘‘
افتخار منیر نے کہا کہ پاکستان نے مغربی صوبے ننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد میں ایک ہفتے تک آنکھوں کے علاج کے لیے فری کیمپ لگایا جس میں 4,818مریضوں کا علاج کیا گیا، آنکھوں کے 357آپریشن کیے گئے جب کہ 4,126نظر کی عینکیں تقسیم کی گئیں۔
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں زیرِتعلیم ایک افغان طالب علم عبدالوکیل نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغان طالب علموں کے لیے تمام شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے سستا ترین ملک ہے۔
انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا:’’ بہت سی وجوہات کے باعث ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خوشگوار نہیں ہے لیکن پاکستان ہر حوالے سے افغان شہریوں کا مددگار ثابت ہوا ہے۔‘‘
افتخار منیر نے کہاکہ سینکڑوں افغان طالب علم انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد کے مختلف شعبوںـ میں زیرِ تعلیم ہیں‘ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان شعبۂ تعلیم کے علاوہ کابل کی طرف جانے والی سڑکوں کی تعمیر کے لیے بھی بڑے پیمانے پر فنڈز فراہم کررہا ہے۔
خطے اور دنیا کے بہت سے ممالک جیسا کہ انڈیا اور امریکہ، افغانستان میں انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہے ہیں، افغانستان کی جانب سے پاکستان پر یہ الزام عاید کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کی ان کے ملک میں ترقیاتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی بجائے زیادہ توجہ تشدد کو بڑھاوا دینے میں رہی ہے۔
میڈیا میں آنے والی رپورٹوں کے مطابق28مارچ کو افغانستان کے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی کے قائم مقام سربراہ مسعود انداربی نے اپنی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی عسکریت پسند گروہوںـ سے منسلک دہشت گرد افغان حکومت کے خلاف سرگرم ہوچکے ہیں۔انہوں نے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں پر افغانستان میں عسکریت پسند سرگرمیوں کا دائرہ کار بڑھانے کا الزام بھی عاید کیا۔
افغان پارلیمان کے ایوانِ زیریں نے افغانستان کی موجودہ صورتِ حال کے حوالے سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے کچھ سینئر حکام کو طلب کیا تھا، مسعود اندرابی نے قانون سازوں سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ امن تمام افغانیوں کی خواہش ہے۔‘‘
لیکن وفاقی وزیربرائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کہتے ہیں:’’ہم نے پاکستان و افغانستان کے تعلقات میں ایک نئے سفر کا آغاز کرنا ہے اور معاشی و سماجی مسائل پر توجہ مرکوز کرنی ہے۔‘‘
انہوںنے کہا کہ ایک ملک دوستوں کا انتخاب تو کرسکتا ہے لیکن پڑوسیوں کا نہیں اور دونوں ملکوں کے لیے دوطرفہ تعلقات بہتر بنانا انتہائی اہم ہے۔
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد میں زیرِ تعلیم ایک اور طالب علم حمید جان نے کہا کہ اگرچہ حکومتوں کی سطح پر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خوشگوار نہیں ہیں لیکن پاکستان کی جانب سے ہزاروں طالب علموں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ دینا قابلِ تعریف ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ میں چاہوں گا کہ حکومتِ پاکستان افغان طالب علموں کے لیے میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں نشستوں کی تعداد بھی بڑھائے۔‘‘
مذکورہ دستاویزات کے مطابق پاکستان نے افغانستان کے مختلف تعلیمی اداروں جیسا کہ کابل یونیورسٹی کی علامہ اقبال فیکلٹی آف آرٹس، ننگر ہار یونیورسٹی کی سرسید فیکلٹی آف سائنسز، لیاقت علی خان انجینئرنگ یونیورسٹی بلخ، رحمان بابا سکول کابل اور رحمان بابا ہاسٹل کابل کے لیے فنڈنگ فراہم کی ہے۔
افتخار منیر کہتے ہیں:’’ پاکستان نے افغان طالب علموں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے تین ہزار سکالر شپس کے لیے تمام تر فنڈنگ فراہم کی ہے۔‘‘ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران 35ہزار افغان طالب علموںنے پاکستان سے گریجویشن اور ماسٹرز کیا ہے۔
افتخار منیر نے کہا کہ پانچ لاکھ مہاجر طالب علم پاکستان بھر کے مختلف سکولوں میں زیرِتعلیم ہیں۔ ان دستاویزات سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ پاکستان نے پولیس اور انسداد منشیات کے سات سو افسروں، ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف، سفارت کاروں، عدالتی افسروں، کسٹم کے افسروں، ماہرینِ زراعت، ایئرلائن کے عملے اور بینکرز کو تربیت دی ہے۔
ترقیاتی سرگرمیوں اور سڑکوں کی تعمیر کے حوالے سے ان دستاویزات میں کہا گیاہے کہ پاکستان نے 75کلومیٹر طویل طورخم، جلال آباد روڈ کے علاوہ طورخم، جلال آباد روڈ کو توسیع دینے، جلال آباد میں تین سڑکیں بنانے اور کابل و پشاور کے درمیان ڈیجیٹل ریڈیو لنک قائم کرنے کے لیے فنڈنگ کی ہے۔
