پشاور: بجلی کی خراب اور لٹکتی ہوئی تاروں کے باعث شہری مستقل خطرات کی زد میں

0
4972

: Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzai

پشاور (وصال یوسفزئی سے) کشمالہ بی بی پشاور کے علاقے لطیف آباد میں رہتی ہیں۔ تین برس قبل ان کا آٹھ برس کا پوتا گھر کے باہر لٹکنے والی بجلی کی تاروں کو غلطی سے چھو جانے کے باعث کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوگیا تھا۔ متوفی کی بہن مظلفہ نے جب اپنے بھائی کو بچانے کی کوشش کی تو وہ بھی کرنٹ کی زد پر آگئی۔ پشاور کے اس پسماندہ اور گنجان آباد علاقے میں اس افسوس ناک واقعہ کو بیتے تین برس گزر چکے ہیں۔
مظلفہ اب 12برس کی ہے ‘ وہ اپنے بھائی کو بھلا نہیں سکی اور نہ ہی خاندان کے کسی رُکن کے لیے یہ ممکن ہوسکا ہے۔ وہ صرف اس اَمر کے خواہاں تھے کہ پشاور الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (پیسکو) اگر لطیف آباد کے رہایشیوں کی خطرناک سطح تک نیچے لٹکنے والی تاروں کے حوالے سے شکایتوں پر دھیان دیتی تو ان کی آنکھوں کا تارا ان سے دور نہ ہوتا۔ 
کشمالہ نے سسکیاں لیتے ہوئے اپنی زندگی کے اس کربناک دور کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا:’’ میں اس بدقسمت دن کو بھلا نہیں سکتی۔ میں اپنے پوتے اور پوتی کو سکول چھوڑنے جارہی تھی جب ذیشان بجلی کی تاروں سے چھو گیا اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ میری پوتی مظلفہ دائیں ہاتھ سے محروم ہوگئی۔‘‘
کشمالہ بی بی نے کہا کہ حکومت نے اس حوالے سے اس قدر بے حسی کا مظاہرہ کیا کہ اس واقعہ کی میڈیا کوریج کے باوجود کوئی سرکاری افسر ان کے گھر آیا اور نہ ہی ان کی پوتی کے علاج کے اخراجات برداشت کرنے کی زحمت گوارہ کی جو اب ایک ہاتھ سے معذور ہوچکی ہے۔ اس کے علاج پران کا خاندان اب تک تین لاکھ روپے خرچ کر چکا ہے۔
گلبہار کی رہائشی عائشہ بی بی نے کہا کہ وہ ہر روز اپنے بچوں کے ساتھ ہائی وولٹیج تاروں ( جن میں حرکت کرتا کرنٹ مجموعی طور پر 11ہزار والٹ تک ہوتا ہے) کے نیچے سے گزرتی ہیں۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے اپنے خوف کا اظہار کیا اور کہاکہ جب شہر میں بارش ہوتی ہے یا آندھی آتی ہے تو یہ تاریں زمین پر گِر جاتی ہیں۔
غیر سرکاری تنظیم ’’خویندو کور‘‘ سے منسلک سماجی کارکن سبحان علی نے پشاور کے علاقے گلبہار 4میں دو الگ الگ ٹیمیں تشکیل دی ہیں جو پانچ مرد اور پانچ خواتین ارکان پر مشتمل ہیں تاکہ علاقے کے لوگوں کو درپیش مسائل کو اجاگر کیا جاسکے۔یہ ٹیمیں گلبہار کے علاقے میں جابجا لٹکتی تاروں سے رہایشیوں کو درپیش خطرات کی شکایات درج کروانے کے لیے پیسکو کے دفتر کا رُخ کرتی رہی ہیں لیکن اب تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ سبحان احمد نے کہا:’’ ہر بار پیسکو کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ شوکت افضال سے ملاقات ہوئی جنہوں نے خراب تاروں کو ٹھیک کروانے کا وعدہ کیا جو اب تک پورا نہیں ہوسکا۔‘‘
