:Photo by News Lens Pakistan/ Ahmad Fraz
:Photo by News Lens Pakistan/ Ahmad Fraz

پشاور ( شیراز اکبر سے) رواں برس ادھیڑ عمر افراد کے لیے موسمِ سرما گزارنا مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ 70برس کے حبیب اللہ کے لیے رواں برس موسمِ سرما زیادہ تکلیف دہ ہے جس کی وجہ شدید سردی ہے اور نہ ہی گیس کی تواتر کے ساتھ بندش جس کے باعث گھروں میں کھانا پکانا اور ہیٹر چلانامشکل ہوگیا ہے جو ایک ایسی عیاشی ہے جس سے لطف اندوز ہونے کی استطاعت آبادی کا ایک محدود طبقہ ہی رکھتا ہے بلکہ حبیب اللہ کے لیے رواں موسمِ سرما اس لیے مشکل ثابت ہوا ہے کیوں کہ وہ سردی سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے بالآخر ہسپتال پہنچ گئے ہیں۔
 گزشتہ چند روز سے حبیب اللہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال (کے ٹی ایچ) پشاور کے برن وارڈ میں داخل ہیں اور ان کی ٹانگ پر پٹی بندھی ہوئی ہے، ان کا صاحب زادہ نصیراللہ ان کے ساتھ بیڈ پر بیٹھا ہے۔ حبیب اللہ کی ٹانگ آگ لگنے سے بری طرح جھلس گئی تھی جس کے باعث انہیں ہسپتال لانا پڑا۔
نصیراللہ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میرے والد کی نظر کمزورہے۔ وہ اس وقت کمرے میں گیس سے چلنے والے ہیٹر کے قریب تنہا بیٹھے تھے جب ان کے کپڑے آگ کی لپیٹ میں آگئے۔ہم فوری طور پر ان کی مدد کے لیے پہنچے اور آگ کے شعلوں کو بجھایالیکن ان کی ٹانگ بری طرح جھلس گئی۔‘‘
ہر برس موسمِ سرما میں سینکڑوں مریض آگ سے جھلسنے کے باعث خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں ، اکثر و بیش تر مریضوں کے یہ زخم اس قدر شدید ہوتے ہیں کہ وہ جاں بر نہیں ہوپاتے۔ خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے تعلقاتِ عامہ کے افسر فرہاد نے کہا کہ آگ سے جھلسنے والے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ہر برس آگ لگنے کے واقعات گزرے سال کی نسبت بڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا:’’ 2014ء میں خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں آگ سے جھلسے 1328مریض لائے گئے جب کہ 2015ء میں یہ تعداد بڑھ کر 1791ہوگئی جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک برس کے دوران مریضوں کی تعداد میں 14فی صد اضافہ ہوا۔ خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے برن یونٹ میں 2014ء کے دوران داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد اگر 393تھی تو 2015ء میں بڑھ کر 454ہوگئی، یوں ایک برس میں سات فی صد اضافہ ہوا۔‘‘
صحتِ عامہ کے لیے کام کرنے والے کارکن موسمِ سرما میں آگ سے جھلسنے والے مریضوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ ’’ سردی سے بچائو کے لیے کمروں کو گرم رکھنے کے لیے گیس سے چلنے والے ہیٹرز کے بے دریغ استعمال‘‘ کو قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر گیس ہیٹرز کا احتیاط کے ساتھ استعمال نہیں کیا جاتا تو یہ نہ صرف بری طرح جھلسانے بلکہ گیس کے اخراج کے باعث اموات کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔
خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے برن یونٹ سے منسلک ڈاکٹر عبدالحسیب نے کہا:’’ گیس سے چلنے والے ہیٹرز سے کاربن مونوآکسائیڈ گیس خارج ہوتی ہے جو انسانی نظامِ تنفس کے لیے انتہائی مہلک ہے ، حتیٰ کہ اگر زیادہ عرصہ تک اس کی بڑی مقدار سانس کے ساتھ جسم میں جائے تو یہ موت کا باعث بن جاتی ہے۔اسی وجہ سے اسے (کاربن مونوآکسائیڈ ) خاموش قاتل قرار دیا جاتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ گھروں میںکمروں کو ہوادار رکھنے کا درست انتظام نہیں ہے جس کے باعث گیس ہیٹرز آکسیجن کو جذب کرلیتے ہیں جس کی مقدار کم ہونے کی وجہ سے طویل عرصہ تک ایسے ماحول میں رہنے سے نظام تنفس متاثر ہوسکتا ہے یا پھر زیادہ سنجیدہ معاملات میں موت واقع ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹرز یہ بھی کہتے ہیں کہ گیس ہیٹرز کے قریب بیٹھنے سے حادثاتی طور پرکپڑوں کو آگ لگنے سے جھلسنے کے ہی خطرات نہیں ہوتے بلکہ جلدی بیماریاں لاحق ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالحسیب کہتے ہیں کہ آگ سے جھلسنے کے سب سے زیادہ مریض موسمِ سرما کے دوران ہسپتال میں لائے جاتے ہیں جس کی بڑی وجہ کمروں کو گرم رکھنے کے لیے ہیٹرز کا استعمال ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا:’’ لیکن اس کا قطعی طور پر یہ مطلب بھی نہیں کہ گیس ہیٹرز ہی آگ سے جھلسنے کی واحد وجہ ہیں، بلکہ اور بہت سی وجوہات کے باعث بھی ایسے حادثات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی ان مریضوں میں شامل ہے جو گیس سلنڈروں کے پھٹنے یا پھر کھانا پکاتے ہوئے کپڑوں کو لگنے والی آگ کے باعث جھلسنے کے باعث ہسپتال میں علاج کے لیے داخل ہوتی ہیں۔اس نوعیت کے واقعات کی تعداد بڑی حد تک محتاط رہتے ہوئے اور حفاظتی تدابیر اختیار کرتے ہوئے کم کی جاسکتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر عبدالحسیب نے کہا کہ عوام میں اس حوالے سے آگاہی پیدا کرکے آگ سے جھلسنے کے واقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا:’’ یہ امر یقینی بنانا انتہائی اہم ہے کہ کمرے ہوادار ہوں اور جب گیس ہیٹرز آن ہوں تو کمرے میںآکسیجن کے بہائومیں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔کمروں میں ہیٹر کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔ رات کو سونے سے قبل گیس کو اس کے مرکزی کنکشن سے بند کیا جائے۔‘‘
انہوں نے مزید کہاکہ باورچی خانے میں خواتین یا جو کوئی بھی کھانا پکاتا ہے‘ وہ سب سے پہلے تو یہ تسلی کرے کہ چولہوں اور سلنڈروں سے گیس خارج تو نہیں ہورہی۔ڈاکٹر عبدالحسیب کا مزید کہنا تھا:’’اگر گیس خارج ہورہی ہو تو اس مسئلے کو فوری طور پر حل کیاجائے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ گھر کا ہر فرد آگ سے جھلسنے کی صورت میںجسم پر آنے والے زخموں کے علاج کے لیے ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کے بارے میں آگاہ ہو۔
برن یونٹ سے منسلک ایک ڈاکٹر نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا میں آگ سے جھلسنے والے مریضوں کے علاج کے لیے کوئی ایک ہسپتال بھی نہیں ہے ’’جس کی وجہ مختلف حکومتوں کی کوتاہ اندیشی ہے۔‘‘
مذکورہ ڈاکٹر نے ،نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، مزید کہا:’’ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے نزدیک 2013ء سے برن سنٹر زیرِتعمیر ہے لیکن وہ گزشتہ اور موجودہ حکومتوں کی لاپرواہی کے باعث اب تک مکمل نہیں ہوسکا۔ ‘‘
انہوں نے کہا کہ اگر یہ مکمل ہوجاتا ہے تو 120بستروں پر مشتمل یہ ملک کا سب سے بڑا ہسپتال ہوگا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here