پشاور (سلمان یوسف زئی سے)چمن سے بلوچستان اور سوات سے خیبرپختونخوا تک افغانستان سے متصل سرحد پر جائیے ، آپ انتہائی کم قیمت پر ایک لگژری کار نہ صرف خرید سکتے ہیں بلکہ اسے اپنے پاس رکھ بھی سکتے ہیں۔ قانون کی رو سے سمگل شدہ گاڑیوں کا استعمال ایک سنگین جرم ہے جو مقامی طور پر ’’نان کسٹم پیڈ‘‘ یا مختصراً این سی پی گاڑیاں کہلاتی ہیں جو افغان سرحد کے ذریعے پاکستان آتی ہیں، آپ کے ساتھ صرف کوئی ایسا شخص محوِ سفر ہو جس کے پاس کچھ رقم ہو اور وہ قانون سے کھیلنا جانتا ہو۔ یا پھر  اثر و رسوخ کا حامل ہو ، مثال کے طورپر اس کا تعلق محکمۂ پولیس سے ہوسکتا ہے۔
نیوز لینز پاکستان کو دستیاب ہونے والی دستاویزات کے مطابق حقیقت تو یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے کے ذمہ دارہی قانون پر عمل کرتے نظر نہیں آتے، خیبرپختونخوا کے پولیس افسر، جن میں آٹھ ڈی ایس پیز، چار ایس پیز، چھ ایس ایچ اوز اوراسسٹنٹ سب انسپکٹرز شامل ہیں، نہ صرف لگژری بلکہ مختلف ماڈلوں کی گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں جو پولیس نے2015ء میں پشاور سے ضبط کی تھیں۔
پشاور میں محکمۂ کسٹم کے ایک اعلیٰ افسر نے نیوز لینز پاکستان سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پشاور کے محکمۂ پولیس کی جانب سے سیکشن 550/523کے تحت ضبط کی گئی 90فی صد گاڑیاں ایسی ہیں جن کی کسٹم ڈیوٹی ادا نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ محکمۂ کسٹم، جو گاڑیوں کی سمگلنگ کی روک تھام کرتا ہے، آسانی کے ساتھ گاڑیوں کو ضبط کرسکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پولیس کی جانب سے ان کی تصدیق کے لیے درست چیسی نمبرز فراہم کیے جائیں۔
مذکورہ افسر نے کہا:’’لیکن محکمۂ پولیس کی جانب سے اس حوالے سے کوئی تعاون نہیں کیا جارہا۔ پولیس افسروں و اہل کاروں کی اکثریت نان کسٹم پیڈ گاڑیاں استعمال کر رہی ہے جو ملک میں افغانستان کے راستے سے غیر قانونی طور پر داخل ہوتی ہیں۔‘‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پولیس نے2015ء کے دوران مختلف پولیس سٹیشنوں کی حدود سے سیکشن 550/523کے تحت 380گاڑیوں کو ضبط کیا،اس قانون کے تحت مشکوک گاڑیوں کو ضبط کیا جاتا ہے۔ پولیس نے کچھ گاڑیاں تصدیق اور قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعد مالکان کو واپس کر دیں ۔ تاہم دیگر بشمول غیر ملکی لگژری گاڑیوں کو اپنے قبضے میں رکھا۔ یہ گاڑیاں اب اعلیٰ سرکاری افسر، جن میں ڈی آئی جیز، ایس پیز، ڈی ایس پیز، سب انسپکٹرز، اسسٹنٹ سب انسپکٹرز، ان کے گن مین اور عزیز و اقارب شامل ہیں، چلا رہے ہیں۔
 کیپیٹل سٹی پولیس چیف مبارک زیب نے کہا کہ وہ اس بارے میں کوئی آگاہی نہیں رکھتے کہ پولیس افسر و اہل کار ’’مالِ مقدمہ‘‘ کو اپنے ذاتی استعمال میں لا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا:’’ پولیس افسرو اہل کاروں کو مالِ مقدمہ ذاتی استعمال میں لانے کی اجازت نہیں ہے‘ اگر کوئی افسر ایسا کر رہا ہے تو اس کے خلاف نہ صرف محکمہ جاتی کارروائی ہوسکتی ہے بلکہ اسے ملازمت سے برطرف بھی کیا جاسکتا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کی سرگرمیوں میں ملوث پولیس افسر اپنے اختیارات کاناجائز استعمال کر رہے ہیں اور سزا کے مستحق ہیں۔مبارک زیب نے کہا:’’ میں اس سارے معاملے کی تفتیش کروں گا! اور اگر کوئی افسر مالِ مقدمہ کے غلط استعمال میں ملوث ہوا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘‘
