لاہور (دردانہ نجم سے) میڈ اِن پاکستان کے ٹیگ کے ساتھ پاکستان سپر لیگ(پی ایس ایل) کا انعقاد ملک میں ہونا چاہیے تھا لیکن پاکستان میں عالمی کرکٹ پر بندش کے باعث یہ ٹورنامنٹ سات سمندر پار ہوا۔
سابق کرکٹرز اور ماہرین یہ سوال کرتے ہیں؛ اگر پی ایس ایل ایک بین الاقوامی ٹورنامنٹ نہیں تھا تو اس صورت میں یہ پاکستان میں کیوں کرمنعقد نہیں ہوا؟
پاکستان سپر لیگ، جو T-20فارمیٹ پر کھیلا جارہا ہے، میں پانچ ٹیمیں حصہ لے رہی ہیںجن میں لاہور قلندرز، کراچی کنگز، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز، پشاور زلمی اور اسلام آباد یونائٹڈشامل ہیں۔ہر ٹیم میں 16کھلاڑی شامل ہیں جن میں سے پانچ غیر ملکی اور 11پاکستانی ہیں۔
پی ایس ایل میں 25غیر ملکی کرکٹرز کھیل رہے ہیںجس کا مطلب یہ ہے کہ سکیورٹی خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
نیوز لینز پاکستان نے جب لاہور ریجن کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر خواجہ ندیم سے یہ جاننے کے لیے رابطہ قائم کیا کہ پی ایس ایل کا اولین ایڈیشن لاہور میں کیوں کر نہیں کھیلا گیا؟
خواجہ ندیم نے کہا:’’ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی۔ یہ اس طرزکا اولین ٹورنامنٹ ہے اور ہم چاہتے تھے کہ اس میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔‘‘
چار مارچ 2009ء میں پاکستان کے شہر لاہور میں قذافی سٹیڈیم کے قریب سری لنکن کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملے کے بعد پاکستان میں عالمی کرکٹ پر پابندی عاید کر دی گئی تھی۔ سری لنکن کرکٹ ٹیم کے چھ ارکان اور ایک معاون کوچ زخمی ہوئے جب کہ چھ پاکستانی پولیس افسر اور دو شہری گولیوں کی بوچھاڑ میں جان کی بازی ہار گئے۔
حکومت اس ظالمانہ جرم میں ملوث مجرموں کو نہ صرف گرفتار کرنے میں کامیاب رہی بلکہ ان کو سزائیں بھی دی جاچکی ہیں لیکن اس سے پاکستان کرکٹ بورڈ کو کوئی مدد حاصل نہیں ہوئی کہ وہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کو یہ یقین دلاتی کہ وہ اپنے قوانین میں نرمی لائے۔
اس وقت کے سی سی پی او لاہور پرویز راٹھور کی پریس کانفرنس کے مطابق اس حملے کا ماسٹر مائنڈ عقیل عرف ڈاکٹر عثمان تھا جس کا تعلق تحریکِ طالبان پنجاب سے تھا۔
پاکستان کے سابق عبقری کرکٹر جاوید میانداد نے نیوز لینز پاکستان سے ٹیلی فون پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پی سی بی کو آئی سی سی کویہ باور کروانا چاہیے تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے تدراک کے لیے عالمی کرکٹ پر عاید پابندی ہٹانا حل ہے، برقرار رکھنا نہیں۔انہوں نے کہا:’’ جب کھیلیں ترقی کریں گی تو نوجوانوں میں نیا جوش و ولولہ اور سوچ پیدا ہوگی جو بعدازاں انتہا پسندمذہبی اقدار کی جانب کم راغب ہوں گے۔‘‘
اہلِ وطن دہشت گردی پرعالمی کرکٹ کی پاکستان سے رُخصتی کا الزام عاید کرتے ہیں۔کھیلوں کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ حقیقت تو ہے لیکن ادھوری ہے۔
سابق کپتان جاوید میانداد نے کہا:’’ پورا سچ اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ حکومت نے اپنے عوام کی کھیلوں کی ضروریات پوری کرنے کے حوالے سے بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے جس کے باعث پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے احیاء کی سرے سے کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ ہم ڈومیسٹک کرکٹ کے حوالے سے اپنے غیر پیشہ ورانہ رویے سے عالمی فریقین کو کیا تاثر دے رہے ہیں؟ہم ڈومیسٹک کرکٹ تباہ کرچکے ہیں۔ یہ مہذب معاشروں میں عام ہوچکا ہے کہ ہر علاقے میں کھیلوں کی سہولیات جیسا کہ پارک وغیرہ قائم کیے جاتے ہیں۔پاکستان میں ہم ایسی چیزوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم ان پہلوئوں پر دھیان نہیں دیتے بلکہ المیہ تو یہ ہے کہ ہم کھیلوں کا ڈھانچہ تباہ کرچکے ہیں اورآج ہم دیکھتے ہیں کہ کھیلوں کے میدانوں کے اطراف میں بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں۔‘‘
تاہم 2015ء میں پی سی بی زمبابوے کی کرکٹ ٹیم کو پاکستان لانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ یہ کھیلوں کا ایونٹ کامیابی سے چل رہا تھا جب میچوں میں خلل ڈالنے کے لیے خود کش حملہ ہوا جسے پولیس اور میڈیا دونوں نے عوام سے پوشیدہ رکھا۔
