پشاور (شیراز اکبرسے) وسیم احمد پشاور کے ایک نجی سکول میں زیرِتعلیم دو بچوں کے باپ ہیں جنہیں وہ شام کے اوقات میں ٹیوشن کے لیے ایک نجی اکیڈمی میںبھی بھیجتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سکول میں تعلیم کا معیار اس قدر بلند نہیں ہے کہ ان کے بچے امتحانات میںاعلیٰ نمبروں سے پاس ہوسکیں۔
ان کا مزید کہنا تھا:’’میں نے اپنے بیٹے احمد کے لیے پرائیویٹ ٹیوشن کا بندوبست کیا جو امتحانات میں اعلیٰ نمبر حاصل نہیں کرسکا تھا، بیٹی لاریب کے لیے بھی ٹیوشن کا اہتمام کیا ہے جس کے باعث اب وہ سکول میں تعلیم کے غیر معیاری ہونے کے باعث اپنی جماعت میں پیچھے نہیں رہے گی۔‘‘
پاکستان میں پرائیویٹ ٹیوشن پڑھانا ایک روایت بن چکی ہے جس کے باعث والدین کو اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے الگ سے پیسے ادا کرنا پڑتے ہیں جب کہ وہ سکولوں میں ان کی تعلیم پر پہلے ہی بڑے پیمانے پر اخراجات کررہے ہوتے ہیں۔وسیم احمد کی طرح دیگر والدین بھی اپنے بچوں کے لیے پرائیویٹ ٹیوشن کا بندوبست کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جیسا کہ وسیم احمد کہتے ہیں کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کچھ ایسا ہوتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے تھے جو ان کے بیٹے کے ساتھ ہوا۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میرے پاس اس قدر وقت نہیں ہے کہ اپنے بچوں کو پڑھا سکوں اور میری بیوی کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کیوں کہ مضامین انتہائی پیچیدہ ہیں کہ وہ ان کو سمجھ سکے۔‘‘
’’متوازی تعلیم‘‘ کے طور پر معروف یاجیسا کہ ماہرین کی جانب سے پرائیویٹ ٹیوشن کو ’’تعلیم کی تیسری پرت‘‘ قرار دیا جاتا ہے جوسرکاری و نجی تعلیمی شعبوں کے متوازی موجود رہا ہے اور جنوبی ایشیائی ممالک میں بڑے پیمانے پر مقبول ہے لیکن اس کے اثرات پر بہت کم تحقیق کی گئی ہے۔
رھوڈز سکالر ڈاکٹر منزہ اسلم کے تحقیقی مقالے بعنوان ’’پاکستان میں نجی ٹیوشن کی صنعت: ایک پریشان کن رجحان‘‘ میں کہا گیا ہے:’’ نجی ٹیوشن اور طالب علموں کی کامیابی کے درمیان تعلق تلاش کرنے کے ضمن میں پالیسی سازی کے حوالے سے دلچسپی میں دن بدن اضافہ ہورہاہے کیوں کہ اس کی وجہ سے سکولوں میں تعلیم کے معیار پر سوالیہ نشان پیدا ہوتا ہے۔‘‘مذکورہ تحقیقی مقالے میں مزید کہا گیا ہے:’’اضافی اخراجات ادا کرنے اور مزید مدد کے حصول کے حوالے سے بھی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سوالات اس لیے بھی زیادہ اہمیت اختیار کرجاتے ہیں کیوں کہ آئین کی شق 25کے تحت تعلیم کے حصول کی فراہمی کو بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے۔‘‘
ورلڈ بنک کے تحقیقی مقالے بعنوان ’’پرائیویٹ ٹیوشن کے بڑھتے ہوئے رجحان‘‘ میں کہا گیا ہے کہ پرائیویٹ ٹیوشن دنیا کے بہت سے حصوں میں مقبول ہوچکی ہے جن میں ترقی پذیر ممالک بھی شامل ہیں۔ اس تحقیقی مقالے میں مزید کہا گیا ہے:’’ جاپان سے اس طرز کے تعلیمی نظام کی ابتدا ہوئی۔ پرائیویٹ ٹیوشن کی فراہمی جاپان میں طویل عرصہ قبل ہی ایک بڑی کاروباری صنعت بن گئی تھی جس سے ہونے والی سالانہ آمدن نوے کی دہائی کے وسط تک ایک اندازے کے مطابق 14ارب ڈالرز تک پہنچ چکی تھی۔ سکولوں کے سے جوش و خروش کو ابھارنے کے لیے بہت سے نجی ٹیوشن سکولوں(جوکو) نے اپنے طالب علموں پر یہ پابندی عاید کی کہ وہ سفید رنگ کے سربند پہنیں جیسے کبھی سمورائی جنگجو جنگوں کے دوران پہنا کرتے تھے۔‘‘
