لاہور (دردانہ نجم سے)نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کی تشکیل کے بعدسے سول سوسائٹی تمام صوبائی حکومتوں پر یہ زور دیتی رہی ہے کہ وہ نصابی کتابیں نئے سرے سے ترتیب دیں کیوں کہ وہ یہ یقین رکھتی ہے کہ ان نصابی کتابوں میں اقلیتوں، خواتین اور مذہبی بنیادوں پر تعصبانہ مواد شامل ہے۔
پاکستان کی تعلیمی پالیسی پرایک ایسے قومی بیانیے کے فروغ کا الزام کیا جاتا ہے جس سے ایک مخصوص مذہبی نظریے کے فروغ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے منسلک تاریخ کے پروفیسر طاہر کامران نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے اس قومی بیانیے کی وضاحت کی۔ انہوں نے کہا:’’اُردو، اسلام اور ہندو‘‘ اس بیانیے کے تین بنیادی عوامل ہیں۔انہوں نے کہاکہ ریاست نے مغرب اور ہندو مخالف جذبات کو انگیختہ کرنے کے لیے اسلام کی اپنی الگ سے تشریح کی ہے۔ طاہر کامران نے مزید کہا:’’ پالیسی سازوں نے ایک ایسی فکر کو نصاب کا حصہ بنایا جس کے باعث ہم نے اپنے بچوں کو مسخ شدہ حقائق پڑھانا شروع کر دیے۔‘‘
ان کا کہنا تھا:’’ نصابی کتابوں میں غلط معلومات شامل کی گئی ہیں جیسا کہ جماعتِ اسلامی کے بانی مولانا مودودی، قائداعظم کے دستِ راست تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی سمیت تمام مذہبی جماعتوں نے قیامِ پاکستان کی مخالفت کی تھی۔‘‘
گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف پرتشدد رویے میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ کسی بھی اقلیتی گروپ کے ارکان کے خلاف صرف توہینِ مذہب کا الزام عائد کرکے اس بارے میں مسجد کے پیش امام کی جانب سے اعلان ہی ہجوم کو بلوے میں تبدیل کر سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق تعلیمی نظام میں منطقی فکر ،جس میں اختلافِ رائے کی حوصلہ شکنی اور سوال پوچھنے کی مذمت کی جاتی ہے،کے نہ ہونے اور مذہبی رہنمائوں کے احکامات پر آنکھیں بند کرکے عملدرآمد کرنے کے باعث یہ صورتِ حال پیدا ہوئی ہے۔
طاہر کامران نے کہا:’’ ہم طالب علموں کو تو ماضی کے واقعات بڑھا چڑھا کر پیش کرتے رہے ہیں جب کہ زوال کے اسباب کے بارے میں کسی بھی قسم کی گفتگو کے مقابل مزاحمت کی ہے۔ اس عمل کے دوران ہم نے بچوں کے تجزیۂ ذات اور ان میں تنقیدی فکر پیدا کرنے کے حق کی نفی کی ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا:’’ ہم جب تجزیۂ ذات سے گریز کرتے ہیں تو سازشی نظریات میں پناہ تلاش کرتے ہیں جس کے باعث پاکستان میں ہونے والی ہرمنفی سرگرمی کی ذمہ داری یا تو ہندوئوں پر عائد کردیتے ہیں یا پھر یہودی ان کی زد پر آتے ہیں۔‘‘
ماہرینِ تعلیم کا یہ خیال ہے کہ سماجی علوم، انگریزی، اُردو اور سوکس کے جماعت اول اور ایف اے تک کا نصاب بچے کی اقدار اور شناخت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ایکشن ایڈ پاکستان اور جاگ (دونوں ہی غیرسرکاری تنظیمیں ہیں) سے منسلک تحقیقی سکالر عامر ریاض کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق پنجاب کے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتابوں میں ایسا مواد شامل ہے جس میں درج ذیل امور پر زیادہ توجہ صرف کی گئی ہے:
-1مسلمان واحد مذہب ہے جو حقانیت پر مبنی ہے۔
-2غیر مسلم، مسلمانوں پر منفی طور پر اثرانداز ہور ہے ہیں۔
-3اسلام کے کچھ فرقے درست راہ سے بھٹک گئے ہیں۔
-4جنگ اور طاقت کا استعمال درست ہے۔
-5کسان اور خواتین دوسرے درجے کے شہری ہیں۔
عامر ریاض نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھر میں نصابی کتابوں نے لسانی،گروہی اور شہری تعصبات کو فروغ دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دیہاتی طرزِ زندگی کی وضاحت کے لیے اختیار کیے جانے والے انداز اور مثالوں نے چھوٹے قصبوں کے خلاف حقارت آمیز رویہ اور عصبیت پیدا کی ہے کہ مقامی آبادی شہروں کا رُخ کرنے پر مجبور ہو۔
سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے کی گئی ایک اور تحقیق کے مطابق اسلامیات (اسلامی علوم) کی لازمی مضمون کے طور پر تدریس کے علاوہ دیگر مضامین جیسا کہ سماجی علوم اور انگریزی میں بھی اسلامی موضوعات کی بھرمار ہے۔
پاکستان میں نصاب کی اسلامائزیشن کا آغاز 70ء کی دہائی کے اوآخر میں فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہوا جو پاکستان پر ایک دہائی تک برسرِاقتدار رہے ہیں۔
انہوں نے1979ء میں قومی تعلیمی پالیسی اور اس پر عملدرآمد کا اعلان کیا جس کے مطابق:

A Poster outside Punjab Textbook Board, Lahore : Photo by News Lens Pakistan/
A Poster outside Punjab Textbook Board, Lahore : Photo by News Lens Pakistan/

