ملک کی نصف آبادی معلومات تک رسائی کے حق سے محروم

0
5699

کراچی (تہمینہ قریشی سے) 2011ء میں اگرچہ آئین کے آرٹیکل 19-Aکے تحت معلومات تک رسائی کو پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق میں شامل کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود ملک کی نصف آبادی کے لیے معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے لیے قواعد و ضوابط تشکیل نہیں دیے جاسکے۔
2013ء کے عام انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا اور پنجاب کی حکومتوں نے عالمی معیار کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے معلومات تک رسائی کے قوانین نافذ کیے۔ دوسری جانب بلوچستان اور سندھ نے معلومات تک رسائی کے ایکٹ بالترتیب 2005ء اور 2006ء میں منظور کیے لیکن یہ قانون سازی عام آدمی کے لیے غیر مؤثر ثابت ہوئی کیوں کہ اس حوالے سے باضابطہ قواعد وضوابط کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی تھی۔
آئینی ماہر اور شہری حقوق کے کارکن ظفراللہ خان کہتے ہیں:’’ اچھی طرزِ حکمرانی کے پانچ بنیادی اصول ہیں جن میں ووٹ، معلومات تک رسائی، تعلیم، عوامی مفاد میں قانون سازی اور صارفین کے حقوق شامل ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس کا دوسرا جزو شہریوں اور حکومت کے مابین معلومات کے بہاؤ کو منتظم کرنے سے متعلق ہے۔
ظفراللہ خان نے مزید کہا:’’ معلومات کا بہاؤبہتر طرزِ حکمرانی کے لیے انتہائی ناگزیر ہے کیوں کہ دوسری صورت میں عوام پر اثراندازہونے والی پالیسیاں غیر مؤثر ہوجاتی ہیں جو خود کو بے یارو مددگار محسوس کرنے لگتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت کا لازمی جزو منتخب نمائندوں کا احتساب ہے جسے عوام اوران کے معاملات کو منتظم کرنے والے حکام کے درمیان معلومات کے بہاؤ کے ذریعے ہی یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اعلان کیا تھا کہ معلومات تک رسائی کو آئین کے آرٹیکل 19-Aکے تحت قانونی حیثیت دینے کے لیے تشکیل دیے گئے قواعد و ضوابط پارلیمنٹ سے منظوری کے منتظر ہیں۔
قوانین پر سیاسی رنگ کا غالب آنا
غیر سرکاری تنظیم شہری، سٹیزنز فار اے بیٹر انوائرنمنٹ اِن سندھ کی معلومات تک رسائی کے شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر سید رضا گردیزی کے مطابق صوبے میں فریڈم آف انفارمیشن کے قانون کو اس لیے کمزور رکھا گیا کیوں کہ افسرِ شاہی یہ نہیں چاہتی کہ ان کو ان کے اقدامات پرعوام کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے۔ 
انہوں نے کہا کہ بہت سے معاملات میں قوانین اس لیے تشکیل دیے جاتے ہیں تاکہ حکومت کے لیے مختلف امور کی انجام دہی میں آسانی پیدا ہو لیکن معلومات تک رسائی کا قانون لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ معلومات تک رسائی کے قانون سے لوگ سرکاری حکام کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات پر تنقید کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں جو یہ پسند نہیں کرتے کیوں کہ وہ خود کو عوام پر ’’حاکم‘‘ تصور کرتے ہیں۔
آئین سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کے لیے کوشاں غیرسرکاری تنظیم سنٹر فار سوک ایجوکیشن کے سربراہ ظفراللہ خان نے کہا کہ سندھ میں نافذ معلومات تک رسائی کے موجودہ قانون کی بنیاد فریڈم آف انفارمیشن آرڈیننس 2002ء پر ہے جو ایک کمزور قانون ہے جس پر تمام فریقوں کی جانب سے تنقید کی جاچکی ہے۔
انہوں نے کہا:’’ بلوچستان اور سندھ میں نافذ یہ قوانین کارآمد نہیں ہیں کیوں کہ یہ سرکاری معلومات تک رسائی کے ضمن میں کوئی واضح طریقۂ کار یا ہدایات فراہم نہیں کرتے جس کے باعث ان کی ازسرِنو تشکیل کی ضرورت ہے۔‘‘
انہوں نے سندھ فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ 2006ء کی خامیوں کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ کوئی سرکاری ریکارڈ تاحال ڈیجیٹل نہیں کیا گیا جس کا وعدہ قانون کی شق چھ میں کیا گیا ہے۔ ظفراللہ خان نے مزید کہا:’’ درحقیقت مذکورہ قانون میں ہی سقم موجود ہیں‘ دوسری جانب اس قانون کے نفاذ کے حوالے سے کوئی طریقۂ کار وضع نہیں کیا گیا جب کہ اس قانون کی شق سات کے تحت کسی بھی اجلاس کی رُوداد کو ’’قابل رسائی‘‘ معلومات کے زمرے سے خارج کر دیا گیا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ اسی طرح شق 15اور 17کچھ خاص معلومات کوخفیہ قرار دیے جانے یا نجی زندگی میں دخل اندازی کا تعین کرنے سے متعلق ہیں ‘یہ بہت زیادہ مبہم ہیں جنہیں واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ شق نمبرآٹھ کے تحت یہ شرط عاید کی گئی ہے کہ عوامی حلقوں کی جانب سے طلب کی گئی معلومات کواگرحکومت مناسب خیال کرتی ہے تو ’’حساس‘‘ یا ’’خفیہ‘‘ قرار دے سکتی ہے۔‘‘
