خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات‘ کیا قبائلی علاقوں میں اس حوالے سے کوئی پیش رفت ہوگی؟

0
4485

: Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzai

فاٹا (احسان داوڑ سے) خیبرپختونخوا میں 30مئی کو بلدیاتی انتخابات ہوئے تو صوبے سے متصل وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں کے باسی ،جو مشترکہ ثقافتی ورثے کے باعث خود کواس کا حصہ خیال کرتے ہیں ‘ یہ استفسار کرنے لگے ہیں کہ فاٹا میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیوں کر عمل میں نہیں آرہا؟
رواں برس فروری میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا شیڈول جاری کیا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر سابق جسٹس سردار رضا کی قیادت میں ہونے والے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات مارچ 2016ء میں ہوں گے جب کہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بالترتیب مئی اور نومبر 2015ء میں انتخابات کا انعقاد عمل میں آئے گا۔ ایک کروڑ سے زائد آبادی کے قبائلی علاقوں کو اس شیڈول میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔
2002ء میں جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے ملک میں بلدیاتی انتخابات کروائے تو وہ فاٹا میں بھی ہوئے لیکن پاکستان کے دوسرے علاقوں کی نسبت ان کا انعقاد مختلف طور پر عمل میں آیا۔
مشرف حکومت کی جانب سے کسی قسم کی وضاحت دیے بغیر یہ فیصلہ کیا گیا کہ 2002ء کے بلدیاتی انتخابات میں فاٹا کے مقامی نمائندوں میں سے 30فی صد کا سیاسی انتظامیہ کی جانب سے تقرر ( براہِ راست عوامی ووٹ سے منتخب نہیں ہوں گے) عمل میں لایا جائے گا۔چناں چہ یہ حیران کن نہیں تھا کہ ان عوامی نمائندوں کی اکثریت ان ملِکوں اور قبائلی عمائدین پر مشتمل تھی جو قبائلی انتظامیہ کے نزدیک وفادار قرار پائے تھے۔
جب قبائلیوں کے لیے روا رکھے جانے والے تعصب اور نمائندگی کے بنیادی انسانی حق سے محرومی کے بارے میں ہونے والی گرم گرم بحث کے دوران بلدیاتی حکومتوں کا ڈھانچہ تشکیل دیا گیا توطاقت ور اور اثر و رسوخ کے حامل ملِکوں کو مختلف ورکنگ کمیٹیوں اور گروپس کا سربراہ مقرر کردیا گیا۔
سیاسی انتظامیہ کی جانب سے شمالی وزیرستان میں ’’مقرر‘‘ کیے گئے مقامی نمائندوں میں سے ایک نے نیوز لینز سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا:’’بلدیاتی حکومتوں کے قیام کے کچھ عرصہ بعد ہی یہ ثابت ہوگیا کہ ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کیوں کہ بلدیاتی نمائندوں کو عوام کے بجائے سیاسی انتظامیہ کا ماتحت بنادیا گیا تھا۔‘‘
ایک اور مقامی نمائندے اور تحریکِ اتحادِ قبائل کے صدر ملک خان مرجان وزیر نے ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ قبائلی علاقوں میں بلدیاتی حکومتوں کی ناکامی کی وجہ ملِک نہیں تھے ‘ ان کو 2002ء میں بلدیاتی حکومت کی تعلیم کے فروغ کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی افسر شاہی نے بلدیاتی حکومتوں کو درست طور پر کام نہیں کرنے دیا۔
ملک خان مرجان وزیر نے مزید کہا:’’ ہم نے پولیٹیکل ایجنٹ کے روبرو تجاویز پیش کیں جس نے ان کو یہ کہتے ہوئے رَد کردیا کہ ہم مقامی حکومتوں اور ترقی سے متعلق تجاویز دینے کے اہل نہیں ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ سیاسی انتظامیہ کے خلاف ان کے احتجاج کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
ملک خان مرجان وزیر کا کہنا تھاکہ فاٹا میں بلدیاتی حکومت کی تشکیل سے قبل یہ زیادہ بہتر ہو گا کہ قبائلی علاقوں میں امن قائم کرنے کے علاوہ آئی ڈی پیز کی بحالی عمل میں لائی جائے ۔
انہوں نے کہا:’’ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فاٹا سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے اور ہمیں اپنے طور پر قانون ( بلدیاتی حکومتیں) تشکیل دینے کا موقع دے۔ پارلیمان میں ہمارے نمائندے بے بس ہیں‘ وہ کسی قسم کی قانون سازی میں حصہ نہیں لے سکتے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ فاٹا کے باسیوں کی منتخب حکومت ہو جو 60ارکان سے کم پر مشتمل نہ ہو اور یہ اپنے علاقے کے مستقبل کے حوالے سے فیصلے کرے۔‘‘
