پشاور : عبدالکریم سورج کی تپش سے بچنے کے لیے یوکلپٹس کے درخت کی چھائوں تلے بیٹھے ہیں۔ ان کا 30ارکان پر مشتمل خاندان ان کے ساتھ ہی بیٹھا ہوا ہے، ان کے اطراف میں ہزاروں دیگر افغان مہاجرین بھی موجود ہیں،سب پسینے سے شرابور ہیں اور درخت کنارے لہلہا رہے اِکا دُکا یوکلپٹس کے سایے میں آرہے ہیں۔
عبدالکریم اور ان کے خاندان کو پشاور کے نواحی علاقے چامکینی آئے ایک ہفتہ گزر چکا ہے جہاں مرد، خواتین و بچے رضاکارانہ بحالی مرکز( وی آر سی) میں معاونت کے لیے اندراج کروانے کی غرض سے کھلے آسمان تلے انتظار کررہے ہیں، یہ ادارہ اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین(یو این ایچ سی آر) کے تحت چلایا جارہا ہے جو افغان مہاجرین کی ان کی گھروں کو واپسی میں معاونت فراہم کرتا ہے۔
ہر روز یہاں ہزاروں مہاجرین افغانستان واپسی سے قبل مالی تعاون اور ٹرانسپورٹ میں مدد حاصل کرنے کے لیے اپنا اندراج کروانے کی غرض سے آرہے ہیں کیوں کہ پاکستان میں ان کے قیام کی مدت ختم ہورہی ہے۔ پاکستانی حکام افغان مہاجرین کے قیام میں متعدد بار توسیع کرچکے ہیں۔ اس بار31دسمبر2016ء کی حتمی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔
عبدالکریم نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا؛’’ہم اور ہمارے خاندان رجسٹریشن کا انتظار کرتے ہوئے جانوروں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔یہاں کوئی سائبان نہیں ہے، پینے کا صاف پانی ہے اور نہ ہی بیت الخلا کی سہولت موجود ہے۔‘‘ وہ زمین پر بچھائی گئی میلی سی چٹائی پر بیٹھے تھے۔
پاکستانی حکومت نے دسمبر2014ء میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد افغان مہاجرین کے حوالے سے بے لچک پالیسی اختیار کی تھی جس میں 140سے زائد بچے ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ منصوبہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں نے بنایا تھا اور انہوں نے ہی اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کے بعد دہشت گردی سے نمٹنے کے لیئے تشکیل دیئے گئے قومی ایکشن پلان کے 20نکات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ افغان مہاجرین کی رجسٹریشن کے لیے جامع پالیسی بنائی جائے۔
افغان مہاجرین نے پہلی بار افغانستان میں روسی مداخلت کے بعد پاکستان کارُخ کیا تھا۔ حتیٰ کہ افغانستان سے روس کے انخلا کے بعد بھی یہ غیر مستحکم رہا اور امن و جنگ کے مختلف ادوار میں مہاجرین کی پاکستان آمد اور واپسی کا سلسلہ جاری رہا۔افغانستان میں عدم استحکام کی تین دہائیوں کے دوران پاکستان نے 30لاکھ سے زائد مہاجرین کی میزبانی کی ہے۔
ناصر پور سے چمکانی پولیس سٹیشن تک جی ٹی روڈ پر دو سوٹرک کھڑے ہیں جو واپس جانے والے افغانوںکے سامان سے بھرے ہوئے ہیں، وہ افغانستان جانے کے لیے کلیئرنس حاصل کرنے اور معاونت کے حصول کے لیے اپنی باری کے منتظر ہیں۔ مہاجرین یو این ایچ سی آر کے عملے کی جانب سے شناخت کی تصدیق کے لیے آنکھوں کا سکین اور پروف آف رجسٹریشن کارڈ ، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ پاکستان میں مہاجر کے طورپر رجسٹرڈ ہیں، کی تصدیق کروا کر افغانستان جارہے ہیں۔
یواین ایچ سی آر سے چار سو ڈالر کی مالی امداد حاصل کرنے کے لیے رجسٹرڈ مہاجرین کے لیے یہ کارروائی انجام دینا ضروری ہے۔
یواین ایچ سی آر کے مطابق پاکستان میں 15لاکھ سے زائد رجسٹرڈ افغان مہاجرین ہیں۔یو این ایچ سی آر پشاور کے ایکسٹرنل ریلیشنز ایسوسی ایٹ صمد خان نے کہا کہ یو این ایچ سی آر کو دسمبر2016ء تک تمام افغان مہاجرین کی واپسی عمل میں لانی ہے۔
