اٹک جیل اور معراج محمد خان کی تا دم مرگ بھوک ہڑتال

0
444

ضیا الحق کے مارشل لا   سنہ 1977 میں جہاں زولفقار علی بھٹو کو اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا وہاں ان کی کابینہ کے دوسرے ممبران کو اٹک جیل بھیجا گیا جن میں سابق آئی-جی پنجاب راؤ رشید بھی شامل تھے۔

معراج محمد خان جو کے بھٹو کو پہلے ہی خیرباد کہہ چکے تھے اور مزاحمت کا  استعارہ سمجھے جاتے تھے ان کو بھی ضیا نے اٹک جیل میں قید کررکھا تھا۔

معراج محمد خان نے ضیا الحق کے مارشل لا کے خلاف تا دم بھوک ہڑتال کرنے کا اعلان کیا جو کے 14 دن تک جاری رہی۔

غلام سرور خان لعلوانی جو کے ماضی کے مشہور جیلر ہیں اور اس دور میں اٹک جیل کے  انجارج  رہے اس بارے گفتگو کرتے ہوئے  نیوزلینز پاکستان کو  بتایا کہ ” معراج محمد خان کو بھی گرفتار کر کے اٹک جیل لے آئے تھے جہاں انھوں نے ضیا کے مارشل لا کے خلاف بھوک ہڑتال کا فیصلہ کیا جو کہ 14 روز تک جاری رہی۔ میں نے بہت کوشش کی کہ وہ اس بھوک ہڑتال کو ختم کر دیں لیکن میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ایک دن بلوچستان کے جنرل شیر خان بھی جنرل ضیا کے کہنے پر معراج محمد خان کی بھوک ہڑتال ختم کروانے آئے، لیکن وہ بھی اس میں ناکام رہے۔ “

ان کا مذید کہنا تھا کہ “ایک دن معراج صاحب  کی اہلیہ میرے دفتر میں تشریف لایئں اور  مجھے برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور مجھ  پر الزام لگایا کے آپ میرے خاوند کو مارنا چاہتے ہیں۔ جس پر میں نے  تحمل سے ان کی بات سنی اور جواب دیا کہ میں نہیں آپ خود ان کو مارنا چاہتی ہیں۔جس پر انھوں نے کہا کہ میں کیسے مارنا چاہتی ہوں؟ جس پر میں نے جواب دیا کہ ہم نے تمام حربے استعمال کر لیے ہیں لیکن وہ کچھ نہیں کھا رہے۔ اگر آپ ان سے کہیں تو وہ یہ بھوک ہڑتال ختم کر دیں گے جس پر انھوں نے اپنی اہلیہ کے کہنے پر بھوک ہڑتال ختم کر دی۔ لیکن تب تک معراج محمد خان صاحب کمزور ہو کے ڈھانچہ بن چکے تھے۔ اس سے پہلے مجھے ہر روز یہ ہی ڈر رہتا تھا کے اگر وہ مر گئے تو اس کا الزام مجھ پر آئے گا۔”

 غلام سرور خان لعلوانی نے مذید بتایا کہ “ایک دن کچھ اصحاب جیل میں داخل ہوئے اور معراج محمد خان کو ان کے حوالے کرنے کا کہنے لگے جس پر پوچھنے پر معلوم ہوا کے ان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریڑ نے بولایا ہے تو میرے پاس کوئی چوائس نہیں تھی تو میں نے معراج محمد خان کو بیرک سے نکال کر ان کے ہمراہ روانہ کر دیا۔  واپسی پر معراج محمد خان نے بتایا کہ میری ملاقات جنرل ضیا الحق  سے ہوئی۔ جس پر میں نے جنرل ضیا الحق کو ان کے غیر آیئنی قدم پر بہت زیادہ تنقید کی جو وہ تحمل سے سنتے رہے۔ بعد میں جنرل ضیا نے مجھ سے کہا کہ آپ بہت قابل آدمی اور بہت اچھے سیاستدان ہیں۔ بھٹو نے آپ کے ساتھ بہت برا کیا۔ تو آپ یوں کریں کے نئی  پارٹی لانچ کریں، آپ کو بھرپور سپورٹ کریں گے۔ جس پر معراج محمد خان نے کہا کے وہ کوئی ایسا کام نہیں کر سکتے اور وہ انھیں انکار کر کے آگئے۔”

بعد میں معراج محمد خان صاحب کبھی پی پی پارٹی میں واپس نہیں گئے لیکن ان کی وہاں بہت عزت تھی۔ تحریک بحالی جمہوریت میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے اور عوام کو اپنی خوبصورت تقریروں سے حوصلہ فراہم کرتے رہے۔

معراج محمد خان صاحب نے لگ بھگ سنہ  2000 میں عمران خان کی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور کچھ دیر بعد اسے خیرباد کہہ دیا۔

سینیر صحافی مبشربخاری کا کہنا ہے کہ “اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل معراج محمد خان صاحب سے جب عمران خان کا ساتھ چھوڑنے پر بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ عمران خان کے ساتھ سیاست پر کام نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ انھیں سیاست کی سمجھ بھوج نہیں ہے”۔

اٹک جیل بہت ساری سیاسی شخصیات کا مسکن رہا ہے۔ جن میں ملک غلام مصطفٗی کھر سابق گورنر پنجاب اور بھٹو کے بہت سے ساتھی بھی اسی جیل میں رہے۔ جن کا تذکراہ تہمینہ درانی نے اپنی کتاب مائی فیوڈرل لارڈ میں بھی کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ شاہ محمود قریشی بھی اٹک جیل کی یاترا کر چکے ہیں اورآجکل عمران خان بھی اسی اٹک جیل میں ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here