پاکستان میں اس رجحان کے حوالے سے تازہ ترین اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، 2011ء کی سالانہ تعلیمی رپورٹ سے یہ منکشف ہوتا ہے کہ تین سے 16برس تک کی عمر کے 11فی صد بچے پرائیویٹ ٹیوشن حاصل کررہے ہیں اور دیہی پاکستان میں 293روپے ماہانہ فیس ادا کرتے ہیں۔اس رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا:’’ بچوں کی ٹیوشن پر خرچ کی جانے والی یہ رقم ماہانہ تین اعشاریہ چار ڈالرز بنتی ہے۔ یہ رقم اس صورت میں غیر معمولی نہیں ہے جب پاکستان کی 60فی صد آبادی مختلف اعداد و شمار کے مطابق 2ڈالرز روزانہ سے بھی کم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔‘‘
پشاور کے ایک نجی سکول سے وابستہ استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، کیوں کہ وہ اس حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار تھے ، نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پرائیویٹ ٹیوشن کے رجحان کے مقبولِ عام ہونے کے ذمہ دار سکول ہیں کیوں کہ’’یہ ان کی اہم ترین ذمہ داری ہے کہ وہ اساتذہ کی جانب سے بچوں کو تعلیم کی فراہمی میں مددکو یقینی بنائیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ جب میں نے شعبۂ تدریس کا انتخاب کیا توہر بچے پر انفرادی توجہ دینے کی پوری کوشش کرتا جس کی انہیں ضرورت تھی اور ظاہر ہے کہ میرا بہت سارا وقت صرف ہوجاتا ۔ کچھ ہی ہفتوں بعد سکول کی انتظامیہ نے مجھ سے کہا کہ میں پیچھے رہ گیا ہوں جب کہ میرے ساتھی اساتذہ، جو سکول کے دیگر سیکشنز میں اسی مضمون کی تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں، پہلے سے ہی اپنا کورس مکمل کرچکے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھاکہ ان سے کہا گیا کہ وہ دوسرے اساتذہ کی طرح تدریس کے فرائض انجام دیں یا ملازمت چھوڑ دیں۔
قاسم، پشاور میں ایک نجی ٹیوشن اکیڈمی کے مالک ہیں، کہتے ہیں کہ ان کے ٹیوشن سنٹر میں جماعت اول سے انٹرمیڈیٹ تک کے طالب علم زیرِ تعلیم ہیں لیکن ان میں بڑی تعداد جماعت نہم سے انٹرمیڈیٹ تک کے طالب علموں کی ہے جنہیں سائنس کے مضامین جیسا کہ طبیعات، کیمیا، حیاتیات اور ریاضی کے مضامین میں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔
 جماعت ہفتم تک اکیڈمی فی طالب علم تمام مضامین کی تدریس کے دو ہزار روپے ماہانہ فیس وصول کرتی ہے لیکن جماعت ہشتم سے انٹرمیڈیٹ تک فی مضمون فیس تدریس کے ایک ہزار روپے بطور فیس وصول کیے جاتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سائنس کے مضامین کی ٹیوشن مہنگی ہے کیوں کہ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد ان مضامین میں ہی ٹیوشن حاصل کرنے کی خواہاں ہوتی ہے۔