صوبہ خیبر پختونخوا میں خراب اور انتہائی نیچے لٹکنے والی تاروں کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کے حوالے سے کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں تاہم ایک ڈاکٹر کا مرتب کیا گیا اندازہ تشویش ناک صورتِ حال کی عکاسی کرتا ہے۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر شیر علی خان کے مطابق ہسپتال میں رواں برس کرنٹ لگنے کے اب تک 35کیسز آچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2014ء میں 120لوگ متاثر ہوئے تھے ‘ وہ جب ہسپتال آئے تو ان کو شدید ترین زخم آئے تھے یا وہ بری طرح جھلس چکے تھے۔ 
ڈاکٹر شیر علی کہتے ہیں کہ بارشوں کے موسم میں کرنٹ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے۔
اگرچہ کرنٹ لگنے کے واقعات بارشوں کے موسم میں بڑھ جاتے ہیں ‘ شارٹ سرکٹ کے باعث لگنے والی آگ لوگوں اور ان کی زندگیوں کے لیے ایک مستقل خطر ہ ہے۔ بہت سے گھر اور کاروبار پرانی تاروں اور ٹرانسفارمرز کے باعث آگ کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔
پیسکو کے ریٹائرڈ سب ڈویژنل افسر (ایس ڈی او) شہزاد خان کے مطابق گھروں کی تعمیریا کاروبار میں اضافے کے ساتھ ہی نئی تاریں بھی بجلی کے کھمبوں کے ساتھ پہلے سے ہی لٹک رہی تاروں کے گچھے کا حصہ بن جاتی ہیں جس کے باعث پرانااور خستہ حال گرڈ سسٹم مزید خراب ہوتا ہے۔
بارشوں کے ہر موسم میں پیسکو کی جانب سے پریس ریلیز کے ذریعے لوگوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ بجلی کے کھمبوں اور تاروں کے قریب نہ جائیں۔ گھر میں ہوں تو بجلی کے آلات استعمال کرتے ہوئے خاص احتیاط کریں۔
پیسکو کے ڈائریکٹر سیفٹی ارباب منیر احمد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پیسکو کے قانون کے مطابق بجلی کی ہائی وولٹیج ٹرانسمیشن لائنوں کے نزدیک کچھ بھی تعمیر کرنا غیر قانونی ہے۔انہوں نے کہا کہ غیر منصوبہ بند شہرکاری اور بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث بجلی کی ٹرانسمیشن لائنوں کے نزدیک تعمیر ہونے والی عمارتوں اور گھروں کی نگرانی درست طور پر نہیں ہوپاتی جس کے باعث کرنٹ لگنے اور شارٹ سرکٹ کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔
پیسکو فنڈز اور دیگر وسائل کی کمی کے باعث خراب تاروں کو ٹھیک نہیں کرسکتا۔ ارباب منیر نے کہا: ’’ہر برس پیسکوکے 10کارکن ہیوی ٹرانسمیشن تاروں پر کام کرتے ہوئے کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ ہم تو اپنے کارکنوں کو خراب تاروں سے درپیش خطرے سے نہیں بچا سکتے۔‘‘
تاجر برادری بھی پیسکو کوبجلی کی فراہمی کی خراب لائنوں اور ننگی تاروں سے زندگیوں اور کاروبار کو درپیش خطرات کے بارے میں باور کرواتی رہتی ہے لیکن ادارے کی جانب سے کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔
صرافہ ایسوسی ایشن پشاور کے صدر حاجی مقصود نے کرب کے ساتھ یاد کیا جب شارک سرکٹ کے باعث 18جون 2014ء کو 76دکانیں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس آتشزدگی سے20کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہاکہ حکومت نے نقصان کا ازالہ کیا اور نہ ہی ننگی اور لٹکتی ہوئی تاروں کا کوئی حل نکالاہے۔