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سابق کونسلر صفدر حیات داوڑ کہتے ہیں کہ فاٹا کی نسبت پاکستان کے دوسرے علاقوں میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نسبتاً آسان ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلیوں کی ایک بڑی تعداد بندوبستی اضلاع کی جانب نقل مکانی کرچکی ہے جہاں حکومت قبائلیوں کے لیے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرسکتی ہے۔
انہوں نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ وہ(آئی ڈی پیز) جب بھی اپنے گھروں کو واپس لوٹیں تو لازمی طور پر ایک منتخب حکومتی ڈھانچہ موجود ہو جو ان کی واپسی کے ساتھ ہی ان کی ضروریات پورا کرنے کے لیے کام شروع کردے۔‘‘
اگرچہ امن و امان کے ابتر حالات قبائلی علاقوں میں گورننس اور قیامِ امن کی راہ میں حائل ہیں‘ قبائلی علاقوں کے باسی اس نظام میں اصلاحات کا مطالبہ بھی کرتے ہیں جس کے تحت فاٹا کو منتظم کیا جاتا ہے۔
ملک خان مرجان وزیر اس وقت تذبذب کا شکار دکھائی دیے جب انہوں نے یہ کہا کہ حکومت قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں کے دوران اصلاحات کرسکتی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی اشارہ دیتے ہیں کہ فاٹا کے باسی تعصب پر مبنی فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز کے تحت محفوظ ہیں ‘ یہ ایک متوازی ’’سیاہ‘‘ قانون ہے جو برطانوی حکمرانوں کی جانب سے ورثے میں ملا جس کے باعث قبائلی اپنے تمام تر بنیادی حقوق سے محروم ہوگئے۔
ملک خان مرجان وزیر نے کہا:’’ایف سی آر کے تحت گزشتہ کئی برسوں سے میرا گھر، میری رشتہ دار خواتین اور میری عزتِ نفس محفوظ ہے۔حکمران نظا م میں کیوں کر تبدیلی کریں جب اس کا کوئی مناسب متبادل موجود نہیں ہے؟‘‘
تاہم صفدر حیات داوڑ فاٹا میں بلدیاتی انتخابات اور اصلاحاتی عمل کے حوالے سے واضح ہیں۔
وہ یہ استفسار کرتے ہیں:’’ اگر حکومت آئی ڈی پیز کی بحالی عمل میں لاتی ہے تو فاٹا میں دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والے فوجی آپریشن کے پس منظر میں وہ نیا میکانزم کیا ہوگا جس کے تحت ان کو منتظم کیا جائے گا؟‘‘
صفدر حیات داوڑ نے مزید استفسار کیا:’’ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ (مقامی نمائندے) ایک بار پھر پرانی سیاسی انتظامیہ کے تحت حکمرانی کریں یا طالبان عسکریت پسندوں کے زیرِاثر ہوں؟‘‘انہوں نے مزید کہا کہ منتخب حکومت ہی فاٹا کے باسیوں کے مسائل کا واحد حل ہے۔
فاٹا میں بلدیاتی حکومتوں کے قانونی پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے ماہرین نے یہ نشاندہی کی کہ قبائلی علاقے سپریم کورٹ کے دائرہ کار میں نہیں آتے جس کے باعث پاکستان کے دیگر علاقوں میں رائج قوانین کا قبائلی علاقوں پر اطلاق نہیں ہوتا۔ 
فاٹا کی خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے سینئر قانون دان تاج محل آفریدی نے کہا:’’ اگر آپ ان(قبائلی علاقوں) کو سپریم کورٹ کے دائرہ کار میں لانے کے خواہاں ہیں تو اس کے لیے آئینی ترامیم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں کے حوالے سے تمام تر اختیارات صرف ایک شخص کو حاصل ہیں اوروہ پاکستان کے صدر ہیں۔
تاج محل آفریدی نے مزید کہا کہ یہ صدر کے لیے ’’بہت آسان‘‘ تھا ‘ اگر وہ آرڈیننس جاری کرتے اور حکام کو یہ ہدایت دیتے کہ وہ قبائلی علاقوں میں بلدیاتی انتخابات کروائیں۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے لیے اس میں کوئی مشکل نہیں تھی کہ وہ پشاور، بنوں اور دیگر بندوبستی علاقوں میں نقل مکانی کرکے آباد ہونے والے قبائلیوں کے لیے انتخابات کا انعقاد کرتی۔
انہوں نے کہا:’’ 2013ء کے عام انتخابات کے دوران حکومت نے خیبرایجنسی کے ووٹرز کے لیے اذاخیل میں پولنگ سٹیشن قائم کیے تھے۔ بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات کے دوران یہ حکمتِ عملی کیوں کر اختیار نہیں کی گئی؟‘‘
قبائلی معززین کہتے ہیں‘ ہوسکتا ہے کہ فاٹا کے باسی دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہوں لیکن اس سے ان کی ایک غیر متعصب حکومت کے تحت اپنا جیون بیتانے کی خواہش کو تقویب ملی ہے۔قبائلی علاقوں میں طالبانائزیشن کے فوراً بعد قبائلیوں کی جانب سے اصلاحات کا مطالبہ اُسی شدو مد سے دہرایا جانے لگا جس طرح وہ فرسودہ ایف سی آر سے چھٹکارا حاصل کرکے بنیادی انسانی حقوق کی اپیل کرتے ہیں جسے وہ ’’سیاہ قانون‘‘ کا نام دیتے ہیں۔