ایک اور سینئر پولیس افسر نے کہا کہ قانون کی رو سے سیکشن 550/523کے تحت ضبط کی گئی گاڑیاں، جو مالِ مقدمہ کا حصہ ہوتی ہیں، کا تحفظ پولیس کی قانونی ذمہ داری ہے اور گاڑی میں نصب تمام اشیا پر لیبل لگایا جانا ضروری ہے تاکہ مبینہ ملزم کے خلاف عدالت میںالزام ثابت کیا جاسکے جس کی بنیاد پر گاڑی کو ضبط کیا گیا تھا۔
مذکورہ افسر نے کہا کہ مالِ مقدمہ میں ردوبدل کرنا یا اسے ذاتی استعمال میں لاناثبوت کو نقصان پہنچانے اور قانونی کارروائی کی راہ میں حائل ہونے کے مترادف ہے۔ اس نوعیت کے جرم کی کی کم از کم سزا ملازمت سے برخاستگی ہے۔
نیوز لینز نے متعدد اعلیٰ پولیس افسروں کے زیرِاستعمال ضبط کی گئی گاڑیوں کے بارے میں مزید تفتیش کرنے کے لیے سرکاری ذرائع سے معلومات حاصل کیں۔ ان معلومات کی جب محکمۂ کسٹم کے ڈیٹا بیس سے ازسرِنو جانچ کی گئی تو یہ منکشف ہوا کہ سابق سی سی پی او اعجاز احمد کی کار (رجسٹریشن نمبر WJ-413)، ڈی ایس پی حیات آباد عتیق شاہ کی کار ( رجسٹریشن نمبر LED-3150)، اے ایس پی گلبہار کی کار ( رجسٹریشن نمبرBC-3289)، انسپکٹر احسان شاہ کی کار (رجسٹریشن نمبر BC-3466) اور ایس پی رورل شاکر بنگش کے زیرِاستعمال کار (رجسٹریشن نمبرMF-494) سمگل شدہ ہے جن پر کوئی ڈیوٹی یا ٹیکس ادا نہیں کیا گیا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2015ء میں ضبط کی گئی مالِ مقدمہ کی 380گاڑیوں میں سے سابق سی سی پی او اعجاز خان2، ایس پی رورل شاکر بنگش 2، ڈی ایس پی روخان زیب2، ایس ایچ او حمایت خان3، ڈی ایس پی حیات آباد عتیق شاہ ایک، ایس ایچ او دیار خان 2، ایس ایچ او غفار خان ایک اور ڈی ایس پی فضل داد کے زیرِاستعمال ایک کار ہے۔ اس دستاویز سے یہ بھی معلوم ہوا کہ معطل شدہ ایس ڈی پی او مالاکنڈ عابدالرحمان کے گن مین بھی مالِ مقدمہ کی ایک کار استعمال کررہے ہیں۔
محکمۂ کسٹم کے ایک افسر نے دعویٰ کیا کہ محکمۂ ایکسائز کے افسر بھی نان کسٹم پیڈ گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ محکمۂ ایکسائز کا ہر افسر ذاتی استعمال کے لیے نان کسٹم پیڈ گاڑی استعمال کر رہا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ محکمۂ ایکسائر کے افسر نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو انتہائی کم قیمت پر فروخت بھی کر رہے ہیں۔ مذکورہ افسر کا مزید کہنا تھا:’’ محکمۂ ایکسائر پانچ لاکھ روپے مالیت کی کار نیلامی میں صرف اسّی ہزار روپے میں فروخت کردیتا ہے۔‘‘