 کھیلوں کے سینئر تجزیہ کار اور ڈیلی ٹائمز سے بطور سپورٹس ایڈیٹر منسلک محمد علی نے کہا:’’ زمبابوے کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ اس لیے نہیں کیا کیوں کہ ہم نے آئی سی سی یا دیگر بیرونی ملکوں کے ساتھ اعتماد کی بحالی کے لیے اقدامات کیے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے اور جیسا کہ میرے ذرائع سے مجھے معلوم ہوا کہ ہم نے زمبابوے کی کرکٹ ٹیم کے ہر کھلاڑی کو 12,500ڈالرز ادا کیے تھے ۔‘‘
محمد علی سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ کیوں کر دورہ کرنے والی ٹیم کو فول پروف سکیورٹی فراہم کرنے کے وعدے کامیاب نہیں ہوسکے؟انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ہم پر اعتماد نہیں کرتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیرونِ ملک مقیم لوگ آگاہ ہیں کہ دہشت گردوں کے ہمدرد قانون نافذ کرنے والے اداروں میں موجود ہیں۔انہوں نے مزید کہا:’’ ہم نے فی الحال طویل سفر طے کرنا ہے۔ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کی خواہش کرنے سے قبل ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ہم اپنے معاملات دہشت گردی کا تدارک کرنے کے علاوہ ڈومیسٹک کرکٹ کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرکے منظم کریں۔ یہ غیر معمولی اَمر تھا کہ پی سی بی کے سینئر ارکان کی اکثریت نے پاکستانی حکومت کی بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں پر اظہارِ خیال کرنے سے گریز کیا۔ ظہیر عباس، جو آئی سی سی میں سال 2015-16ء کے لیے پاکستان کی مذکورہ ادارے کے صدر کے طور پرنمائندگی کر رہے ہیں ،نے بھی اپنی جانب سے اس حوالے سے کی جانے والی کوششوں کے حوالے سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ کرکٹ کے حوالے سے یہ ابہام فہم سے بالاتر ہے اور اس طرزِعمل سے پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کے حوالے سے اس کھیل کے بڑوں کی ذہنی کشمکش کا اظہار ہوتا ہے۔
تاہم نیوز لینز پاکستانی کرکٹ ٹیم کے منیجر انتخاب عالم سے اس معاملے پر بات کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔
انہوں نے اتفاق کیا کہ پی ایس ایل پاکستان میں کھیلی جانی چاہیے تھی لیکن اسی سانس میں یہ انکشاف بھی کر ڈالا کہ بین الاقوامی کرکٹ کا احیا حکومت کے لیے ایک مشکل ٹاسک ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود نہ صرف اس حوالے سے بلکہ پاکستان کو محفوظ ملک بنانے کے لیے تگ و دو کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔
نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کھلاڑیوں کی اس روحانی اذیت کے بارے میں بھی بات کی جو وہ مستقل طور پر بیرونِ ملک کھیلنے کی وجہ سے سہہ رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کرکٹرز زیادہ وقت بیرونِ ملک اپنے خاندانوں سے دور گزار رہے ہیں جس سے ان کی پرفارمنس متاثر ہوئی ہے۔ انہوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہ وقت پاکستانی کرکٹ کے لیے آسان نہیں ہے۔
انتخاب عالم نے کہا:’’ پاکستانی کرکٹ، جس میں انڈر 19بھی شامل ہے، اس وقت تک بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکتی جب تک بین الاقوامی کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ کی جانب راغب نہیں ہوتے۔‘‘ تاہم انہوں نے اس کا کوئی حل بتانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ ان کا کام نہیں ہے۔
پی سی بی پر ماضی میں غیر مہذب اقدامات اور بالخصوص اعلیٰ ترین عہدوں پر غلط لوگوں کی تعیناتی یا ادارے میں کام کرنے والے ماہرین سے فائدہ حاصل کرنے میں ناکامی کے الزامات عاید کیے جاتے رہے ہیں۔
جاوید میانداد نے اس الزام سے سو فی صد اتفاق کیا اور کہا کہ نجم سیٹھی، جو پی سی بی کے سابق سربراہ رہے ہیں اور پی ایس ایل کے چیئرمین ہیں، کرکٹ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ انہوں نے استدلال پیش کیا کہ نجم سیٹھی ایک اچھے تجزیہ کار ہوسکتے ہیں لیکن وہ کرکٹ گورو بننے کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ اگر پی سی بی درست شخص کو موزوں ذمہ داری نہیں دیتی اور ماہرین سے فائدہ حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے جو اس کے پاس موجود ہیں تو اس صورت میں لازمی طو رپر یہ ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ کرکٹ کے پورے ڈھانچے کی ازسرِ تشکیل اہم ہوچکی ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here