پیسکو کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن ناصر خان موسیٰ زئی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پیسکو خسارے میں جارہا ہے جس کے باعث بہت سے علاقوں میں مرمت کا کام ممکن نہیں ہوسکا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے بھی وفاقی بجٹ میں پیسکو کے لیے مختص کیے گئے تمام فنڈز جاری نہیں کیے گئے اور نہ ہی تمام صارفین نے اپنے بل ادا کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں 70فی صد صارفین بجلی کے بل ادا نہیں کررہے۔ناصر خان موسیٰ زئی کے مطابق یہ وہ وجہ ہے جس کے باعث حکومت بجلی کی خراب تاروں کو تبدیل نہیں کرپاتی۔
پیسکو کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے ڈائریکٹر جنرل شوکت افضال نے اس کی ذمہ داری قانون سازوں پر عائد کی۔ انہوں نے کہا کہ پیسکو قانون سازوں کو ان کے حلقوں کی ترقی کے لیے ملنے والے فنڈز پر انحصار کرتا ہے۔ پیسکو ان علاقوں میں کام نہیں کرتا جہاں مناسب فنڈز نہیں دیے جاتے۔بجلی کی خراب اور لٹکتی ہوئی تاریں ان علاقوں میں دیکھی جاسکتی ہیں جہاں قانون سازاس نوعیت کے اہم منصوبوں پر سرمایہ کاری کرنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار رہے ہیں۔
یونائٹڈ سٹیٹس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ(یو ایس ایڈ) کی ایک تحقیق کے مطابق بجلی کی خراب اور ننگی تاروں کے باعث ٹرانسفارمرز کی کارکردگی بھی متاثرہوتی ہے۔ تاروں کے الجھنے کے باعث پیدا ہونے والی رگڑ کی وجہ سے بہت سے ٹرانسفارمر خراب ہوچکے ہیں جس کا نتیجہ بجلی کی طویل بندش کی صورت میں نکلتا ہے۔
میڈیا میں آنے والی رپورٹوں کے مطابق یو ایس ایڈ نے پیسکو کی آپریشنل اور معاشی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے بجلی کی تقسیم کے حوالے سے ایک پروگرام شروع کیا ہے ( اس پروگرام کے دائرہ کارمیں حکومت کے زیرِانتظام تمام تقسیم کار کمپنیاں آجاتی ہیں)۔ اس پروگرام کے تحت یو ایس ایڈ دیگر اقدامات کے علاوہ شہر کے سات فیڈرز میں خراب تاروں کو ٹھیک کرے گا۔ خراب تاروں کو ہٹانے کے لیے ایریئل بنڈل کنڈکٹر (اے بی سی) استعمال کیا جارہا ہے۔ اے بی سی سسٹم میں بجلی کی تاروں پر غیر موصل تہہ چڑھائی جاتی ہے۔ اس حفاظتی تہہ کے باعث کرنٹ لگنے اور شارٹ سرکٹ کے واقعات میں 90فی صد کمی آتی ہے۔
اے بی سی سسٹم بجلی کی فراہمی اور تقسیم کے دوران بجلی کی کنڈے کے ذریعے چوری کے باعث ہونے والے نقصانات بھی کم کرے گا۔ عموماً بجلی چور کسی ایسے صارف کے بجلی کے میٹر سے جارہی تاروں پر کنڈا ڈالتے ہیں جن پر حفاظتی تہہ نہیں چڑھی ہوتی ‘ چناں چہ بجلی چوری کی سزا دوسرے صارفین کو ادا کرنا پڑتی ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے ماحولیاتی امور پر مشیر فضل الٰہی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پشاور کے بہت سے علاقوں جیسا کہ گلبہار، تہکال، کوہاٹ روڈ، فردوس، صدر اور وارسک روڈوغیرہ میں ہائی ورلٹیج تاریں لٹکتی ہوئی نظر آتی ہیں جن کے باعث شہر کی خوبصورتی متاثر ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی وزارت شہر میں بجلی کی فراہمی کے نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے یپسکو پرحفاظتی اقدامات کرنے کے لیے زور دیتی رہی ہے لیکن اس حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here