25برس کے محمد سلیمان، جو پاکستان میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے، کہتے ہیں کہ وہ اور ان کا خاندان گزشتہ آٹھ روز سے انتہائی برے حالا ت میں وی آر سی کے باہر انتظار کررہا ہے۔
پسینے میں شرابورمحمد سلیمان نے آنسو بہاتے ہوئے کہا:’’ پاکستان میں زندگی کے پرسکون ماہ و سال گزارنے کے بعد میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ زندگی میں کبھی ایسی پریشانی کا پھر سامنا کروں گا۔‘‘انہوں نے کہا کہ وہ کھانے کے عارضی ٹھیلے پر فروخت ہونے والی غیر معیاری اشیا ء مہنگے داموں خریدتے رہے ہیں کیوں کہ وہ یہ مقام چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔
محمد سلیمان کہتے ہیں:’’حتیٰ کہ ہم حکام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے احتجاج بھی نہیں کرسکتے کیوں کہ ہم پولیس کے ساتھ کوئی جھگڑ ا مول نہیں لے سکتے جیسا کہ ہم اپنے خاندان کے ساتھ ہیں۔‘‘
عبدالکریم نے کہا کہ ان کا انتظار اس وقت طویل ہورہا ہے کیوں کہ وی آر سی پر تعینات پولیس اہلکار اور گارڈ مختلف خاندانوں سے 10ہزار روپے رشوت لے کر ان کو قطار میں آگے کھڑا کردیتے ہیںا ور وی آر سی میں جانے دیتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا:’’پاکستان میں حکام اسے افغانوں سے رقم بٹورنے کے آخری موقع کے طورپر دیکھ رہے ہیں۔‘‘
تاہم پولیس اہلکاروں اور گارڈز نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ ایک گارڈ نے، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، کہا:’’ہم ان بے یارومددگار لوگوں کے ساتھ ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔‘‘
محمدسلیمان نے کہا کہ وی آر سی پر تعینات حکام کا رویہ بھی ’’نامناسب‘‘ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے بہت سے ان کے اپنے ملک کے ہیں۔ محمد سلیمان کا مزید کہنا تھا:’’ یو این ایچ سی آر یا افغان سفارت خانے کے کسی اہلکار نے ان آٹھ دنوں کے دوران ان کی مشکلات کے بارے میںدریافت نہیں کیا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ وی آر سی پر سست روی سے بحالی کے عمل کے باعث ہزاروں افغان مہاجرین کئی روز سے مرکز کے باہر کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔
چمکانی ، پشاور میں موجود وی آر سی صوبہ خیبرپختونخوا کا واحد بحالی مرکز ہے۔ سرحدی صوبے بلوچستان میں ایک اور قائم ہے اور وہ بھی افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے۔ پشاور میں قائم وی آر سی پر خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر اور حتیٰ کہ پنجاب سے بھی افغان مہاجرین آتے ہیں۔
صمد خان نے کہا کہ یو این ایچ سی آر نے مہاجرین کی اس قدر بڑی تعداد کی پیش بینی نہیں کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا:’’یو این ایچ سی آر کی جانب سے معاونتی رقم دو سو ڈالر سے بڑھا کر چار سو ڈالر کئے جانے اور پاکستانی حکومت کی افغانوں کے حوالے سے بے لچک پالیسی کے باعث واپس جانے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘
صمد خان نے کہا کہ یکم جنوری 2016ء سے اب تک 10,198خاندان (50,033لوگ)مرکز میں رجسٹرڈ ہوچکے ہیں جن میں سے 8,842 (43,773افراد)18جولائی سے اب تک رجسٹرڈ ہوئے ہیں جو اوسطاًپانچ سو خاندان روزانہ بنتے ہیں۔
صمد خان نے کہا کہ مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یو این ایچ سی آر نوشہرہ میں ایک اور وی آر سی قائم کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یواین ایچ سی آر واپس لوٹنے والے افغان مہاجرین کی معاونت کے لیے کام کا دورانیہ بڑھانے اور ہفتہ وار چھٹی ختم کرنے پر بھی غور کررہا ہے۔