ظفراللہ خان نے مزید کہا کہ مذکورہ قانون کی شق 10کے تحت ہر محکمہ میں ایک افسر کی تعیناتی کی شرط عاید کی گئی ہے جو معلومات تک رسائی کی درخواست پر عملدرآمد کروانے کا مجاز ہوگا۔ تاہم سندھ کے کسی محکمے میں بھی اس ضمن میں کسی افسر کی تعیناتی عمل میں نہیں آئی۔
انہوں نے ایک اور اہم خامی کی نشان دہی کی کہ قانون میں یہ موجود نہیں ہے کہ معلومات تک رسائی کی درخواست پر کتنے عرصہ میں عمل کیا جائے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ متعلقہ حکام کسی درخواست پر عمل کرنے میں مہینوں سے برسوں تک صرف کرسکتے ہیں۔
محقق اور اکیڈمک پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان یہ یقین رکھتے ہیں کہ معلومات تک رسائی کے قوانین کے نفاذ میں تاخیر سے سیاسی عدم دلچسپی عیاں ہوتی ہے کیوں کہ سیاست دان بذاتِ خود اس سے آگاہ نہیں ہیں اور ایسا کوئی ایجنڈا سیاسی جماعتوں کے منشور میں سرے سے شامل ہی نہیں ہے۔
وہ کیا اقدامات ہیں جو ہر صورت میں کیے جائیں؟
ڈاکٹر سید رضا گردیزی نے کہا کہ ’شہری‘ نے سرکاری اَمور میں شفافیت اور انصاف تک رسائی کے لیے ایک اتحاد تشکیل دیاہے تاکہ معلومات تک رسائی کے قوانین کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ آگاہی پیدا کی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ اس اتحاد میں سندھ کی 20غیر سرکاری تنظیموں کو شامل کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا:’’ ابتداء میں جب ہم نے آغاز کیا تو حکام کی جانب سے ہماری درخواستوں پر ایک سال یا اس سے بھی زائد عرصہ بعد عمل کیا گیا۔ لیکن اب ہم چند مہینوں میں جواب حاصل کرلیتے ہیں‘ یہ عرصہ عموی طور پر چار سے چھ ماہ کے درمیان ہوتا ہے۔‘‘
سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شیخ ملک میں معلومات تک رسائی کے لیے کی جانے والی کوششوں میں پیش پیش رہے ہیں‘ انہوں نے خیبرپختونخوا اور پنجاب کے معلومات تک رسائی کے نئے قوانین کی کچھ اہم شقوں کا خلاصہ بیان کیا ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ سندھ اور بلوچستان میں نافذ قوانین کو اولذکر صوبوں کی طرز پر ازسرِ نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ یہ زیادہ مؤثر اور عالمی معیار سے ہم آہنگ ہوجائیں۔ 
ڈاکٹر علی محمد شیخ کے مطابق صوبہ خیبرپختونخوا میں نافذ کیے جانے والے معلومات تک رسائی کے قانون کو عالمی معیار سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس میں چند اہم شقیں شامل کی گئی ہیں‘ جن میں حکام کی جانب سے زیادہ سے زیادہ معلومات افشا کرنے کے علاوہ زندگی اور موت کی صورت میں24گھنٹوں میں معلومات تک رسائی ممکن بناناشامل ہے؛ محکمہ جاتی ریکارڈ اور معلومات میں بھی فرق واضح کیا گیا ہے؛ اولین 20صفحات کی بلامعاوضہ فراہمی کے باعث اخراجات کم کردیے گئے ہیں؛ معلومات تک رسائی کو حساس نوعیت کے قوانین پر برتری دیے جانے کے علاوہ معاشرے میں بدعنوانی کی نشان دہی کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت بھی فراہم کی گئی ہے۔
تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ پنجاب میں معلومات تک رسائی کا قانون وزیراعلیٰ کے دفتر پر لاگو نہیں ہوتا۔ ظفراللہ خان نے تبصرہ کیا کہ سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں اور تحقیق کاروں کے لیے قانونی آگاہی، مذکورہ قانون کو عالمی معیار سے ہم آہنگ کرنا اوراس کا نفاذ انتہائی اہم ہے۔ 
ظفراللہ خان نے مزید کہا کہ بلوچستان اور سندھ میں معلومات تک رسائی کے قوانین کی آئین کے آرٹیکل 19-Aسے مطابقت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جن پر خیبرپختونخوا اور پنجاب کی طرح کا ایک خودمختار ادارہ عملدرآمد یقینی بنائے۔
انہوں نے کہا:’’ اگر قواعد و ضوابط تشکیل نہیں دیے جاتے اور فائل کو غائب کرنے کی روایت کا تدارک نہیں کیا جاتا تو موجودہ قانون سازی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ اس وقت ادارہ جاتی ڈھانچہ تشکیل دینے اور معلومات تک رسائی کے قوانین کے نفاذ کی ضرورت ہے جب کہ اس کے ساتھ ہی معلومات تک رسائی کے حق کے بارے میں آگاہی بھی پیدا کی جائے۔‘‘
فیڈرل اردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر سیمیں نغمانہ طاہر کہتی ہیں:’’ حکومت معلومات ظاہر نہ کرنے کے ضمن میں اس نوعیت کے جملے ’قومی مفاد اور عوامی مفاد‘ بولنے کی عادی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ کسی بھی حکومتِ وقت کا مفاد قومی مفاد کے طور پر نافذ کردیاجاتا ہے۔ یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث ان اصطلاحات کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here