قاسم نے کہا:’’ اب والدین اس قدر مصروف ہوچکے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو مناسب وقت نہیں دے پاتے جس کے باعث دن بدن ایسے والدین کی تعداد بڑھ رہی ہے جو اپنے بچوں کو اکیڈمیوں میں داخل کروا رہے ہیں۔ اکیڈمیاں ان طالب علموں کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہیں جو تعلیم میں کمزور ہوتے ہیں لیکن یہ مواقع کی فراہمی کے حوالے سے خلیج بھی پیدا کرتی ہیںکیوں کہ طالب علموں کی اکثریت اپنے بچوں کو اکیڈمی داخل نہیں کروا سکتی۔‘‘
سکول کے ایک استاد نواز آفریدی نے کہا کہ کلاس میںہر طالب علم کو انفرادی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے جو اساتذہ کے لیے فراہم کرنا تقریباً ناممکن ہے کیوں کہ اب کلاس میں بچوں کی ایک بڑی تعداد زیرِتعلیم ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان طالب علموں کو یہ توجہ پرائیویٹ ٹیوشن اکیڈمیوں میں ملتی ہے اور یوں وہ بہتر طور پر سیکھ پاتے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس تاثر کو رَد کیا کہ سکولوں میں اساتذہ جان بوجھ کر اس انداز سے پڑھاتے ہیں کہ طالب علم پرائیوٹ ٹیوشن اکیڈمیوں کے توسط سے ان کی مدد حاصل کرنے پر مجبور ہوجائیں۔
2011ء کی سالانہ تعلیمی رپورٹ کے تحت پاکستان کے تین بڑے شہروں میں ایک سروے کیا گیا جس سے یہ منکشف ہوا کہ لاہور میں 62فی صد، کراچی میں 54فی صد اور پشاور میں 34فی صد بچے اکیڈمیوں میں زیرِتعلیم ہیں یا پھر گھروں پہ پرائیویٹ ٹیوشن حاصل کررہے ہیں۔
پاکستان میں والدین میں اپنے بچوں کو مالی مشکلات کے باوجود نجی سکولوں میں پڑھانے کا رجحان پایا جاتا ہے جو یہ تصور کرتے ہیں کہ نجی سکول معیاری تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ سے یہ منکشف ہوتا ہے کہ پنجاب میں پرائیویٹ ٹیوشن پڑھنے والے طالب علموں میںسرکاری سکولوں(16فی صد) کی نسبت نجی سکولوں (30فی صد) کے طالب علموں کا تناسب زیادہ ہے۔
پشاور کے نجی سکول کی پرنسپل زینب نے کہاکہ یہ درست ہے کہ نجی سکولوں کے طالب علموں کی زیادہ تعداد اکیڈمیوں میں زیرِتعلیم ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نجی سکولوں کا معیارِ تعلیم گراوٹ کا شکار ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’نجی سکولوں میں زیرِتعلیم طالب علموں کے والدین زیادہ باشعور اور معاشی طور پر ان والدین سے بہتر ہوتے ہیں جن کے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث نجی سکولوں کے طالب علموں کی پرائیویٹ ٹیوشن حاصل کرنے کی شرح زیادہ ہے۔‘‘
ایک نجی سکول سے منسلک سکول ٹیچر شبانہ نے کہا کہ نجی و سرکاری سکولوں میں معیارِ تعلیم کا گراوٹ کا شکار ہونا وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث طالب علم اکیڈمیوں کا رُخ کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا :’’ سکول پیسے کمانے کا ایک ذریعہ اور ڈگری جاری کرنے کی فیکٹریاں بن چکے ہیں جس کے باعث پرائیویٹ ٹیوشن نے ایک صنعت کا روپ دھار لیا ہے۔ اگر سکول و اساتذہ اپنی ذمہ داری کا ادراک کریں تو یہ صنعت خود بخود دم توڑ جائے گی۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here