تاج محل آفریدی کہتے ہیں:’’ دنیا بہت زیادہ تبدیل ہوچکی ہے لیکن پاکستانی حکمران ہمیں ظالمانہ قوانین کے تحت منتظم کرنے کے خواہاں ہیں جو قبائلی علاقوں کے باسیوں اور نہ ہی عالمی برادری کے لیے قابلِ قبول ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ ہم بنیادی انسانی حقوق سے محروم رہتے ہوئے کسی بھی قانون کے بغیر زندگی بسر کرنے کی بجائے ترقی کے عمل میں شریک ہوں۔‘‘
جماعتِ اسلامی کے مرکزی رہنما اورخیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے سابق پارلیمنٹرین ہارون الرشید نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایف سی آر اس قدر اچھا اور انسان دوست قانون ہے تو پھر اسے پاکستان بھر میں کیوں کر نافذ نہیں کیا جاتا؟
جماعتِ اسلامی کے رہنماء نے کہا کہ فاٹا کے ارکانِ پارلیمان کو موجودہ نظام میں تبدیلیاں کرنے کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ قبائلی چوں کہ آئینی حقوق سے محروم ہیں جس کے باعث وہ دوسرے درجے کے شہری ہی رہیں گے۔ 
پشاور ہائیکورٹ میں فاٹا لائرز فورم کے رُکن قبیص خان شنواری نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لائرز فورم اور سیاسی جماعتیں قبائلی علاقوں میں بلدیاتی انتخابات کے مثبت اثرات کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کے لیے جلد مہم چلائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر لوگوں کو نچلی سطح پر یہ فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا جاتا ہے کہ وہ کس طرح خود کو منتظم کرنا چاہتے ہیں تو یہ مضبوط جمہوریت کی جانب ایک قدم ہوگا۔
قبیص خان شنواری نے کہا:’’ فاٹا بھی پاکستان کا حصہ ہے‘ اور ہم بھی انسان ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے قبائلی علاقوں پر مسلط جہالت اور غربت کے اندھیروں کو مٹانے کے لیے ہمیں تعاون فراہم کیا جانا چاہیے۔ فاٹا میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے قبائلی بااختیار ہوں گے جو اپنے حقوق اور ذمہ داریوں سے آگاہ نہیں ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اگر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے تو اگلا بہتر اقدام فاٹا میں ایک آزاد و بااختیار قانون ساز کونسل کا قیام ہے جس سے قبائلی علاقوں کو مرکزی دھارے میں لانے میں مدد ملے گی۔
قبیص خان شنواری نے کہا:’’ اگر ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح فاٹا میں مقامی حکومتوں کی تشکیل عمل میں نہیں آتی تو یہ قبائلی علاقوں کے 80لاکھ باسیوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔‘‘
انہوں نے بلدیاتی انتخابات میں خواتین کی شمولیت سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اس حوالے سے ریفرنڈم کروانا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ قبائلی اس مسئلے کو کس طرح حل کرنا چاہتے ہیں۔
خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے قبائلی معززین نے کہا کہ فاٹا کو پاکستانی سیاست کے مرکزی دھارے میں لائے بغیر یہ خطہ اور اس کے لوگ ریاست اور ریاست مخالف عناصر کے استحصال کا شکار ہوتے رہیں گے۔
ایک کارکن محب آفریدی نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ کی برسرِاقتدار حکومت قومی اسمبلی کی خالی نشستوں کو پُر کرنے کے لیے ضمنی انتخابات کروانے کے ضمن میں انتہائی پرجوش ہے لیکن فاٹا کے باسیوں کو بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی سے متعلق اس کی پالیسی یکسر مختلف ہے۔ ارکانِ پارلیمان کو اپنے وعدوں کی پاسداری کرنی چاہیے ‘وہ فاٹا میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالیں۔
فاٹا سے تعلق رکھنے والے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)کے رہنماء شاہ حسین نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو فاٹا میں بلدیاتی انتخابات کروانے کے لیے کوئی بہت بڑا منصوبہ تشکیل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا میں امن بحال کیا جاچکا ہے اور ہر کوئی اپنے مقامی رہنماؤں کو منتخب کرنا چاہتاہے۔
انہوں نے کہا:’’ اگرپاکستان کے عزت ماب صدر ایک رات میں فاٹا میں سینیٹ کے انتخابات سے متعلق آرڈیننس جاری کرسکتے ہیں تو وہ فاٹا کے باسیوں کو ان کی امنگوں کے مطابق نمائندے منتخب کرنے کی اجازت دینے کے لیے ایک اور آرڈیننس بھی جاری کرسکتے ہیں۔‘‘
( خیبر ایجنسی سے اشرف الدین پیرزادہ نے رپورٹنگ کی۔)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here