’’ نصاب کی نظرثانی یہ مدِنظر رکھتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر کی جائے گی کہ تمام تر مواد اسلامی فکر کے تناظر میںازسرِنو ترتیب دیا جائے اور نظریاتی بنیادوں پر تعلیم دی جائے جس کے بعد ہی اسلامی فکر نوجوان نسل کے اذہان پر نہ صرف اثرانداز ہوگی اور ان کے عقائد کی مضبوطی کاباعث بنے گی بلکہ سماج کو اسلامی اصولوں کے مطابق تشکیل دینے میں بھی مدد حاصل ہوتی ہے۔‘‘
آئینی ماہرین اس پالیسی کو پاکستان کے دستور کی شق 22کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں جس میں کہا گیا ہے؛
’’ کسی بھی تعلیمی ادارے کے طالب علم کوایسی مذہبی تعلیم دینے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اسے ایسی مذہبی تقریبات یا عبادات میں حصہ لینا چاہے جن کا اس کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘
نیوز لینز نے جب پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر نوازش علی سے گلبرگ ، لاہور میں قائم ان کے دفتر میں ملاقات کی تو انہوں نے نیوز لینز پاکستان کی ٹیم کی توجہ سب سے پہلے تو ٹیکسٹ بک بورڈ کے نام کی تبدیلی کی جانب دلائی جو اب پنجاب کیریکولم و ٹیکسٹ بک بورڈ ہوچکا ہے۔ ان کے مطابق نام کی اس تبدیلی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نصابی کتابوں کے مواد اور معیار کو بہتر بنانے کے حوالے سے مکمل طور پر خودمحتار ہے۔
اس سے قبل ایک الگ محکمہ کیریکولم ریسرچ و ڈویلپمنٹ ونگ نصابی کتابوں کی تحریر، ایڈیٹنگ اور پروف ریڈنگ کا ذمہ دار تھا۔ ٹیکسٹ بک بورڈ مواد کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے ان کی پرنٹنگ اور قیمتوں کے تعین کا ذمہ دار ہے۔
نوازش علی نے تسلیم کیا کہ نصابی کتابوں میں حقائق درست طور پر پیش نہیں کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ چند کتابوں میں شہری خواتین کا ذکر کرتے ہوئے توہین آمیز زبان استعمال کی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ قومی ایکشن پلان کے تحت دی جانے والی ہدایات کے تحت ہم جماعت اول سے ششم تک نیا نصاب تیار کر رہے ہیں۔ ہم نے تمام فریقین جیسا کہ خواتین، اقلیتوں، بچوں، اساتذہ اور میڈیا سے نئی نصابی کتابوں کی تشکیل کے حوالے سے تجاویز طلب کی ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہاکہ اس اجتماعی کاوش کے باعث ہی ایک قابلِ قبول نصاب تشکیل دینے میں مدد حاصل ہوگی جس میں سماج کے ہر گروہ کے حقوق اور مقام و مرتبے کا خیال رکھا جائے گا۔
نوازش علی نے مزید کہا:’’ عارضی بندوبست کے طور پر ، جب تک نیا نصاب تیار نہیں ہوجاتا، ہم نے مڈل سے ہائر سیکنڈری کی جماعتوں تک مطالعہ کے لیے ضمنی مواد متعارف کروایا ہے جسے بین الصوبائی اور بین المذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے مقصد کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔‘‘
سول سوسائٹی مطالعہ کے لیے ضمنی مواد کی تشکیل کو درست سمت کی جانب ایک قدم قرار دیتی ہے۔ دہشت گردی سے متعلقہ موضوعات نصابی کتابوں کے ایک بڑے حصے پر مشتمل ہیں۔
تاہم زیرِبحث موادغیرمعیاری اور موضوعات میںتحقیق کا فقدان ہے۔

Punjab Textbook Board, Lahore : Photo by News Lens Pakistan/
Punjab Textbook Board, Lahore : Photo by News Lens Pakistan/

معروف مصنف، انسانی حقوق کے کارکن اور کالم نگار وجاحت مسعود نصابی کتابوں میں دہشت گردی کے موضوعات کی بھرمار کے حوالے سے حکومتی پالیسی میںکوئی تبدیلی ہوتے ہوئے نہیں دیکھ رہے۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب پاکستان کے وزیرِداخلہ چودھری نثار علی خان دہشت گرد اور مجرم میں فرق واضح نہیں کرسکتے اورجب وہ لال مسجد کے پیش امام مولانا عبدالعزیز کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیںجو ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیںتو کیا ہم نصابی کتابوں سے کسی معجزے کی امید رکھ سکتے ہیں؟
ان کا مزید کہنا تھا:’’ میرا نہیں خیال کہ حکومت نصابی کتابوں سے مذہبی تعصبات پر مبنی مواد ہٹانے کا ٹاسک سنجیدگی سے پورا کرے گی۔ حقیقی چیلنج تو اس وقت پیش آئے گا جب موجودہ قومی بیانیہ تبدیل ہو اور دہشت گردوں کو ان کی مذہبی وابستگیوں سے قطعٔ نظر سزائیں دی جائیں۔‘‘
وجاحت مسعود نے مزید کہا:’’ قومی ایکشن پلان کے درست طور پر عملدرآمد کے لیے جیسا سلوک ڈاکٹر عاصم کے ساتھ کیا گیا، اسی طرح مولانا عبدالعزیز کے ساتھ پیش آنے کی ضرورت ہے۔‘‘
نوازش علی نے گفتگو کے اختتام پر پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب میںمستقبل میں بھی اسلام اور نظریۂ پاکستان نصابی کتابوں کا بنیادی جزو رہے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here