قانون کی رو سے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے پابند ہیں کہ وہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں محکمۂ کسٹم کی تحویل میں دیں۔ لیکن نیوز لینز کو حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق صوبے کے چھ اضلاع میں تعینات13پولیس افسر، جن میں ڈی آئی جیز، ڈی ایس پیز، ایس پیز، ایس ایچ اوز، سب انسپکٹرز اور اسسٹنٹ سب انسپکٹرز شامل ہیں، مالِ مقدمہ کی یہ گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین برسوں کے دوران پولیس نے مردان سے 255 ،نوشہرہ سے 160، صوابی سے 47 اورچارسدہ سے 92گاڑیوںکو ضبط کیا ۔   
سیکشن 550/523کے تحت ضبط کی گئی گاڑیوں میں سے 2ایس پی نوشیر خان کے استعمال میں ہیں جن کے رجسٹریشن نمبرز بالترتیب CAF-8221اور LED-450ہیں، ڈسٹرکٹ پولیس افسردانشور خان کے زیراستعمال کار کا رجسٹریشن نمبر LES-2525ہے جو پولیس نے 10مئی 2012ء کو تخت بھائی کے مقام سے ضبط کی تھی۔ ڈی ایس پی پیر شہاب کے زیرِاستعمال وین کا رجسٹریشن نمبر 2034ہے۔ ڈی ایس پی عابد خان، ڈی پی او ذیشان رضا، ایس پی افتخار خان، ایس پی سردار خان، ڈی ایس پی خان اکبر، ایس ایس پی عمران شاہد ( اس وقت وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں میں تعینات ہیں)، ڈی ایس پی نور جمیل اور ڈی ایس پی سجاد خان کے زیراستعمال کاروں کے رجسٹریشن نمبرز بالترتیب 9009، LED 228، 270، LXL-9618، LRZ-124، LEE-8127،LZO-3255 اورLHW-4411ہیں۔
اسی طرح کمانڈنٹ فرنٹیئر ریزرو پولیس سیکشن 550/523کے تحت ضبط کی گئی سرمئی رنگ کی کرولا کار استعمال کر رہے ہیں، ایس ایچ او فاروق کے زیرِاستعمال کار کا رجسٹریشن نمبر 831ہے، انسپکٹر کامران، انسپکٹر فضل، ڈی ایس پی لیگل مردان، سب انسپکٹر فضل اکبر، انسپکٹر ممتاز باچا، ڈی ایس پی ناصر خان، سب انسپکٹر مراد علی، انسپکٹر لیگل افتخار، ڈی ایس پی سپیشل برانچ سجاد، ڈی ایس پی فرید بنگش، سب انسپکٹر لقمان، ڈی پی او ذیشان رضا، ڈی ایس پی سلیم داد، ڈی ایس پی غلام حبیب، ڈی ایس پی خالد نسیم، سابق ڈی پی او طاہر ایوب، ایس پی غلام حبیب، انسپکٹر شعیب اور بہت سے پولیس افسر ایسی کاریں استعمال کر رہے ہیں جو مالِ مقدمہ کا حصہ ہیں۔
محکمۂ کسٹم کے ایک افسر نے کہا کہ اعلیٰ پولیس افسروں کے ڈرائیورز، پرسنل سیکرٹری، گن مین اور رشتہ دار بھی ایسی گاڑیاں استعمال کررہے ہیں جو مالِ مقدمہ کا حصہ ہیں۔
پشاور کسٹم کلیکٹوریٹ کے ایک اعلیٰ افسر نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، کہا کہ پولیس سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت قانونی طور پر ضبط کی گئی گاڑیوں کو محکمۂ کسٹم کے حوالے کرنے کی پابند ہے۔ احکامات کے تحت اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ گاڑی کس جرم میں استعمال ہوئی ہے، سب سے پہلا جرم تو یہ ہے کہ یہ کار ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہوئی جس نے غیر قانونی راستہ اختیار کیا یا پھر کسٹم ڈیوٹی اور دیگر ٹیکس ادا نہیں کیے۔ گزشتہ 15برسوں کے دوران ایسی گاڑیاں ملک بھر میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں استعمال ہوتی رہی ہیں جنہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ان گاڑیوں کے مالکان اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے حقیقی منصوبہ سازوں کا کھوج لگانا مشکل بنا دیا ہے۔