ان دستاویزات میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان، افغانستان کی حکومت کو پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے ایک سو بسیں اور دو سو ٹرک بھی فراہم کرچکا ہے۔
مذکورہ دستاویزات کے مطابق30لاکھ سے زائد افغان مہاجرین گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ سے پاکستان میں آباد ہیں جو نہ صرف تعلیم و صحت کی سہولیات بلکہ معاشی فوائد بھی حاصل کررہے ہیں۔
پاکستان کو خطے کے دیگر ممالک جیسا کہ انڈیا اور حتیٰ کہ افغانستان کی جانب سے اس حوالے سے شدید ترین تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ جنگ سے متاثرہ ملک میں ترقیاتی سرگرمیوں میں فعال انداز سے حصہ نہیں لے رہا۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق افغان صدر اشرف غنی کئی مواقع پرپاکستان سے طالبان کے خلاف کارروائی تیز کرنے کا کہہ چکے ہیں۔
لیکن وزارتِ منصوبہ بندی کے ایک سینئر افسر پرامید ہیں کہ نیا منصوبہ پاکستان کا تاثر بہتربنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں زیرِتعلیم ایک پاکستانی طالب علم زاہد شاہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو بیرونی ممالک اور بالخصوص افغان طالب علموں کے لیے سکالر شپس بڑھانا ہوں گی جس سے طویل المدتی تناظر میں افغانیوں کے غصے پر قابو پانے میں مدد حاصل ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا:’’ بہت سے افغان شہری اپنے ملک کی تمام تر خرابیوں کی ذمہ داری پاکستان پر عاید کرتے ہیں۔‘‘
کابل سے تعلق رکھنے والے فری لانس صحافی اور تجزیہ کار حکمت صافی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو تباہ حال انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے افغانستان کی مدد کرنی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان کا افغانستان میں قیامِ امن کے لیے کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’پاکستان کو اگر کوئی تحفظات ہیں تو افغانستان کو چاہیے کہ وہ ان کو دور کرے کیوں کہ دونوں ملکوں میں نہ صرف امن بلکہ کشیدہ صورتِ حال کا بھی آپس میں گہرا تعلق ہے۔‘‘ حکمت صافی کا کہنا تھا کہ پاکستان اگرچہ افغانستان میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سرمایہ کاری کررہا ہے لیکن اس سرمایہ کاری کا ایک مقصد عام افغانیوں کا معیارِ زندگی بہتر بنانا بھی ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے جن منصوبوں کے لیے فنڈنگ فراہم کی گئی ہے‘ ان پر سست روی سے کام آگے بڑھ رہا ہے جیسا کہ لوگر ہسپتال کو مزید تاخیر کے بغیر جلد از جلد مکمل ہوجانا چاہیے۔
تاہم اسلام آباد میں قائم افغانستان کے سفارت خانے سے اس بارے میں جاننے کے لیے متعدد کوششوں کے باوجود بھی رابطہ قائم نہ ہوسکا۔
افغانستان میں پاکستان کے سابق سفارت کار اور قبائلی و افغان امور کے ماہر رستم شاہ مہمند کہتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے کیے گئے اقدامات ’’قابلِ ستائش‘‘ ہیں لیکن پاکستان کو دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی بحالی کے لیے فی الحال بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ عدم اعتماد کی فضاء دونوں ملکوں پر اثرانداز ہورہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کو عدم اعتماد کے اس ماحول کو ختم کرنے کے لیے تمام تر مسائل پر واضح انداز سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
رستم شاہ مہمند نے کہا کہ پاکستان کا افغانستان کے مسائل پر قابو پانے کے لیے معاشی تعاون بڑھانا حوصلہ افزا اَمر ہے لیکن پاکستان کو کئی برسوں پر طویل جنگ کے باعث تباہ ہونے والے اپنے انفراسٹرکچر کی بحالی پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام ( ڈبلیو ایف پی) کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کی آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصہ خوراک کی کمی کا شکار ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس قدر قوت بخش خوراک اصل نہیں کرپاتے جس سے وہ ایک فعال اور صحت مند طرزِ زندگی اختیار کرسکیں۔
حالیہ ترقی کے باوجود لاکھوں افغان شہری انتہائی غربت کی زندگی بسر کررہے ہیں جن کی خوراک اور دیگر بنیادی ضروریات تک رسائی نہ ہونے کے برابر ہے۔
قبائلی علاقوں میں تعلیمی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم ’’ٹیچ فار فاٹا‘‘ کے سربراہ عبدالسلام آفریدی پاکستان کے افغانستان کے لیے تعاون کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کو اپنے تباہ حال انفراسٹرکچر کی بحالی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ ایک پُرامن کل کے لیے تبدیلی اسی صورت میں آسکتی ہے جب دونوں ملکوں میں مرد وخواتین کو تعلیم دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔‘‘
عبدالسلام آفریدی نے کہا:’’ بچوں کی تعلیم دونوں ملکوں میں خوشحالی کے لیے اکسیر کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here