 محکمۂ کسٹم کے ایک افسر نے کہا:’’ پولیس ان گاڑیوں کو اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتی ہے جس کے باعث مقدمات سیکشن 550/523کے تحت درج کیے جاتے ہیں جس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ وہ گاڑی کو ’’ سمگلنگ کے شبہ‘‘ میں ضبط کر رہے ہیں یوں حقیقت میں یہ سمگل شدہ کار کی ذیل میں نہیں آتی۔‘‘
انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ جب پولیس سیکشن550/523کے تحت کوئی مقدمہ درج کرے تو اسے سب سے پہلے گاڑی کے بارے میں معلومات محکمۂ کسٹم کو ارسال کرنی چاہئیں تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ یہ سمگل شدہ ہے یا نہیں؟ اگر گاڑی سمگل شدہ ہے تو اسے فوری طورپر محکمۂ کسٹم کے حوالے کردیا جانا چاہیے تاکہ وہ اس کی نیلامی کرسکے اور حاصل ہونے والی آمدن قومی خزانے میں جمع ہو۔
انہوں نے کہا:’’ جب محکمۂ کسٹم کی جانب سے کسی گاڑی کے بارے میں یہ قرار دے دیا جائے کہ اس کی ڈیوٹی ادا کی جاچکی ہے تو اس صورت میں سیکشن 550/523عاید کی جائے اور دیگر قانونی ضابطوں پر عمل کیا جائے۔‘‘
مذکورہ افسر نے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو ضبط کرنے کے بعد محکمۂ کسٹم ان گاڑیوں کی حقیقی قیمت کا تعین کرتا ہے اور پھر نیلامی سے قبل اس میں ڈیوٹی ٹیکسوں کو شامل کیا جاتا ہے تاکہ ریونیو حاصل ہوسکے۔
انہوں نے کہا:’’ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں استعمال کرنے کا مطلب عملاً قومی خزانے کو نقصان پہنچانا ہے۔‘‘
محکمۂ پولیس کے ایک افسر نے کہا کہ پولیس و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسراکثر و بیش تر کم قیمت پر سمگل شدہ کار خریدتے ہیں اور بغیر کسی خوف کے اسے غیر قانونی طور پر استعمال کرتے ہیں کیوں کہ کوئی ان کو روکنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔
مزیدبرآں سمگل شدہ گاڑیوں کی چوں کہ کوئی رسمی دستاویزات مثال کے طور پر شپ منٹ کی تفصیلات اور ملکیت کا ثبوت نہیں ہوتا جس کے باعث مقامی کسٹم آفس و محکمۂ ایکسائز کی جانب سے نہ ان کی جانچ کی جاتی ہے اور نہ ہی یہ رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔ یوں یہ ملک کے مختلف حصوں میں آسانی کے ساتھ سمگل ہوجاتی ہیں۔
مالاکنڈ ڈویژن کے سات اضلاع، جن میں سوات، شانگلہ، بنر، اَپر دیر، لوئر دیر، چترال اور مالاکنڈ شامل ہیں، کے رہائشی گزشتہ کئی برسوں سے مالاکنڈ کے ٹیکس فری زون ہونے کی خصوصی حیثیت کے باعث نان کسٹم پیڈ گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں۔
ایک پولیس افسر نے کہا کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں صوبہ بھر میں استعمال ہورہی ہیں اور خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع کی سڑکوں پر رواں دواں 10فی صد گاڑیوں کی کسٹم ڈیوٹی ادا نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا:’’ لیکن ان گاڑیوں کو استعمال کرنے والوں میں اکثریت سرکاری افسروں، بزنس مینوں اور سیاست دانوں کی ہے جو اثر و رسوخ کے حامل ہیں اور آسانی کے ساتھ قانون کی گرفت میں نہیں آسکتے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here